حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی جو بائیڈن انتظامیہ کے ذمہ داران کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت کانفرنس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے والے ممالک کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔ چینی کہہ رہے ہیں کانفرنس میں شرکت نہ کرکے پاکستان نے بھائی بن کر دیکھایا۔
ہمارے ہاں تجزیہ نگار دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک کی رائے یہ ہے کہ امریکہ میں منعقدہ جمہوریت کانفرنس میں شریک ہوکر اپنے موقف کااظہار کرنا چاہیے تھا، دوسرے فریق کا موقف ہے کہ کہ چونکہ امریکہ نے بھارت کو خطے میں اپنا اتحادی بنارکھا ہے اس لئے اس کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ درست ہے۔
ان آراء کے بیچوں بیچ ایک رائے یہ بھی ہے کہ امریکی کج ادائیوں کی طویل داستان ہے اور اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھنے یا امریکی کیمپ میں رہنے کا فیصلہ درست نہیں ہوگا۔
پچھلی سرد جنگ کے زمانہ میں ہم امریکی کیمپ کا پرجوش حصہ رہے۔ سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے اڈا دینے سے لے کر افغان انقلاب ثور کے خلاف امریکی جہاد میں شرکت اور پھر 9/11کے بعد انسداد دہشت گردی کی جنگ میں حصہ ڈالنے سے لیکر افغانستان سے اگست میں ہوئے امریکہ و اتحادی انخلا تک کے برسوں میں ہمارے پالیسی سازوں نے قومی مفادات کے برعکس پالیسیوں کا ڈھول بجاکر اپنا نقصان کیا۔
اس نقصان کی فہرست طویل ہے۔ امریکی اپنی امداد کا حساب تو مانگتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ چالیس سالہ افغان پالیسی کی وجہ سے ساڑھے تین سے چار کھرب ڈالر کے جس معاشی نقصان کا پاکستان کو سامناکرنا پڑا اس کا نعم البدل کیا ہے۔ معاشی نقصان کے ساتھ امن و امان کے پیدا ہوئے مسائل اور 75ہزار سے زائد انسانی جانوں کا امریکہ نواز پالیسی کا رزق بن جانا بذات خود ایک المیہ ہے۔
اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ امریکہ نے قدم قدم پر بھونڈی الزام تراشی کی۔ اس الزام تراشی پر بات کرتے ہوئے بہت ساروں سمیت اس تحریر نویس کے بھی ’’پَر‘‘ جلتے ہیں اس لئے رہنے دیجئے آبیل مجھے مار کے مصداق والی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔
لمبی چوڑی بحث کو چھوڑیں اگست میں مکمل ہونے والے امریکہ و اتحادی انخلا کے بعد امریکیوں نے انخلاء کے عمل میں پرجوش تعاون کے باوجود بعدازاں جو الزامات اچھالے اس سے پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہوئی دراڑیں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی نے 2020ء میں جنوبی ایشیا اور خصوصاً افغانستان میں داعش کے منظم ہونے میں بھارت کے جس کردار کی نشاندہی کی، امریکی حکومت نے اس سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے ۔
اسی طرح رواں سال جون میں جب امریکیوں نے افغان طالبان کی قیادت کو قطر کے توسط سے یہ پیغام بھجوایا کہ ’’انخلا کے عمل اور بعد میں ہم افغان حکومت کے ہمنوا نہیں ہوں گے‘‘ تو تب امریکیوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی تھی کہ اس فیصلے سے پیدا ہونے والے بحران نے اگر کسی مرحلہ پر انسانی المیہ کو جنم دیا تو کیا ہوگا؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکی صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہیں۔ افغانستان سے انخلا کے فیصلے اور اس پر عمل کے مرحلہ میں اس کےپیش نظر صرف اپنے مفادات تھے۔
امریکی افغانستان سے نکل گئے، تالیاں بجانے والے ہجوم نے اسے ’’بے سروسامان‘‘ افغان طالبان کی فتح مبین کے طور پر پیش کیا۔ اُن دنوں بھی اِن سطور میں عرض کیا تھا کہ امریکہ عالمی سیاست میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے کردار سے پریشان ہے وہ افغانستان سے نکل کر اپنے ان دو بڑے حریفوں پر توجہ دینا چاہتا ہے۔
اب یہ حقیقت سبھی تسلیم کررہے ہیں کہ دنیا ایک نئی سرد جنگ کے زمانے میں داخل ہورہی ہے۔ جمہوریت کانفرنس محض ایک بہانہ ہے اصل میں امریکی چین اور روس کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کون کون کہاں سے ہمارے ساتھ ہے۔
کانفرنس کے انعقاد کے دنوں میں امریکہ نے ان بعض چینی مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگادی جو بقول اس کے چینی مسلم صوبہ کے ایغور مسلمانوں کے لئے قائم بیگار کیمپوں میں تیار ہوتی ہیں۔
چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت اور عالمی سیاست میں چین روس اتحاد کے پراثر کردار کی بدولت امریکیوں کو مسائل کا سامنا ہے۔
مثال کے طور پر شام میں بشارالاسد کے خلاف النصرہ فرنٹ کی بغاوت ہو یا پھر داعش کا ظہور، چین روس اتحاد نے شامی حکومت کا ساتھ دیا۔ ایران اعلانیہ اور لبنانی حزب اللہ غیراعلانیہ طور پر اس اتحاد کا حصہ تھے۔
النصرہ فرنٹ تین ارب ڈالر سالانہ کی قطر سے ملنے والی امداد کے باوجود کامیاب نہیں ہوپایا اسی طرح داعش کے جنگجوئوں کو بھی شکست کے بعد شام سے نکلنا پڑا۔
دنیا اس حقیقت سے کاملاً آگاہ تھی کہ۔ عراق اور شام میں داعش کی سرگرمیوں کے زمانے میں داعش کے زخمیوں کے لئے شام سے ملحقہ اسرائیلی سرحدی علاقے میں دو جدید ہسپتال کام کرتے رہے۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ داعش کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی کا اسرائیلی ہسپتال میں علاج ہوا۔
چین روس اتحاد اگر ایران اور حزب اللہ کے ساتھ شامی حکومت کا ہمنوا نہ ہوتا تو بشارالاسد کو شکست یقینی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں مضبوط اتحادیوں کے باوجود امریکی پالیسی سازوں کی شکست، جنوبی ایشیا میں پاکستان اور چین کے مقابلہ میں بھارت کی ہمہ قسم کی سرپرستی کے باوجود یہاں بھی امریکی اپنے مفادات کے حصول میں ناکام رہے۔
جنوبی ایشیاء میں بڑھتے ہوئے پاک چین معاشی تعاون اوربالخصوص سی پیک پر امریکی اعتراضات ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں۔
پیپلزپارٹی کے دور میں پاک ایران گیس پائپ لائن سمجھوتے پر ابتدائی کام (ایرانی حدود میں) ہوچکنے کے باوجود پاکستان نے امریکی دبائو پر اپنے حصہ کا کام شروع نہ کیا۔ امریکی دبائو پر (ن) لیگ کی سیاسی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بے بس تھی یا یہ حکومتی فیصلہ تھا؟ یہ سوال معمہ ہرگز نہیں۔
امریکیوں کا اگلا اعتراض سی پیک منصوبے پر تھا اور ہے۔
بے پناہ امریکی دبائو پر ہمارے ہاں اس منصوبے پر کام کی رفتار قدرے سست تو کردی گئی مگر منصوبے سے نکلنے یا اسے کلی طور پر ختم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ اسی اثنا میں دو دوست ممالک نے اڑھائی سے تین سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کا جھانسہ بھی دیا۔
یہ بھی کہا گیا کہ گوادر میں آئل ریفائنری لگاکر دیں گے۔ پھر خاموشی چھاگئی۔ وجہ یہی تھی کہ اس سرمایہ کاری کی شرط یہی تھی کہ سی پیک کا باب بند کردیا جائے۔
اب جبکہ پوری دنیا پر امریکہ میں ہونے والی جمہوری کانفرنس کے مقاصد عیاں ہوچکے ہیں تو اس کانفرنس میں شرکت کے لئے ابتدا میں پاکستان کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ اب کانفرنس کے انعقاد سے چند دن قبل اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ جواباً پاکستان نے کانفرنس کو نئی عالمی دھڑے بندی کی شروعات قرار دیتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کردیا۔
اصولی طور پر یہ فیصلہ درست ہے طویل عرصہ تک پرجوش امریکی اتحادی کا کردار ادا کرکے پاکستان کو کیا ملا۔ معاشی و جانی نقصان اور بے پناہ مسائل کے؟ یہ بجا ہے کہ سی پیک منصوبے کے معاہدہ پر ہمارے ہاں تحفظات موجود ہیں لیکن اسے ختم کرنے کی بجائے مطالبہ یہ کیا جارہا ہے کہ اس معاہدے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے۔
البتہ ابھی تک کسی موثر سیاسی قوت نے نئی عالمی دھڑے بندی کے امریکی انتظامات کا حصہ نہ بننے کے فیصلے پر اعتراض نہیں اٹھایا۔ ایک طرح سے یہ فیصلہ درست ہے۔
امریکہ نے کب اور کس مرحلہ پر پاکستان کے مفادات کو نظرانداز کرنے کی روش نہیں اپنائی؟
کم از کم یہ ایک درست فیصلہ ہے کہ پاکستان، چین اور روس کے عالمی سیاسی اتحاد اور چینی معیشت کے خلاف امریکی پالیسیوں کی ہمنوائی کی بجائے آزاد روی اختیار کرے۔ ویسے بھی دور کے تعلق داروں سے پڑوسی اچھے ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں تجزیہ نگار دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک کی رائے یہ ہے کہ امریکہ میں منعقدہ جمہوریت کانفرنس میں شریک ہوکر اپنے موقف کااظہار کرنا چاہیے تھا، دوسرے فریق کا موقف ہے کہ کہ چونکہ امریکہ نے بھارت کو خطے میں اپنا اتحادی بنارکھا ہے اس لئے اس کانفرنس میں عدم شرکت کا فیصلہ درست ہے۔
ان آراء کے بیچوں بیچ ایک رائے یہ بھی ہے کہ امریکی کج ادائیوں کی طویل داستان ہے اور اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھنے یا امریکی کیمپ میں رہنے کا فیصلہ درست نہیں ہوگا۔
پچھلی سرد جنگ کے زمانہ میں ہم امریکی کیمپ کا پرجوش حصہ رہے۔ سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے اڈا دینے سے لے کر افغان انقلاب ثور کے خلاف امریکی جہاد میں شرکت اور پھر 9/11کے بعد انسداد دہشت گردی کی جنگ میں حصہ ڈالنے سے لیکر افغانستان سے اگست میں ہوئے امریکہ و اتحادی انخلا تک کے برسوں میں ہمارے پالیسی سازوں نے قومی مفادات کے برعکس پالیسیوں کا ڈھول بجاکر اپنا نقصان کیا۔
اس نقصان کی فہرست طویل ہے۔ امریکی اپنی امداد کا حساب تو مانگتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ چالیس سالہ افغان پالیسی کی وجہ سے ساڑھے تین سے چار کھرب ڈالر کے جس معاشی نقصان کا پاکستان کو سامناکرنا پڑا اس کا نعم البدل کیا ہے۔ معاشی نقصان کے ساتھ امن و امان کے پیدا ہوئے مسائل اور 75ہزار سے زائد انسانی جانوں کا امریکہ نواز پالیسی کا رزق بن جانا بذات خود ایک المیہ ہے۔
اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ امریکہ نے قدم قدم پر بھونڈی الزام تراشی کی۔ اس الزام تراشی پر بات کرتے ہوئے بہت ساروں سمیت اس تحریر نویس کے بھی ’’پَر‘‘ جلتے ہیں اس لئے رہنے دیجئے آبیل مجھے مار کے مصداق والی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔
لمبی چوڑی بحث کو چھوڑیں اگست میں مکمل ہونے والے امریکہ و اتحادی انخلا کے بعد امریکیوں نے انخلاء کے عمل میں پرجوش تعاون کے باوجود بعدازاں جو الزامات اچھالے اس سے پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہوئی دراڑیں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی نے 2020ء میں جنوبی ایشیا اور خصوصاً افغانستان میں داعش کے منظم ہونے میں بھارت کے جس کردار کی نشاندہی کی، امریکی حکومت نے اس سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے ۔
اسی طرح رواں سال جون میں جب امریکیوں نے افغان طالبان کی قیادت کو قطر کے توسط سے یہ پیغام بھجوایا کہ ’’انخلا کے عمل اور بعد میں ہم افغان حکومت کے ہمنوا نہیں ہوں گے‘‘ تو تب امریکیوں نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی تھی کہ اس فیصلے سے پیدا ہونے والے بحران نے اگر کسی مرحلہ پر انسانی المیہ کو جنم دیا تو کیا ہوگا؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکی صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہیں۔ افغانستان سے انخلا کے فیصلے اور اس پر عمل کے مرحلہ میں اس کےپیش نظر صرف اپنے مفادات تھے۔
امریکی افغانستان سے نکل گئے، تالیاں بجانے والے ہجوم نے اسے ’’بے سروسامان‘‘ افغان طالبان کی فتح مبین کے طور پر پیش کیا۔ اُن دنوں بھی اِن سطور میں عرض کیا تھا کہ امریکہ عالمی سیاست میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے کردار سے پریشان ہے وہ افغانستان سے نکل کر اپنے ان دو بڑے حریفوں پر توجہ دینا چاہتا ہے۔
اب یہ حقیقت سبھی تسلیم کررہے ہیں کہ دنیا ایک نئی سرد جنگ کے زمانے میں داخل ہورہی ہے۔ جمہوریت کانفرنس محض ایک بہانہ ہے اصل میں امریکی چین اور روس کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کون کون کہاں سے ہمارے ساتھ ہے۔
کانفرنس کے انعقاد کے دنوں میں امریکہ نے ان بعض چینی مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگادی جو بقول اس کے چینی مسلم صوبہ کے ایغور مسلمانوں کے لئے قائم بیگار کیمپوں میں تیار ہوتی ہیں۔
چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت اور عالمی سیاست میں چین روس اتحاد کے پراثر کردار کی بدولت امریکیوں کو مسائل کا سامنا ہے۔
مثال کے طور پر شام میں بشارالاسد کے خلاف النصرہ فرنٹ کی بغاوت ہو یا پھر داعش کا ظہور، چین روس اتحاد نے شامی حکومت کا ساتھ دیا۔ ایران اعلانیہ اور لبنانی حزب اللہ غیراعلانیہ طور پر اس اتحاد کا حصہ تھے۔
النصرہ فرنٹ تین ارب ڈالر سالانہ کی قطر سے ملنے والی امداد کے باوجود کامیاب نہیں ہوپایا اسی طرح داعش کے جنگجوئوں کو بھی شکست کے بعد شام سے نکلنا پڑا۔
دنیا اس حقیقت سے کاملاً آگاہ تھی کہ۔ عراق اور شام میں داعش کی سرگرمیوں کے زمانے میں داعش کے زخمیوں کے لئے شام سے ملحقہ اسرائیلی سرحدی علاقے میں دو جدید ہسپتال کام کرتے رہے۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ داعش کے نام نہاد خلیفہ ابوبکر البغدادی کا اسرائیلی ہسپتال میں علاج ہوا۔
چین روس اتحاد اگر ایران اور حزب اللہ کے ساتھ شامی حکومت کا ہمنوا نہ ہوتا تو بشارالاسد کو شکست یقینی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں مضبوط اتحادیوں کے باوجود امریکی پالیسی سازوں کی شکست، جنوبی ایشیا میں پاکستان اور چین کے مقابلہ میں بھارت کی ہمہ قسم کی سرپرستی کے باوجود یہاں بھی امریکی اپنے مفادات کے حصول میں ناکام رہے۔
جنوبی ایشیاء میں بڑھتے ہوئے پاک چین معاشی تعاون اوربالخصوص سی پیک پر امریکی اعتراضات ایک حقیقت کے طور پر موجود ہیں۔
پیپلزپارٹی کے دور میں پاک ایران گیس پائپ لائن سمجھوتے پر ابتدائی کام (ایرانی حدود میں) ہوچکنے کے باوجود پاکستان نے امریکی دبائو پر اپنے حصہ کا کام شروع نہ کیا۔ امریکی دبائو پر (ن) لیگ کی سیاسی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے سامنے بے بس تھی یا یہ حکومتی فیصلہ تھا؟ یہ سوال معمہ ہرگز نہیں۔
امریکیوں کا اگلا اعتراض سی پیک منصوبے پر تھا اور ہے۔
بے پناہ امریکی دبائو پر ہمارے ہاں اس منصوبے پر کام کی رفتار قدرے سست تو کردی گئی مگر منصوبے سے نکلنے یا اسے کلی طور پر ختم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ اسی اثنا میں دو دوست ممالک نے اڑھائی سے تین سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کا جھانسہ بھی دیا۔
یہ بھی کہا گیا کہ گوادر میں آئل ریفائنری لگاکر دیں گے۔ پھر خاموشی چھاگئی۔ وجہ یہی تھی کہ اس سرمایہ کاری کی شرط یہی تھی کہ سی پیک کا باب بند کردیا جائے۔
اب جبکہ پوری دنیا پر امریکہ میں ہونے والی جمہوری کانفرنس کے مقاصد عیاں ہوچکے ہیں تو اس کانفرنس میں شرکت کے لئے ابتدا میں پاکستان کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ اب کانفرنس کے انعقاد سے چند دن قبل اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ جواباً پاکستان نے کانفرنس کو نئی عالمی دھڑے بندی کی شروعات قرار دیتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کردیا۔
اصولی طور پر یہ فیصلہ درست ہے طویل عرصہ تک پرجوش امریکی اتحادی کا کردار ادا کرکے پاکستان کو کیا ملا۔ معاشی و جانی نقصان اور بے پناہ مسائل کے؟ یہ بجا ہے کہ سی پیک منصوبے کے معاہدہ پر ہمارے ہاں تحفظات موجود ہیں لیکن اسے ختم کرنے کی بجائے مطالبہ یہ کیا جارہا ہے کہ اس معاہدے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے۔
البتہ ابھی تک کسی موثر سیاسی قوت نے نئی عالمی دھڑے بندی کے امریکی انتظامات کا حصہ نہ بننے کے فیصلے پر اعتراض نہیں اٹھایا۔ ایک طرح سے یہ فیصلہ درست ہے۔
امریکہ نے کب اور کس مرحلہ پر پاکستان کے مفادات کو نظرانداز کرنے کی روش نہیں اپنائی؟
کم از کم یہ ایک درست فیصلہ ہے کہ پاکستان، چین اور روس کے عالمی سیاسی اتحاد اور چینی معیشت کے خلاف امریکی پالیسیوں کی ہمنوائی کی بجائے آزاد روی اختیار کرے۔ ویسے بھی دور کے تعلق داروں سے پڑوسی اچھے ہوتے ہیں۔
۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ