نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئی کتاب ۔۔پارو ۔۔پر دوستوں کے تبصرے ۔۔۔||گلزار احمد

انھوں نے بتایا کہ دودھ لے کر میں جب گھر گیا تو اسی وقت گلزار صاحب کا مجھے فون آگیا کہ آپ کے پڑوسی دوست محمد یونس کو نئی کتاب پارو پیش کرنی ہے اس لیے میں آگیا ہوں اپنا موٹر سائیکل نکالیں اور چلیں۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نئی کتاب ۔۔پارو ۔۔پر دوستوں کے تبصرے ۔۔
حال ہی میں شائع ہونے والی میری نئی کتاب ۔۔پارو ۔۔ پر جناب محمد یونس صاحب اور سید ارشاد حسین شاہ صاحب کے دوتبصرے موصول ہوۓ ہیں ایک اخبار میں پرنٹ کی شکل میں ہے اور دوسرا یونیکوڈ میں ۔دونوں تبصرے پیش خدمت ہیں۔
گلزار احمد
پہلا تبصرہ جناب محمد یونس صاحب کا درج ذیل ہے۔۔
میں جب اپنے گھر والی گلی اعجاز آباد میں داخل ہوا تو سامنے سے آتےہی میری ملاقات میرے منہ بولے بڑے بھائی جیسے دوست سیدارشاد حسین شاہ صاحب سے ہوئی، انھوں نے ہاتھ میں دودھ کے برتن اٹھائے ہوئے تھے کہ آذان مغرب بلند ہورہی تھی اور وہ جلدی میں تھے انھوں نے کھڑے کھڑے ہمارے دوست گلزار احمد صاحب کی نئی کتاب "پارو” کی اشاعت کی خوشخبری سنائی۔
میں نے کہا ” گلزار احمد صاحب کا رابطہ نمبر دے دیں میں انھیں ابھی مبارک باد کا فون کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا ابھی وقت کم ہے نماز مغرب کے بعد بات کرتے ہیں۔ کل چلے چلیں گے۔ یہ تو خوشی کی بات ہے میں جب نماز ادا کر چکا تو دروازے کی گھنٹی بجی دیکھا تو شاہ صاحب اپنا تھیلا، جس میں وہ اپنے مضامین ضروری کتابیں، کاغزات رکھتے ہیں اٹھائے تیار کھڑے تھے کہا یونس بھائی چلو گلزار صاحب کے پاس مبارکباد دینے ابھی ابھی چلتے ہیں”۔
انھوں نے بتایا کہ دودھ لے کر میں جب گھر گیا تو اسی وقت گلزار صاحب کا مجھے فون آگیا کہ آپ کے پڑوسی دوست محمد یونس کو نئی کتاب پارو پیش کرنی ہے اس لیے میں آگیا ہوں اپنا موٹر سائیکل نکالیں اور چلیں۔
ہم سوار ہو کے گلزار احمد کی قیام گاہ گلستان چوک پر حاضر ہوگئےگلزار احمد صاحب بہت خوش ہوئے اپنی بیٹھک کھول کر ہمارا استقبال کیا، چائے، سوہن حلوے اور تازہ پھلوں سے ہماری تواضع کی۔ اور ہمیں اپنی نئی کتاب پارو پیش کی۔ ان کے گھر کے ایک نوعمر بچے نے موبائل پر ہماری تصویریں بنائیں۔
دوسرے دن مورخہ 18 نومبر کو میں یہ کتاب پڑھنے بیٹھا توحیران رہ گیا۔ گلزار صاحب نے اپنی کتاب کی کہانی کے کرداروں کو اپنی اپنی جگہ پرایسا نبھایا کہ کہیں بھی ان کا تسلسل ٹوٹنے نہیں دیا۔ مجھے ایسا لگتاتھا جیسے میں کسی سینما ہال میں بیٹھا پارو کردار کی فلم دیکھ رہا ہوں اور ماضی میں جاکر ان مقامات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں، اپنے آس پاس محسوس کر رہا ہوں۔ چونکہ میری پیدائش بھی 1959کی ہے۔ پارو کا قصہ بھی اس سال کا ہے۔ میں دریا پارکشتیوں کے ذریعے اور دوسری طرف پتنوں کو دیکھ چکا ہوں اور ان علاقوں کے رسم و رواج کو بھی جانتا ہوں۔
مصنف صاحب نے پارو کے حسن کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ کتاب کو بند کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ ناول کے صفحہ نمبر 60 تک پہنچا تھا کہ مجھے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا، خواب میں دیکھتا ہوں کہ دریا میں سیلاب آتا ہے کچے کے تمام مکین سب کچھ چھوڑ کر ڈیرہ دریا خان روڈ کے دونوں کناروں پر کپڑوں کے تمبوں لگے ہوئے ہیں ان میں ایک تمبو کی طرف اشارہ کر کے میں کہتا ہوں "شاہ صاحب! وہ دیکھوگلزار صاحب کے ناول والی پارو تمبو کے باہر کھڑی ہے۔ لیکن اس کے پاؤں میں ہیل والی سینڈل اور جو گہنے اس کی ساس ہیرا کے ماں نے اسے پہنائے تھے مثلا کنٹھ مالاچندن ہار چام کلی اور سنگارپٹی اس کے گلے میں نہیں تھے۔

About The Author