اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ حادثاتی موت نہیں،قتل ہے||ظہور دھریجہ

میں جب بھی لاہور گیا تو ذیشان نہایت انس اور محبت سے پیش آیا، ہم اب اُسے کہاں تلاش کریں؟۔وزیر اعلیٰ سے درخواست کروں گا کہ وہ اس واقعہ کا فوری نوٹس لیں اور اعلیٰ سطحی انکوائری کراکے واقعہ میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار مجلس ترقی ادب کے آفس گئے، مجلس ترقی ادب میں قائم پنجاب کے پہلے لاہورادبی عجائب گھر، ادبی بیٹھک او رچائے خانے کا افتتا ح کیا، وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ای لائبریری بلاک کے منصوبے کا سنگ بنیاد بھی رکھا ، وزیر اعلیٰ کا یہ عمل بہت اچھا ہے مگر میں جو بات کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ علمی ادبی حوالے سے عظیم خدمات سر انجام دینے والے لاہور کے ایک ادارے فکشن ہائوس لاہور کے سربراہ ظہور احمد خان کے جواں سال بیٹے ذیشان ظہور گزشتہ دنوں لاہور میں گولی کا نشانہ بنے، جواں سال بیٹے کی موت کے صدمے سے ظہور احمد خان کی حالت دیکھی نہیں جاتی ،
کاش وزیر اعلیٰ وہاں پہنچتے اور تعزیت کے ساتھ آئی جی کو اس واقعہ میں ملوث عناصر کی گرفتاری کا حکم دیتے ۔ باپ کو ایک جواں سال بیٹے کی جدائی کا صدمہ ہے ، دوسرا پولیس کے رویے کا ۔ پولیس نے پہلے دن سے اسے اتفاقی حادثہ کا نام دینا شروع کر دیا تھا، سوال یہ ہے کہ کیا پولیس نے تفتیشی بورڈ قائم کیا تھا؟ ، کیا تفتیشی ٹیم کی طرف سے کوئی بات سامنے آئی تھی ؟اگر نہیں تو پھر پولیس والوں کو کیا حق تھا کہ وہ تفتیش سے پہلے اسے حادثاتی موت کا نام دے رہے تھے۔ پولیس کا کہنا یہ تھا کہ ذیشان ظہور دو گروپوں کے درمیان ہونیوالی فائرنگ کی زد میں آکر مارا گیا، اگر ایک لمحہ کیلئے پولیس کی اس بات کو مان بھی لیا جائے تو ذیشان ظہور کی موت کا جرم مزید بھیانک صورت میں سامنے آتا ہے کہ ایک نوجوان بے قصور مارا گیا، صرف ذیشان شہید نہیں ہوا ،
آصف نام کا ایک اور بھی نوجوان بھی شہید ہوا ہے، اس واقعہ کو پولیس کی طرف سے حادثاتی موت قرار دینا مقتولین کے ورثا کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اپنے دورہ کے دوران کتابوں کو ایوارڈ دینے کی بھی بات کی ہے مگر جو ادارہ کتابیں شائع کر کے علم و ادب کی آبیاری کر رہا ہے اس کے سربراہ کو کیا ایوارڈ ملا؟۔ ظہور احمد خان کے بیٹے کی موت کا صدمہ اتنا ہے کہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا،
اس صدمے کے بارے میں ظہور احمد خان نے واٹس اپ پر مجھے ایک وائس میسج جو میں نے سنا ہے آپ بھی ضرور سنئے بلکہ پولیس افسران بھی اس پر توجہ دیں۔ظہور احمد خان کہتے ہیں 19نومبر بروز جمعہ بوقت 2:15اور 2:30کے درمیان میرا بیٹا ذیشان ظہور سعدی پارک گھر سے اپنے بھائیوں اور دوست کیلئے کھانا لے کر فکشن ہائوس جا رہا تھاکہ دوران سفر ایک فائر ہوا جو اس کے دل کے نیچے لگا اور دل میں پیوست ہوگیا، ذیشان نیچے گرا اور دم توڑ گیا ۔ ظہور احمد کے مطابق میں بہاولپور سے سجاد نعیم صاحب کے ساتھ یونیورسٹی سے نکلا ،
واپس ملتان پہنچا تو بیٹے کا بہت گھبرائے ہوئے فون آیا ہے کہ آپ جلدی لاہور پہنچیں ، میں نے کہا کہ بتائو تو سہی کیا ہوا ہے، تو پھر اس نے کہا یہ لو میرا بڑا بیٹا ریاض ہے اس سے بات کر لیں ، ریاض سے بات نہیں ہوئی روتا رہا، پھر اس نے فون بیٹے نعمان کو دیا ، نعمان کو میں نے کہا بیٹا بتائو کیا ہوا ہے تو اس نے کہا ابو جی ذیشان گھر سے کھانا لے کر نکلا تھا اور گولی کانشانہ بن گیا ہے ۔ میرے پائوں تلے سے زمین نکل گئی میں نے رونا شروع کر دیا،ظہور احمد کے مطابق جب میرے بیٹے ، عزیز جائے وقوعہ پر پہنچے تو ذیشان ظہور دم توڑ چکا تھااور سڑک پر پڑا تھا، کپڑے کا چھوٹا سا ٹکڑا منہ ڈھانپنے کیلئے ڈالا گیا تھا،
ان بچوں نے ہمت کر کے ڈیڈ باڈی کو ریسکیو کی گاڑی میں ڈالا اور ڈیڈ ہائوس چھوڑ لے گئے، اس کے بعد پولیس نے ہمارے ساتھ لاوارثوں کی طرح سلوک کیا، ہمارے دوست عاطف محتشم اور لیاقت علی ایڈووکیٹ نے بڑی بحث کر کے اور بڑا زور لگا کر ایف آئی آر درج کرائی ، ایف آئی آر کے بعد میرے دوست محتشم صاحب نے پوسٹ مارٹم و دیگر پراسس مکمل کرایا۔ ظہور احمد کے مطابق میری آپ تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ جو بھی لوگ ہیں جن کی وجہ سے میرا بیٹا اس دنیا سے گیا ہے ان کو بے نقاب کیا جائے تاکہ کوئی اور گھر اجڑنے سے بچ سکے،
میں بیان نہیں کر سکتا کہ ہمارے گھر والوں اور دوستوں کی کیا کیفیت ہے، میری بہو ، میں جانتا ہوں اس کا کیا حال ہے، میرے پوتے پوتیاں سارے فیملی ممبرز غم میں ہیں،اس کیس سے متعلق جو خبریں شائع ہوئیں ان میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے، یہ ایک ٹارگٹ ہے ، میری کوئی دشمنی نہیں تھی ، میری مدد کی جائے ۔ دوران گفتگو ظہور احمد خان کی آواز صدمے سے رندھ گئی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ذیشان کی دو بیٹیاں تھیں ،
19نومبر یعنی ذیشان کی شہادت کے روز اس کی بیٹی کی سالگرہ تھی ، ، اس کے بعد وہ آگے بات نہیں کر سکے ۔ ظہور احمد خان کے بارے میں بتاتا چلوں کہ اس کے 4بیٹے ہیں سب ہی اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں، لاہور کے علاوہ حیدر آباد میں بھی کتابوں کی دکان ہے، ابھی حال ہی میں فکشن ہائوس حیدر آباد کی طرف سے خواجہ فریدؒ کا دیوان سندھی املا اور سندھی ترجمے کے ساتھ شائع ہوا ہے جسے ذیشان نے اپنے والد کی طرف سے مجھے گفٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سئیں آپ میرے انکل بھی ہیں اور میرے ابو کی طرح ہیںکہ آپ کا نام بھی ظہور احمد ہے۔
ذیشان نے کہا تھا کہ ہمیں سرائیکی وسیب سے بہت محبتیں ملی ہیں آپ کی طرف سے آم آئے تھے ، محبت کے اس تحفے کو ہم نہیں بھول سکے ، دکان کے سامنے کھڑی فروٹ کی ریڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ذیشان نے کہا تھا کہ انکل آم تو ادھر بھی بہت ہیں بات محبت کی ہوتی ہے۔ میں جب بھی لاہور گیا تو ذیشان نہایت انس اور محبت سے پیش آیا، ہم اب اُسے کہاں تلاش کریں؟۔وزیر اعلیٰ سے درخواست کروں گا کہ وہ اس واقعہ کا فوری نوٹس لیں اور اعلیٰ سطحی انکوائری کراکے واقعہ میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: