مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سلامتی کا دین؟|| ندیم سعید

شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دینے کی بجائے مسلمانوں کو سنجیدگی کے ساتھ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غلبہ پانے کے جنون سے نکل کر دوسرے مذاہب ، ثقافتوں اور جمہوری اقدار کے لیے برداشت کا رویہ اپنانا ہوگا وگرنہ ’سلامتی کے دین‘ والی بات بے وزن ہوتی جائے گی۔
 ندیم سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری یہ تحریر جنوری دوہزار پندرہ میں وائس آف رشیا (ریڈیو ماسکو) کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی تھی۔
پشاور میں آرمی پبلک سکول اور پیرس میں ہجویہ رسالے ’چارلی ایبڈو‘ کے دفتر پر دہشت گردانہ حملوں نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔حصول تعلیم کے لیے آئے بچوں کے قتل عام اور ان کے ماں باپ کے دکھ کا سوچ کر دماغ ماؤف ہوجاتا ہے۔ یہی کیفیت چارلی ایبڈو کے ان صحافیوں کے قتل پر ہوجاتی ہے جو مغرب میں دی گئی آزادی اظہار رائے کی حدود ناپ رہے تھے۔
پشاور اور پیرس جیسے واقعات اور نائجیریا میں ’بوکوحرام‘ کی غارت گری سب اسلام کے نام پر کیے جارہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو دہشت گردی پر یقین نہیں رکھتے وہ بھی ایسے انسانیت سوز مظالم کی مذہبی جذبات، محرومیوں اور عالمی سیاست کی آڑ میں توجیح دیتے سنائی دیتے ہیں۔ دہشت گردی کہیں بھی کسی بھی شکل میں ہو اس کی مذمت بغیر کسی اگر مگر کے کی جانی چاہیے۔
مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں عدم برداشت اور دہشت گردی اسلام کی پہچان بن چکے ہیں۔مسلمانوں کے جذبات کانچ کے ٹکڑے اور محبوب کے دل سے بھی زیادہ نازک ثابت ہو رہے ہیں۔ جذباتی آدمی کا کنٹرول دوسروں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جب چاہیں قابو سے باہر کر دیں۔ لیکن یہاں تو اب ایک ہجوم ہے جو مسلمان ہوا پھرتا ہے۔ توہین مذہب کے نام پر قانون ہاتھ میں لینا معمول بن چکا ہے۔لوگوں کو مارنا، بستیاں اجاڑنا اور پھر قاتلوں کو ہیرو بنانا طرہ امتیاز ہے۔
بہت سے پڑھنے والے اس بات پربھی کھول رہے ہونگے کہ چند دہشتگردوں کی وجہ سے میں سب مسلمانوں پر خومخواہ تنقید کر رہا ہوں حالانکہ اسلام تو سلامتی کا دین ہے۔ پہلے تو یہ دہشت گرد مسلمان ہو ہی نہیں سکتے، اور اگر مان بھی لیا کہ یہ مسلمان ہیں تو پھر یہ مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش کا حصہ ہیں جو اسلام کے ممکنہ عالمی غلبہ کے خلاف یہود وہنود کرتے رہتے ہیں۔
اسی استدلال کو لمحہ بھر کے لیے مانے لیتے ہیں تو پھر مسلمانوں کی اکثریت اپنے مذہب کو بدنام کرنے والے ان مٹھی بھر دہشت گردوں، جنہیں محض خارجی کہہ کر نیند کی گولی کھا لی جاتی ہے، کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے نہیں ہوتے؟ نکالیے جلوس ان لوگوں کے خلاف جو سلامتی کے مذہب کو دہشت کی علامت بناتے جارہے ہیں۔ یہ لوگ آپ کے درمیان ہی رہتے ہیں اور اپنے انتہاپسندانہ نظریات کو کھلے عام پرچار کرتے ہیں تو کیوں آپ انہیں خاموش نہیں کرا دیتے، انہیں کیوں ریاستی اداروں کے حوالے نہیں کرتے۔
توہین مذہب کے خلاف تو لاکھوں کے جلوس نکلتے ہیں بدنامی مذہب کے خلاف ہماری زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں اور پاؤں میں بیڑیاں لگ جاتی ہیں۔
زیادہ حیرانی مسلمان تارکین وطن پر ہوتی ہے جو اپنے آبائی ملک چھوڑ کر ایسے مغربی ملکوں میں سکونت اختیار کرتے ہیں یا پناہ مانگتے ہیں جہاں اب آزادی اظہار رائے مذہب سے بھی زیادہ مقدس سمجھی جاتی ہے، اور یہ آزادی ان ممالک کی عوام نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی ہے۔ اسی آزادی کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنے عقائد کے مطابق ذاتی زندگی گزارنے، عبادت گاہیں تعمیر کرنے اور حتیٰ کہ تبلیغ کی بھی اجازت ہے۔ یہ وہ حقوق ہیں جو بیشتر مسلمان ملکوں میں اقلیتوں کو حاصل نہیں، بلکہ پاکستان جیسے ملکوں میں تو ان کے لیے عرصہ حیات ہی تنگ ہے۔
لیکن مسلمان تارکین وطن ’فرنگی دیسوں‘ میں یہ حقوق پانے کے بعد مقامی لوگوں کو یہ بتانے لگ جاتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کیسے رویہ رکھیں اور یہ کہ آزادی اظہار رائے کی حدود ہیں، اور پھر ان میں سے جو انتہا پسند ہوتے ہیں بارود سے حد بندی شروع کر دیتے ہیں۔
چارلی ایبڈو کے مقتول ایڈیٹر سٹیفن شابونیر کا یہی کہنا تھا کہ وہ فرانس کے قوانین کے تحت زندگی گزارتے ہیں ناکہ شریعہ لاز کے تحت، اس لیے انہیں نہ بتایا جائے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔ اسی لیے مغربی سیاستدانوں کا ایک طبقہ اب مسلمانوں سے یہ کہنے لگ گیا ہے کہ اگر آپ کو ہمارا طرز معاشرت پسند نہیں تو اپنے آبائی ملکوں میں واپس چلے جائیں، اور یہ سیاستدان مقبولیت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔
شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دینے کی بجائے مسلمانوں کو سنجیدگی کے ساتھ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے غلبہ پانے کے جنون سے نکل کر دوسرے مذاہب ، ثقافتوں اور جمہوری اقدار کے لیے برداشت کا رویہ اپنانا ہوگا وگرنہ ’سلامتی کے دین‘ والی بات بے وزن ہوتی جائے گی۔

ندیم سعید کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: