حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت آگیا ہے کہ اس ملک کے اہل دانش، سماج سدھار اور مختلف الخیال سیاسی کارکن مل بیٹھیں اور غور کریں کہ سماج میں بڑھتی ہوئی متشددانہ سوچ کیسے ختم ہوسکتی ہے۔
یہ بجا ہے کہ جو منفی رویہ اور متشدد مزاجی ہمارے اندر رچ بس چکی ہے اس کا علاج راتوں رات ممکن نہیں۔ پھر بھی سوچنے میں امر مانع کیا ہے؟
اصلاح احوال کے لئے اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اجتماعی جدوجہد اسی طور کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے جب ہم انفرادی طور پر بھی شدت پسندی کی حوصلہ شکنی کو بطور انسان واجب سمجھ کر اپنے حصے کا فرض ادا کریں۔
یہ شدت پسندی ہمارے معاشرے کا من پسند رزق کیوں بنی؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے اور وہ ہے غربت، بیروزگاری اور علم سے دوری، البتہ دہلیز علم تک راہ دیکھانے والی تعلیم کا دستیاب نہ ہونا بھی ان وجوہات میں شامل ہے۔
اصولی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تعلیم، روزگار، صحت اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے اپنا فرض ادا کرے۔ یہ فرض اسی طور ادا ہوسکتا ہے جب ایک ایسا نظام قائم ہو جس کی بنیاد عدل و انصاف، مساوات اور شخصی آزادی پر ہو۔
جو نظام ہم پر گزشتہ چوہتر برسوں سے مسلط ہے اس میں عدل و انصاف، مساوات اور شخصی آزادی موجود تو ہیں مگر یہ بالادست طبقات کے لئے ہیں عام آدمی کا ان میں کوئی حصہ نہیں۔
یہی وہ وجہ ہے کہ ایک طبقہ جب یہ کہتا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کا مقصد برطانوی سامراج کے وفادار مسلم طبقات کے لئے ایک انعام تھا تو لوگ اس بات کا برا مناتے ہیں لیکن اگر ہم بغور جائزہ لیں تو یہ رائے حقیقت کے قریب لگتی ہے۔
پچھلے چوہتر برسوں میں ریاستی نظام میں عام آدمی کے حصے اور اشرافیہ کے حصوں پر غور کیجئے، بات بخوبی سمجھ میں آجائے گی۔
اسی طرح یہ رائے بھی کچھ غلط نہیں کہ بالادست اشرافیہ نظام، حکومت اور وسائل پر اجارہ داری کے لئے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو لوگوں کی درست سمت رہنمائی کی بجائے انہیں ایسے تعصبات کا رزق بناتے ہیں جن سے تقسیم در تقسیم کے عمل کو تو تقویت پہنچتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام یہ سمجھنے سے بھی محروم رہتے ہیں کہ انہیں تعصبات کا رزق بنانے والے خود تو بالادست اشرافیہ کے ساتھ مزے لوٹ رہے ہیں،
لمبی چوڑی بحث کی بجائے اگر ہم جہاد افغانستان اور اس کی کوکھ سے پھوٹنے والی شدت پسندی کا تجزیہ کرکے دیکھ لیں تو آسانی کے ساتھ یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ جہاد افغانستان کے کاروبار اور پھر ہمارے ہاں پھوٹی شدت پسندی دونوں کی وجہ سے چند سو خاندانوں کا سماجی مرتبہ تو بلند ہوا مگر اس بلند مرتبہ کی بنیادوں میں سوا لاکھ سے زائد پاکستانیوں کی لاشیں دفن ہیں۔
آپ تحریر نویس کی رائے اور فکر دونوں سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں مگر ٹھنڈے دل سے کسی دن حساب تو کیجئے۔ 30ہزار افراد جہاد افغانستان پر ہم نے قربان کئے 75سے 80ہزارافراد فرقہ وارانہ دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کے ردعمل میں ہوئے جہاد کی بھینٹ چڑھے۔
اب اگر آپ اس میں جنرل ضیاء کے دور میں وفاقی وزیر قاسم شاہ کی قیادت میں گلگت بلتستان پر ہوئی لشکر کشی اور پارا چنار وغیرہ میں تین بار ہوئی طالبان کشی کے مقتولین کے ساتھ دونوں جگہ ہونے والے فرقہ وارانہ جھگڑوں کے مقتولین کو شمار کریں تو آنکھیں اُبل کر باہر آجائیں گی۔
نرم سے نرم الفاظ میں بھی اگر عرض کروں تو یہ حقیقت ہے کہ جہاد پروری اور فرقہ پرستی دونوں کاروبار 1980ء کی دہائی میں مارشل لاء حکومت کی سرپرستی میں شروع ہوئے (یہاں یہ یاد رکھئے کہ ابھی مقتولین میں کراچی میں بھڑکائی گئی نسلی شائونزم کی آگ کا ایندھن بننے والے لوگوں کی تعداد شامل نہیں جو کسی طرح بھی 25ہزار سے کم نہیں ہے)
ایک وقت تھا جب اس ملک کی دیواروں پر آپ کو دو طرح کے اشتہار لکھے ہوئے ملتے تھے اولاً "مردانہ کمزوری کے علاج کے” اور ثانیاً "جہاد کیجئے جنت میں گھر بنایئے”۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ میں مذہبی جماعتوں کے سیاسی کردار کا قائل نہیں ہوں پھر بھی 1977ء کے مارشل لاء سے قبل فرقہ وارانہ بنیادوں پر موجود دینی سیاسی جماعتوں کا کردار قدرے سیاسی تھا مگر 1980ء کی دہائی اور بعد کی دہائیوں میں بننے والی فرقہ پرست تنظیموں کی بنیاد ہی خالص نفرت پر رکھی گئی۔
ریاست نے اپنی ضرورتوں کے لئے ان تنظیموں کے قیام اور سرگرمیوں سے چشم پوشی کی اس لئے سماجی امن کی تباہی نفرتوں کے پھیلائو اور گھروں کے اجڑنے کی ذمہ دار جتنی یہ شدت پسند تنظیمیں ہیں اتنی ہی ریاست بھی ہے۔
یہاں بار دیگر ساعت بھر کے لئے رُک کر یہ جان لیجئے کہ مقتولین کی فہرست میں جہاد کشمیر کا رزق بننے والے شامل نہیں حالانکہ یہ بھی ایک طرح کا کاروبار تھا اور اس کاروبار کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی تحریک مزاحمت کی بانی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے کردار کو کم کرنا تھا
کسی دن اس موضوع پر تفصیل سے عرض کروں گا کہ جہاد کشمیر کی اس پالیسی سے ہمیں (مراد پاکستان ہے) فائدہ کتنا ہوا اور نقصان کتنا۔
فی الوقت تو یہ ہے کہ پچھلی چار دہائیوں میں بننے والی ہر وہ تنظیم جس نے تشدد اور قتال کا راستہ اختیار کیا، ریاستی چھتری کے نیچے بنی یا پھر ریاست نے اپنی ضرورت کے تحت اسے گود لے لیا ، ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں ان شدت پسند تنظیموں کو سیاسی فوائد کے لیے سیاسی جماعتوں نے بھی بوقت ضرورت گود لیا اس حوالے سے اے این پی کے علاوہ سب کے دامن پر گہرے گالے اور سرخ داغ ہیں،
یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج اس ملک میں شدت پسندی کو جو دوام حاصل ہے اس کی سو فیصد ذمہ داری مارشل لاء حکومتوں اور چند شخصیات پر ہی عائد کرکے ہم پتلی گلی سے نہیں نکل سکتے افسوس کے اس حوالے سے میرے اور آپ کے دامنوں پر بھی ہلکے پھلکے داغ دیکھائی دیتے ہیں،
یہی وہ نکتہ ہے جو اس امر کا متقاضی ہے کہ اگر ہم شدت پسندی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اپنے ذہن وقلب سے بھی شدت پسندی کو کھرچ کر نکال پھینکنا ہوگا
ایک نکتہ اور وہ یہ کہ شدت پسندی کے بڑھاوے میں بڑا کردار جنرل ضیا کی غیر جماعتی اسمبلی میں ہوئی قانون سازی کا بھی ہے
اٹھارہویںں ترمیم کے وقت پیپلز پارٹی نے کوشش کی کہ معاملات کو بہتر بنالیا جائے لیکن بعض جماعتوں نے مصلحتوں یا ٗضرورتوں کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کا ساتھ نہ دیا اس طرح یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ شدت پسندوں کے ایک طبقے کی آبیاری نون لیگ نے اپنی ضرورتوں کے پیش نظر کی یہ الگ بات ہے کہ اگلے برسوں میں یہ طبقہ نون لیگ کے گلے پڑ گیا،
ہمیں اس پر بھی افسوس کرنا چاہیے کہ 2018ء کے عام انتخابات کی مہم میں تحریک انصاف نے نون لیگ کے خلاف مذہبی ہتھیار استعمال کیا
یہ بھی قابل افسوس اور شرمناک بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن پچھلے تین برسوں سے موجودہ حکومت کے خلاف لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکاتے رہتے ہیں،
پی ڈی ایم میں جب پیپلز پارٹی نے ان کی مذہبی پاپائیت کا کاروبار نہ چلنے دیا تو انہوں نے سازش کے تحت اے این پی اور پیپلز پاری کو پی ڈی ایم سے نکلوادیا ،
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں کسی ایک واقعہ وہ چاہے سانحہ سیالکوٹ ہی کیوں نہ ہو کی بنیاد پر رد عمل دینے کی بجائے اپنے حال اوراگلی نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے شدت پسندی کے خاتمے کو اولین ترجیح قرار دینا ہوگا،
فوری طور پر دو کام بہت ضروری ہے پہلا یہ کہ حکومت قانون کی حاکمیت کے قیام میں تساہل نہ برتے ثانیاً ہر شخص اپنی اپنی جگہ شدت پسندی کے خلاف آواز ہی بلند نہ کرے بلکہ مزاحمت بھی کرے،
حکومت عوام دونوں نے اگر اپنے اپنے حصہ کا فرض ادا کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا تو یاد رکھیے بربادیاں ہمارے صحنوں میں ڈیرے ڈال لیں گی۔
۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ