مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بچے جو بڑے ہونگے||ڈاکٹر مجاہد مرزا

شراب نوشی بھی ایک کہنہ مسئلہ ہے۔ شراب نوش اور جھگڑالو والدین کے بچے بھی حکومت اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ اپنے طور پر کفالت نہ کرنے کے قابل والدہ یا والدین بھی بعض اوقات بچوں کو یتیم خانوں میں چھوڑ جاتے ہیں اور کئی کنواری مائیں بھی بچوں کو ہسپتال سے لے جانے سے انکار کر دیتی ہیں۔ اسی طرح معذور بچوں سے بھی کچھ لوگ جان چھڑا لیتے ہیں۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں سیاست کے بکھیڑوں پر اپنی معرفت کے موتی بکھیرنے سے فرست ملے تو ہم کوئی اور بات کر سکیں اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ جب تک سیاست کی کبڑی بڑھیا کی کمر سیدھی نہیں ہوتی اور اس کے چہرے کی جھریاں دور نہیں کی جاتیں تب تک کوئی بھی معاشرتی معاملہ طے کیا جانا خاصا مشکل ہوگا کیونکہ سیاست کا تعلق معیشت کے ساتھ ہوتا ہے اور معیشت کا معاشرت کے ساتھ۔
پاک ملک میں تو مناسب عوامی بیت الخلاء تک مفقود ہیں جو انسانوں کی بنیادی ضرورت ہیں، ایسے میں بے گھر یا یتیم بچوں کی پرورش و پرداخت، تعلیم و تربیت کے بارے میں بھلا کون سوچے گا۔ میں نے لاہور میں ایک ویگن کی نشستوں کی پشت پر لکھا ایک اشتہار دیکھا جس کا عنوان تھا ” جتنے بچے اتنی خوشحالی” یہ اشتہار بچے گود لینے والے والدین کی ایسوسی ایشن کی جانب سے تھا جو بچوں کو گود لیے جانے کی ترغیب دینے کی خاطر جاری کیا گیا تھا۔
ہم تو بچپن سے "بچے کم خوشحال گھرانہ” کا جینگل سنتے آئے ہیں لیکن ملک عزیز کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ آبادی میں اضافے سے گوناگوں مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن میں مایوسی سے لے کر ذہنی امراض تک اور بڑھتے ہوئے جرائم سے لے کر دہشت گردی کی وباء تک شامل ہیں۔
جس اشتہار کی میں نے بات کی ہے وہ ظاہر ہے بچے کم خوشحال گھرانہ کے جھوٹے نعرے والے ملک کی کسی ٹھنسی ہوئی ویگن کی چھوٹی کی ہوئی غلیظ نشستوں کے عقب میں نہیں بلکہ ماسکو کی خودکار دروازوں اور نشست بہ نشست سوار ہونے والی "مارشروطکا” یعنی "روٹ ٹیکسی” میں لکھا تھا، جس میں پولیس افسر بھی سوار ہوا تو اس نے پہلے کرایہ ادا کیا۔ کرایہ لینے کے لیے چیختا ہوا، کھڑکی سے آدھا باہر نکلا ہوا کنڈکٹر/کلینر نہیں ہوتا بلکہ خاموش ڈرائیور کو ہی پیسے تھمانے ہوتے ہیں۔
روس میں یتیم بچوں کا ہمیشہ مسئلہ رہا۔ خاص طور پر جنگ عظیم دوم اور اس سے پہلے سٹالن کے مظالم کے باعث بچے بڑی تعداد میں یتیم ہو گئے تھے۔ ایسے بچوں کے لیے "بچہ گھر” یعنی یتیم خانے تب سے ہی موجود ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان یتیم خانوں میں بہت سے گھروں کی نسبت زیادہ سہولیات اور زیادہ بہتر تعلیم و تربیت میسّر ہے تو جھوٹ نہیں ہوگا۔
شراب نوشی بھی ایک کہنہ مسئلہ ہے۔ شراب نوش اور جھگڑالو والدین کے بچے بھی حکومت اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ اپنے طور پر کفالت نہ کرنے کے قابل والدہ یا والدین بھی بعض اوقات بچوں کو یتیم خانوں میں چھوڑ جاتے ہیں اور کئی کنواری مائیں بھی بچوں کو ہسپتال سے لے جانے سے انکار کر دیتی ہیں۔ اسی طرح معذور بچوں سے بھی کچھ لوگ جان چھڑا لیتے ہیں۔
اس وقت روس کے ایسے "بچہ گھروں” میں چھ لاکھ سے زائد بچے ہیں۔ ان بچوں کو تعلیم سے فراغت سے پہلے بلوغت کی عمر تک پہنچنے کے بعد ایک کمرے کا گھر دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ عام معاشرے میں خود کو ایڈجسٹ کر سکیں لیکن ان کی تعلیم کے اخراجات حکومت ہی برداشت کرتی ہے اور تہواروں پر وہ جہاں پلے تھے ان بچہ گھروں میں اپنے گھروں کی طرح جاتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت زیادہ لوگوں نے غیروں کے بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر پالا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جب ملک کے تمام شعبے ابتری کا شکار ہوئے تھے تب یتیم خانوں کی بھی حالت خستہ ہو گئی تھی چنانچہ بچوں کو غیر ملکیوں کو دیا جانے لگا تھا۔ ایسے بچوں کے ساتھ امریکہ سے ناگفتہ بہ سلوک کی اطلاعات ملیں اور کچھ بچوں کی رضائی والدین میں سے کسی ایک کے ہاتھوں تشدد سے اموات کا بھی معلوم ہوا تھا تو پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس سے رضائی والدین کے لیے لے پالک بچہ لینا بہت زیادہ دشوار کر دیا گیا تاکہ رضائی والدین کے اطوار بارے خوب چھان پھٹک ہو سکے۔ اس کے برعکس اب ایک پرچار مہم کے ذریعے لوگوں کو ایسے بچے گود لینے کی ترغیب دی جا رہی ہے جس کے مثبت اثرات برآمد ہو رہے ہیں۔
اس کے برعکس ہمارے ملک میں تو اگر بچی گول روٹی نہ بنا سکے تو اسے باپ اور بھائی مار مار کر مار دیتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ہمارے ملک میں بہت زیادہ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے، ہمارے ملک میں بھی بے گھر اور یتیم بچوں کی تعداد کچھ اتنی کم نہیں ہے اور جنسی استحصال کے شکار بچوں کے بارے میں تو ملکی اور غیر ملکی سطح پر بہت سے دستاویزی ثبوت اکٹھے کرکے دکھائے بھی جا چکے ہیں۔
ہمارے ہاں اول تو "بچہ گھر” ہیں ہی نہیں اگر چند ایک ہیں تو ایک تو ان کی حالت اچھی نہیں دوسرے انہیں”یتیم خانہ” کہہ کر شروع سے ہی بچوں کے اذہان میں احساس محرومی پیدا کر دیا جاتا ہے۔ کچھ ملکی صاحب دل افراد یا غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں نے مناسب "چائلڈ کیر ہومز” بنائے ہپوئے ہیں لیکن ان میں گنجائش ملک میں موجود قابل توجہ بچوں کی نسبت بہت ہی کم ہے۔ پھر ایسے بچوں کو ایک مقام پر محض فوجی بننے کی جانب جان بوجھ کر راغب کرکے ان کی دیگر صلاحیتوں کو دبا دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں یتیم اور بے گھر بچوں کے علاوہ نادار گھرانوں کے بچوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہوگی۔ ان سب کو ایک ذمہ دار شہری بنانے اور ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش و پرداخت کا نظام مرتب کرنا جہاں متمول اور صاحب دل افراد کی ذمہ داری ہے وہاں سب سے پہلے حکومت کا فریضہ ہے کہ پچھلی نسل کے لیے اگر کچھ نہیں کر سکی تو کم از کم اپنی آئندہ نسلوں کی بہبود کا انتطام تو کر لے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: