رؤف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانحہ سیالکوٹ زور آوروں، مذہبی پیش واوں اور سوشل سائنس دانوں سے کچھ سوالوں کے جواب مانگتا ہے۔۔۔۔
روف قیصرانی
اس مذہب کے نام پر جس کا معنی ہی امن ہے
اس ریاست میں جو بنی ہی مذہب کے نام پر ہے
اور جو اقوام متحدہ کی باقاعدہ ممبر ہے
جس نے جنیوا کنونشن کے انسانی حقوق چارٹر کو اپنا شعار بنانے کا عہد کیا ہوا ہے
اس ریاست میں
ایک متبرک مذہبی دن پر
بے دردی سے ایک شخص کو تشدد کر کے قتل کر دیا جاتا ہے۔
اس کی لاش کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔
ان مناظر کو فلمایا جاتا ہے۔
کاش کوئی صاحب طاقت یہ اخلاقی جرات کر کے سیاسی و اسٹرٹیجک مفادات کو بالائے طاق رکھ صرف انسانیت کے ناطے ان کو بتائے کہ،
یہ مذہب کی خدمت نہیں اس کا مذاق ہے۔
یہ ریاست کی اور اس کے آئین کی توہین ہے۔
کوئی ہے جو ان کو بتائے کہ رب کعبہ کی مخلوق پر یہ جبر اس کے احکامات سے سرکشی ہے۔
یہ کتاب رشد و ہدایت سے روگردانی ہے۔
یہ رحمت اللعالمین، سرور کونین نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دیے گئے درس کی نفی ہے۔
یہ احترام آدمیت کے فلسفے سے غداری ہے۔
یہ فرد کا قتل نہیں
یہ انسانی اقدار کا قتل ہے۔
یہ حضرت ابوذر غفاری کی سنت سے احتراز ہے۔
رتھ فاو کے رستے زخموں پر مرہم رکھنے کی کمٹمنٹ سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔
یہ ایدھی جیسے درویش کی بنائی گئی انسانی ہمدردی کی عمارت کو زمیں برد کرنے کے مترادف ہے۔
اب کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات کیلیے زورآور گروہوں اور منہ زور فاشسٹوں سے دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی ضرورت ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی فلسفے، آئین و قانون میں جس چیز کی گنجائش نہیں وہ تشدد کرنے پر لوگ کیوں مائل ہیں؟؟
کیا یہ پہلا واقعہ ہے؟؟
ہر واقعے کے بعد دوسرے واقعہ کے ہونے تک کے بیچ خاموشی کو کیا کہیں گے؟؟
کیا یہ جنونیت ایک دم ابھری یا پھر برسوں اس کی آبیاری کی گئی؟؟
کون اس کی ذمہ داری لے گا؟؟
جنت جانے کا یہ فلسفہ ان متشدد گروہوں کو کس نے سکھایا؟؟
اس ڈیجیٹل دور میں اس کی کس قدر گنجائش ہے؟؟
کیا ایک دو فرد پر اس کی ذمہ داری ڈالی جا سکتی ہے؟؟
کیا سزاوں سے نفسیاتی امراض کا علاج ممکن ہے؟؟
مختصر دورانیے کے سیاسی مقاصد کے حصول کیلیے مذہبی کارڈ استعمال کرنے والے کون ہیں؟؟
کیا ریاست کی دنیا بھر میں بڑھتی بے گانگی میں اس واقعے سے مزید اضافہ نہیں ہو گا؟؟
کیا سچائی کمیشن کی ضرورت نہیں ہے؟
کیا اب اعترافات کا سیزن نہیں ہے؟؟
کیا اس ڈگر پہ مزید متشدد اور آئین شکن گروہوں کو کسی قاعدے قانون کا پابند بنانے کا وقت نہیں ہے۔؟؟
کیا گرینڈ ڈائیلاگ اور ساڑھے سات دہائیوں کی بدنامیوں، رسوائیوں، اور ذلتوں کے بعد پالیسی بدلنے میں کوئی حرج ہے؟؟
جس راستے پر چل کر کبھی کسی نے کوئی منزل نہیں پائی کیا آپ کیلیے فطرت اپنے طے شدہ قوانین بدل ڈالے گی؟؟
بس یہ کچھ سوالات ہیں ہوش مند سوشل سائنس دانوں سے گزارش ہے کہ تھوڑا حلاجی طبیعت طاری کر کے گلیلیو کی مانند تھوڑا سا سچ بولنے کی جرات پیدا کر لیں۔ شاید کبھی کوئی مذہبی پیشوا مستقبل میں ان جہالتوں سے برات کا اعلان کر دے۔ شاید کل کوئی امن پر مبنی سائنسی دلیل پر قائم کوئی سماج تشکیل پا جائے۔ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور علم کو سینوں میں دفن کر کے کیڑوں کی غذا بنتے ہیں یا پھر نعرہ مستانہ بلند کر کے انسان اور انسانی توقیر کے وکیل بنتے ہیں۔
شکیب جلالی نے کبھی کہا تھا کہ،
فصیل جسم پر تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدود وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
(انتہائی معذرت کہ یہ روح کو چیرنے والا عکس تحریر کے ساتھ لگا رہا ہوں کہ اب اس درندگی پہ چپ رہنا اخلاقی جرم ہے)
یہ بھی پڑھیے:
2مارچ سرکاری بلوچ کلچر ڈے،او وی سرائیکی وسیب وچ||اکبر ملکانی
سرائیکی لوک سانجھ شادن لُنڈ دے کٹھ دا مشترکہ تے متفقہ اعلامیہ
سرائیکی نیشنلزم پس منظر اور بیانیہ۔۔۔۔ ذلفی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر