حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر جاوید سید
وزیراعظم کی قائم کردہ ’’رحمت اللعالمین اتھارٹی‘‘ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز اکرم کے ایک لیکچر نے تنازع اٹھادیا ہے۔ اپنے ایک حالیہ لیکچر میں موصوف نے سندھی، سرائیکی، بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کی قومی شناختوں اور حقوق کی تحریکوں کو غیرملکی فنڈنگ سے جوڑتے ہوئے اس قدیم ریاستی بیانیے کی آبیاری کرنے کی سعادت حاصل کی جس سے ہمیشہ مسائل ہی پیدا ہوئے۔
ڈاکٹر موصوف صرف لمز کے زمانہ پروفیسری میں ہی متنازعہ نہیں رہے بلکہ اپنی فکر اور اسٹیبلشمنٹ پرستی کی بدولت ہمیشہ عوام دوست جمہوری قوتوں کے خلاف کھڑے ہوئے لکھا بھی اور گویا بھی ہوئے۔
وہ قبل ازیں یہ کہہ چکے کہ اقتدار صرف اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کا حق ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بہت زیادہ ’’نرمی‘‘ یعنی جمہوری روایات پر عمل اور جمہوری نظام کو اختیار دینے کی ضرورت نہیں۔
اب انہوں نے کثیرالقومی ملک کی چار قومیتوں کی شناخت اور جدوجہد پر حملہ کردیا۔ حیرانی بالکل نہیں ہوئی کہ انہوں نے یہ کیوں کیااور کیا وجہ ہے کہ کونکہ وہ ہمیشہ سے مکالمے پر نہیں فتوے اور طاقت کے استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔
دائیں بازو کے اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے دانشور حضرات کسی لمحے بھی یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ بٹوارے کے بعد سے جس شناختی بحران نے ہمارے ہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اس سے نجات کی حقیقی صورت کیاہوسکتی ہے۔
ان کے نزدیک اسٹیبلشمنٹ کی اطاعت کُلی اور مسلم قومیت پر فخر ہی سب کچھ ہے۔ یقیناً انہیں رائے رکھنے اور اظہار کا حق ہے لیکن کیا خود انہوں نے مسلم تاریخ کے تضادات اور ان تضادات سے جنم لینے والے سانحات کا کبھی تجزیہ کرنے کی ’’شعوری‘‘ کوشش کی ہے؟
ان کی دو باتیں اہم ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان دو باتوں پر کھلے دل کے ساتھ مکالمہ اٹھانے کی ہمت کی جانی چاہیے۔
ایک یہ کہ اقتدار کا حق صرف اسٹیبلشمٹ اور ایلیٹ کلاس کو حاصل ہے نیز یہ کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ جمہوری نظام کو زیادہ بااختیار نہ ہونے دے۔
دوسری یہ کہ اس کثیرالقومی ملک کی قومیتی تحریکیں بیرونی فنڈنگ کی مرہون منت ہیں۔
ان کی پہلی رائے اور ضمنی بات کے جواب میں یہ کہنا پڑے گا کہ ہمیں تو پڑھایا گیا تھا کہ ہندو اکثریت سے مسلم اقلیت کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کو خطرات لاحق تھے۔ اس لئے تقسیم ناگزیر ہوئی۔
تو کیااب یہ سمجھاجائے کہ تقسیم کا مقصد نئی مملکت میں اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کی دائمی حکمرانی کا قیام تھا؟
ایسا ہی ہے جوکہ ان کے خیالات سے ظاہر ہے تو پھر اس دو قومی نظریہ کا کیاہوگا جو ہماری ریاست کا رزق ہے؟
دوسری بات یہ یہ کہ تقسیم سے قبل بھی متحدہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مقامی تہذیب و تاریخ اور کلچر سے جڑی قومیتوں کا سیاسی و سماجی شعور موجود تھا۔ اسی شعور کی بنیاد پر ہی مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان کو سرکاری زبان اور اردو کو رابطے کی زبان والی بات ہوئی تھی۔
عدم تسلیم کا نتیجہ کیا نکلا سب کے سامنے ہے۔ ہم لاکھ کہتے پھریں کہ یہودوہنود کی سازش تھی۔ مشرقی پاکستان کے شعبہ تعلیم پر ہندو اساتذہ کی بالادستی ، انہوں نے بنگالیوں کی نئی نسل کی برینگ واشنگ کی مگر اس ڈھمکیری کا چورن کوئی بھی خریدنے کو تیار نہیں۔
کیا ٹیگور کی شاعری اور نثر میں بنگالی قومیت کی شعوری جھلک موجود نہیں تھی؟ اب آیئے اس بات پر کہ پشتون، سرائیکی، بلوچی اور سندھی قومی تحریکیں بیرونی فنڈنگ کی مرہون منت ہیں۔ ایسا ہے تو کام بہت آسان ہے وہ وزیراعظم کے محبوب دانشور ہیں ان سے کہہ کر ایک قومی تحقیقاتی کمیشن بنوادیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
پروفیسر ڈاکٹر اعجاز اکرم پہلے شخص نہیں ہیں جس نے مقامی قومی شناختوں پر "خودکش” حملہ کیا ہو۔ مقامی شناختوں سے انکار مسلم قومیت پر یقین رکھنے والوں کی اجتماعی سوچ ہے، اسی سوچ کی محافظ ہماری ریاست ہے۔
جس سادہ سے سوال کا جواب یہ ’’زعما‘‘ نہیں دیتے وہ یہ کہ کیا اسلام قبول کرلینے سے عرب، عرب نہیں رہے؟
وہ تو ہمیشہ سے عرب تھے اور اب بھی عرب ہی ہیں اس عرب شائونزم کے مضبوط حوالے خود مسلم تاریخ میں موجود ہیں۔ ہم ’’دیسی مسلمان‘‘ ان پر بحث اٹھائیں تو قابل گرد زدنی ٹھہرتے ہیں اس لئے دامن بچاے کے آگے بڑھنے میں ہمیشہ عافیت محسوس کی۔
مقامی قومیت، تہذیب، کلچر اور تاریخ ان چار حقیقتوں سے آخر کس بنیاد پر انکار کیا جائے؟
پاکستان میں مقیم لوگ 14اگست 1947ء کو کہیں اور سے آکر آباد نہیں ہوئے ایک محدود تعداد میں مسلم مہاجرین بھارتی پنجاب یوپی، سی پی، حیدر آباد دکن، جونا گڑھ اور دوسری ریاستوںسے ہجرت کرکے آئے یہ انتقال آبادی تقسیم کی وجہ سے ہوئی۔
پچھلے چوہتر برسوں سے ہمارے ہاں محدود پیمانے پر ہی سہی یہ بحث تو موجود ہے کہ کیا 40-30 لاکھ یا کچھ زیادہ لوگ جو ہجرت کرکے آئے انہیں مقامی تہذیب و ثقافت کا حصہ بننا تھا یا مقامیوں کو اپنی شناخت سے دستبردار ہوکر ان کا حصہ؟
یہ کیسے ممکن تھا اور ہے کہ اکثریت اپنی قدیم شناختوں سے دستبردار ہوجائے۔
کیا انسانی تاریخ میں پہلے کبھی ایساہوا ہے؟ ہواہے تو پھراس کی مثال تو لایئے۔
اگر اسلام قبول کرنے سے ایرانیوں، شامیوں، عراقیوں یا دوسرے خطوں کے لوگوں کی مقامی شناختیں ختم نہیں ہوئیں تو یہ تقاضا صرف ہم سے کیوں کہ ہم نوتشکیل مسلم قومیت کے حق میں اپنی قدیم شناختوں سے دستبردار ہوجائیں نہ ہوئے تو پروفیسر ڈاکٹر اعجاز اکرم جیسے لوگ جب چاہیں گے ہمیں بیرونی ایجنٹ قرار دے دیں گے۔
حیران کن بات ہے ایک شخص جسے نبی رحمت سرکار دو عالمؐ کے نام پر قائم ہونے والے ادارے کا سربراہ بنایا گیا اس کے دہن سے انگاری نکلتے ہیں۔
کیا نظام سیاست میں عدم برداشت کو رواج دینے سے تسلی نہیں ہوئی تھی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ے کہ کیا مقامی شناختوں کو سیاسی طور پر منوانے کی جدوجہد اسلام سے انکار ہے؟
ایسا تو بالکل نہیں یہاں کسی نے مسلمان ہونے سے انکار نہیں کیا۔ ہم سبھی یہ کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں، مسلمان ہیں مطلب اسلام ہمارا دین ہے۔
قومی شناخت، تہذیب و تمدن اور تاریخ ان کا تعلق مذہب سے نہیں زمین سے ہوتا ہے یہی حقیقت ہے اس سے انکار ہٹ دھرمی کہلائے گا۔
مکرر عرض ہے وزیراعظم نے موصوف کو ’’رحمت اللعالمین اتھارٹی‘‘ کا سربراہ کن خصوصیات پر بنایا؟
ان کی تو شہرت ہی ایک جمہوریت دشمن اور تاریخ دشمن شخص کی ہے جو شخص بھاڑے کی تاریخ کو ریاستی قوت کے ذریعے منوانے اور اشرافیہ کے استحصالی طبقات کے اقتدار کُلی و دائمی پر یقین رکھتا ہو وہ کیسے ’’رحمت اللعالمین اتھارٹی‘‘ کا سربراہ ہوسکتاہے۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ موصوف کو اہم ذمہ داریوں پر فائز کرنے والوں کی شعوری سطح پر سوال اُٹھ رہے ہیں۔
یا پھر ہمیں یہ سمجھایا بتایاجائے کہ کسی سطح پر یہ فیصلہ کرلیا گیاہے کہ ایک بار پھر ریاست کی قوت سے نظریہ سازی کا پروگرام شروع ہورہا ہے؟
باردیگر عرض ہے کہ یہ رویہ اور الزامات مسائل پیدا کریں گے۔ نئے تنازعات کے دوازے کھلیں گے۔
چلتے چلتے ایک سوال ہے وہ یہ کہ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز اکرم نے پانچ میں سے چار مقامی قوموں کی تحریکوں کو بیرونی فنڈنگ کا نتیجہ قرار دے دیا تو کیا پانچویں (پنجابی) قومیت سوفیصد ان سے متفق ہے؟
حرف آخر یہ ہے کہ مقامی قومی تہذیبی و تاریخی شناختوں سے انکار سے پہلے ہی مسائل موجود ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ نئے مسائل کو دعوت دینے کی۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر