رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریک راتوں میں جگنو کی روشنی کیسے خوش کن سماں باندھ دیتی ہے۔ راہیں تاریک ہوں، کوئی مشعل یا دیا لے کر آ جائے، قافلوں کی رہنمائی کرے تو ان سے بڑا محسن کون ہو سکتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں، ہر طرف روشنی ہے، دن کھلا، فضا صاف اور کرنیں ذرے ذرے کو منور کر رہی ہیں، پھر کون سی تاریکی اور یہ کون سی راہوں کی باتیں کرکے ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ تاریکی جہالت، ظلم، ناانصافی، لاقانونیت اور پسے ہوئوں کو اور کمزوروں کو دبانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ظالموں کے تو وارے نیارے رہتے ہیں، مگر ان کی طرف سے زیادتیوں کے اثرات معاشرے اور افراد کے ذہنوں پہ مرتب ہوتے ہیں، جو خاموش مگر گھناؤنے، گہرے اور اذیت ناک زخموں سے کم نہیں ہوتے۔ چلو ذرا کھل کر بات کرتے ہیں‘ کچھ گزشتہ مضمون میں بھی ذکر کر چکا ہوں کہ درسگاہوں میں ایک خاص نوعیت، ذہنی رجحان اور فکری دھارے کے لوگوں کیلئے راستہ ہموار کرنے اور انہیں طاقتوں کی گدیوں پہ بٹھانے کیلئے ضروری سمجھا گیا کہ نظریاتی مخالفین سے جامعات صاف کر دی جائیں۔ کوئی فرضی باتیں تو نہیں کر رہا، گزشتہ چالیس سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ کس، کس کا نام لوں، کہ کیسے کہاں سے اور کس بہانے اور طریقے سے درس و تدریس اور نوکریوں سے فارغ کر دئیے گئے۔ چند دن پہلے حضرت جوش ملیح آبادی کی ”یادوں کی برات‘‘ کو ایک بار پھر پڑھا۔ جھجک اور اکثر تلخ لہجے میں خود ملامتی انداز میں ایسی ایسی باتیں ضبط تحریر میں لائی گئیں کہ ہمارا معاشرہ غالباً سننے اور پڑھنے کیلئے تیار نہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب یہ کتاب منظر عام پہ آئی، کتنا بڑا طوفان اٹھا تھا‘ اور آج بھی ہمارے جیسے دیوانے اور درویش ہی ان کا نام لیتے ہیں۔ وہ سچے انسان تھے۔ انہیں منافقت سے نفرت تھی اور انہوں نے اپنی سوچ، عقیدے، ترجیحات اور زندگی گزارنے کے ڈھنگ اور اس کی حقیقت کو بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان کر دیا۔ یہاں کوئی تفصیل مقصود نہیں، بلکہ صرف ایک فقرہ جو انہوں نے اپنی مالی حالت زار کے بارے میں لکھتے ہوئے‘ یاد پڑتا ہے، دو تین جگہ دہرایا ہے۔ ”ہائے میرے بچے‘‘ خدا کسی کیلئے ایسے حالات نہ پیدا کرے کہ ”ہائے میرے بچے‘‘ پکارتا رہے، کہ کیسے حکومتی ظلم اور ناانصافیوں کی وجہ سے انہیں روزگار، جو پہلے کوئی زیادہ نہیں تھا، سے محروم کر دیا گیا۔ وہ ایوب خان کا دور تھا، اور یہ سب کچھ کرنے والے الطاف گوہر صاحب تھے۔ جو جوش صاحب کے خاندانی پس منظر کو نہیں جانتے، ان کیلئے عرض ہے کہ وہ خاندانی رئیس، جاگیردار، مگر علم و فضل کے اعتبار سے اعلیٰ حوالہ رکھتے ہیں، جرم کیا تھا، انسانیت، انصاف، امن‘ بھائی چارے اور آزادی کا پیغام، باتوں باتوں میں انقلاب کی بات بھی کرتے تھے۔
معاشرے میں یک رنگی دھونس اور دھاندلی سے چلائی جائے، تو راہیں تاریک ہو جاتی ہیں، مگر کوئی سرپھرا کہیں نہ کہیں مشعل لے کر آگے بڑھا ہاتھ تھامنے کی کوشش کرتا۔ بار بار بتاتا ہوں کہ اس حقیر اور درویش کا تعلق درسگاہوں کی چاردیواریوں میں گزرا ہے، اور یہ سفر اب تک جاری ہے۔ علم و حکمت کے معنی جو ہم سمجھ پائے ہیں اور جو تاریخی طور پر اس میدان میں رہنے اور کام کرنے والوں کی روایت یونان کے سقراط سے لے کر آج تک کے دیوانوں‘ چاہے وہ مغرب میں ہوں یا مشرق میں، میں چلی آ رہی ہے‘ بحث و تمحیص، سوال و جواب، اور قائم کردہ مفروضوں کو زیر بحث لانا ہے۔ اس سے ذہن و دماغ کھلتے ہیں‘ اور انسان و معاشرے کو سمجھنے اور مسائل حل کرنے کی راہیں نکلتی ہیں۔ یونان، مسلمانوں کے عروج اور موجودہ دور کے مغربی ممالک کی کہانی فکری طور پر یک رنگی پیدا کرنے کی نہیں، ہر نوع کے افکار کیلئے گنجائش پیدا کرنے کی ہے۔ میرے نزدیک علم کا مقصد نوجوان نسل کو کسی ایک گھسے پٹے دھارے میں ڈھالنا نہیں، انہیں فکری آزادی سے روشناس کرانا ہے۔ اس کے برعکس فسطائیت ہے، کہ ہم نے ایک ایسا قومی ذہن تیار کرنا ہے، جیسے کسی چھاپہ خانے میں یکساں ورق ایک ہی طرح کے حروف، سیاہی اور رنگوں میں نکلتے ہیں۔ یہ تعلیم نہیں، ذہنوں کی اجلی دھلائی ہے کہ کوئی اور نظریہ متعارف ہی نہ ہو سکے۔ ہمارے ہاں دھلائی کا یہ کام ایک عرصہ سے جاری ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے برعکس سوچ رکھنے والے اساتذہ کیلئے سب دروازے بند کر دئیے جائیں۔
اس سے پہلے کہ ایک تازہ واقعہ کی تفصیلات آپ کی نذر کروں، یہ بتا دوں کہ اس روایت کی تاریخ فسطائیت میں ہمیشہ موجود رہی ہے، مگر امریکہ کی جمہوریت میں بھی سینیٹر جوزف میکارتھی سرد جنگ کے اوائل کے زمانے میں لے آئے تھے۔ انہیں ہر دوسرا امریکی پروفیسر کمیونسٹ، ملحد اور سوویت یونین کا خفیہ ایجنٹ نظر آتا تھا۔ نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیاں اس سوچ نے وطن عزیز میں اجاڑ دی ہیں۔ کبھی سوچا ہے کہ ان پروفیسرز کا کیا ہوا، جو کئی دہائیوں کی ملازمت کے بعد نکالے گئے تھے، کیسی کسمپرسی کی زندگیاں انہوں نے گزاریں؟ وہ بھی ”ہائے میرے بچے‘‘ پکارتے دنیا سے رخصت ہوئے۔ ظلم معاشرے میں ہی ہوتا ہے، مخالفین کا بولنا، لکھنا اور کہیں نوکری کرنا ناممکن بنا دیا جائے، تاکہ ہم سوچ نالائقوں اور احمقوں کی روزیاں مزید وسیع ہو جائیں۔
ڈاکٹر تیمور رحمان اور یہ درویش تقریباً ایک ساتھ ہی لمز آئے۔ وہ تازہ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئے اور یہ فقیر بہتر تدریسی ماحول کی تلاش میں ادھر آ نکلا۔ ایسے نوجوان عالم، فاضل‘ مفکر، انسانیت اور معاشرے کا درد رکھنے والے کم ہی دیکھے ہیں۔ پڑھانے اور تحقیق و تالیف کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے رہنے کے باوجود وہ اپنے انسانیت کے فلسفے کے پرچار اور معاشی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے انتہا پسندی، یک رنگی، امن اور بھائی چارے کو فروغ دینے کیلئے موسیقی کا مؤثر طریقہ اختیار کررکھا ہے۔ ”لال بینڈ‘‘ کو لے کر میلوں، ٹھیلوں اور لٹریری فیسٹول میں شامیں رنگین کرتے ہیں۔ وہ علامہ اقبال، فیض صاحب، جالب، بلھے شاہ، شاہ حسین اور صوفیوں کا کلام گا کر ہم آہنگی کا درس دیتے ہیں۔ اب تک دنیا کے بائیس سے زیادہ ممالک میں اپنے بینڈ کے ساتھ جلوہ گر ہو چکے ہیں۔ ہر جگہ پذیرائی ملی۔ پاکستان میں جہاں کہیں سے بھی دعوت نامہ آیا نہیں اور بینڈ کی تیاری شروع۔ لندن میں رائل فیسٹیول ہال میں تو بس رنگ ہی جما دیا۔ مارکس اور مغربی فلسفے کو یونانیوں سے لے کر عصر حاضر کے مفکرین تک، تیمور رحمان سے بہتر کوئی نہیں پڑھا سکتا۔ یاد پڑتا ہے کہ اپنے سینکڑوں لیکچرز عام طلبا کی خدمت کی غرض سے یوٹیوب پر ڈال رکھے ہیں۔ کل ان کا فون آیا کہ ایک یونیورسٹی نے انہیں عورتوں کے حقوق کے تحفظ پر لیکچر دینے اور بینڈ کی پرفارمنس کیلئے مدعو کیا گیا، لیکن پھر انہیں وہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ ہے ہماری حیثیت، یہ ہے ہمارا مقام، بلائے جانے کے بعد، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے نکال باہر کریں۔ یہ پہلی مرتبہ ان کے ساتھ نہیں ہوا، پہلے بھی زیر عتاب دانشوروں اور اساتذہ کی فہرست میں ہیں۔ ہاں یاد آیا، جوش اور فیض صاحب کو بھی ”پاکستان دشمن‘‘، ”ملحد‘‘ اور ”اشتراکی‘‘ کہہ کر کناروں پر ڈال دیا گیا تھا۔ ”قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم اور نکلیں کے عشاق کے قافلے‘‘۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ