مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جب خط کا انتظار رہتا تھا||ڈاکٹر مجاہد مرزا

ایک بار تو میں نے اسے اس کا خط آئے بنا خط پر خط لکھ دیے تھے۔ وہ غالبا" بیمار تھی اور گھر گئی ہوئی تھا۔ پھر جب اسے ایک خط سے معلوم ہوا کہ میں نے کئی خط لکھے تھے تو اس نے کوڑے دان تک پھرول لیے تھے اور مجھے بتایا تھا کہ وہ خط نہیں مل سکے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نشتر میڈیکل کالج کے قاسم ہال کے کمروں کی دائیں ہاتھ کی قطار کے باہر کی دیوار کے سامنے مسجد کی دیوار کے ساتھ بہت ہی گھنے درخت تھے۔ جن کے گھنیرے سائے سے اسی قطار کے وسط میں میرا کمرہ جون جولائی میں بھی گرم نہیں ہوتا تھا۔ پھر کمروں کی اس قطار کے اوپر بھی کمرے تھے اور اس کے سامنے برآمدہ۔ شام کو جب ان درختوں میں اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں چڑیاں بسیرا کرتے ہوئے چہچہاہٹ کا ہم آہنگ شور مچایا کرتی تھیں، جو چبھنے والا ہونے کے باوجود بھلا لگتا تھا۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر کمرے کے دروازے کی درز سے پھینکے گئے خط کے سرکنے کی آواز ہوتی تھی جس کا مجھے انتظار رہتا تھا۔
حافظ صاحب نیک اور مقبول ڈاکیے تھے جو اپنی مایا لگی وردی اور خاکی پگڑی پہنے، عینک لگائے، سنجیدہ شکل بنائے، انتہائی مہارت کے ساتھ خط پھینک کر بند دروازوں کی درزوں سے کمروں میں پہنچا دیتے تھے۔ کمرے میں لیٹے ہوئے ان کے قدموں کی چاپ دور سے سنائی دینے لگتی تھی۔ اگر ان کے چاپ کمرہ عبور کر جاتی اور کوئی لفافہ سرکتا ہوا نہ آتا تو مجھ پر اداسی طاری ہو جاتی تھی۔
یہ خط کوئی عام خط نہیں ہوتے تھے اگرچہ تحریر بہت عام ہوا کرتی تھی بلکہ کسی انجانی لڑکی کے خط ہوتے تھے جس نے اپنا نام شبنم عزیز بتایا تھا اور جو فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور کی طالبہ تھی۔ اس نے خط لکھنے کی ابتدا ایک رسالے میں میرے دو چار افسانچے پڑھ کر میرے ذہن کو گندی نالی سے تعبیر کرکے کی تھی جس کا میں نے جواب دے دیا تھا۔
اس کے خطوں کا انتظار ہوتا تھا جو ملتے ہی میں ایک بسیط جواب لکھنے بیٹھ جاتا تھا۔
ایک بار تو میں نے اسے اس کا خط آئے بنا خط پر خط لکھ دیے تھے۔ وہ غالبا” بیمار تھی اور گھر گئی ہوئی تھا۔ پھر جب اسے ایک خط سے معلوم ہوا کہ میں نے کئی خط لکھے تھے تو اس نے کوڑے دان تک پھرول لیے تھے اور مجھے بتایا تھا کہ وہ خط نہیں مل سکے۔
اس نے میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ جس کے ساتھ اس نے کسی نہ کسی طرح راہ و رسم نکال لی تھی مجھے اونیکس کی ایش ٹرے وغیرہ کے تحفے بھجوائے تھے جن کے ساتھ نشے وشے سے متعلق کچھ تحریریں تھی۔ یہ تحفہ /تحفے بھائی نے مجھے لاہور ریلوے سٹیشن پر ریل گاڑی کے ڈبے میں دیے تھے جس میں سوار میں ملتان سے راولپنڈی اور پھر وہاں سے ایبٹ آباد بحیثیت کپتان ٹریننگ کے لیے جا رہا تھا۔
پھر وہ گم ہو گئی تھی۔ فوج میں دو سال گذارنے کے بعد میرا بیاہ ہو گیا تھا۔ میں نے بیوی کے ساتھ مل کے اسے سروسز ہسپتال لاہور میں ڈھونڈ نکالا تھا۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ میں شبنم عزیز نام کی ڈاکٹر کو ڈھونڈ رہا ہوں، کسی نے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اسے جانتی ہیں۔ وہ جز بز ہو گئی تھی اور کہا تھا کہ وہ اس نام کی کسی ڈاکٹر کو نہیں جانتی۔ میں کمرے سے نکل گیا تھا مگر میری بیوی اس سے گپ شب لگا کے ہی نکلی تھی۔ مل کے لگا کہ اس کی شکل اور جسم بھی اس کے خط کی تحریروں کی طرح بہت عام تھے اور نام بھی عام شش ۔۔۔۔ پھر وہ میرے اقبال ہوسٹل لاہور کے ایک دوست اور کلاس فیلو کی بیوی بن کے لیبیا چلی گئی تھی۔ اب دونوں کبھی پاکستان تو کبھی امریکہ میں رہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: