دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اور کتنی گواہیاں چاہئیں نواز شریف کے حق میں؟|| عمار مسعود

آج اگر نواز شریف کی سیاسی سرگرمیوں سے نا اہلی ختم ہوتی ہے تو یہ اس اعتماد کی بحالی کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ یہ شفاف الیکشن کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ یہ اداروں اور عدلیہ کی ساکھ بچانے کی طرف پہلا قدم ہو گا۔

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ سیاست دانوں کے فیصلے ایوانوں میں نہیں آڈیو / وڈیو لیکس کے ذریعے ہوں گے۔ انصاف اب عدالتوں میں نہیں خفیہ ریکارڈنگز کے ذریعے ملے گا۔ حکومتیں اب ووٹ سے نہیں وڈیوز کے تعاون سے قائم رہیں گے۔

امریکہ میں مقیم معروف صحافی احمد نورانی کے ادارے فیکٹ فوکس کی جانب سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیکس نے ملک بھر میں ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ ہائبرڈ نظام کی بوسیدہ دیوار بس چند سیکنڈ کی ایک آڈیو کی مار تھی۔ انصاف کی قلعی چند سیکنڈ کی آڈیو میں کھل کر سامنے آ گئی۔ اب جو یہ نظام ہے یہ صرف ڈھٹائی کی چھتری تلے قائم ہے۔ اب کوئی قانونی جواز باقی نہیں۔ اب حکومت اور لانے والے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ وہ پردہ جو اس مصنوعی نظام کے چہرے سے رفتہ رفتہ سرک رہا تھا اچانک اس نظام کو مکمل طور عریاں کر گیا ہے۔

ہر روز اس بات کے ثبوت آ رہے ہیں کہ عمران خان کو لانے کے لیے نواز شریف اور مریم نواز کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ ہر روز اس بات پر عوام کو یقین آتا جا رہا ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن دھاندلی زدہ تھے۔ ہر روز اس سازش سے پردہ اٹھتا جا رہا ہے جس کے ذریعے عوام کے ووٹ کو لوٹا گیا۔ پارلیمان کی توہین کی گئی۔ نظام عدل کی تضحیک کی گئی۔ انتقام کو انصاف کے لبادے میں پیش کیا گیا۔ اب بھی کوئی ان حقائق سے انکار کرتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اب ملک کا بچہ بچہ حقیقت جان گیا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کس کے لیے ہوا؟

نواز شریف اور مریم نواز نے ایک طویل قانونی جنگ لڑی ہے۔ درجنوں پیشیاں بھگتیں۔ بے شمار بار خود کو انصاف دلانے کی خاطر عدالتوں میں پیش ہوئے۔ بے تحاشا بے بنیاد اور بلا جواز مقدمات کا سامنا کیا۔ مسلم لیگ نون کے تمام ہی رہنما اس عتاب کا شکار رہے۔ کسی پر ہیروئن کا مقدمہ ڈال دیا، کسی پر ترقیاتی پراجیکٹ لگانے کا الزام ثابت ہوا اور کوئی سچ بولنے کا مجرم ہوا۔ اس تمام عرصے میں لوگوں کی ایک مخصوص تعداد اس سارے عمل کو انصاف کہتی رہی۔ بے گناہوں کو مجرم قرار دیتی رہی۔ لیکن ایک چند سیکنڈ کی آڈیو کی وجہ سے اب سب ثبوت مل گئے ہیں۔ اور جو باقی ہیں ان کی بھی آڈیو / وڈیو لیکس چند دنوں میں سامنے آ جائے گی۔

یہ اندیشہ دلوں کو سہمائے ہوئے ہے کہ چند دنوں کے بعد کچھ اور ناقابل تردید ثبوت آئیں گے تو اس نظام کے چلنے کا کوئی جواز نہیں رہ گیا۔ اب ارباب بست و کشاد کو فیصلہ کرنا پڑے گا۔ عوامی سطح پر ہزیمت سے بچنا پڑے گا۔ اپنی عزت اور وقار کو محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ اس وقت یہی ہے کہ جمہوریت کی طرف رجوع کیا جائے۔ بند کمروں میں عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے بجائے مجموعی عوامی شعور پر اعتماد کیا جائے۔ عوام کی رائے لی جائے۔ بائیس کروڑ لوگوں سے مشورہ کیا جائے۔

نواز شریف اور مریم نواز کے حق میں اب تک پانچ گواہیاں آ چکی ہیں۔ یہ سب ناقابل تردید ثبوت تھے۔ ان سے ثابت ہوا ہے کہ وہ مجرم نہیں مظلوم ہیں۔ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ان کے خلاف ایک بھیانک سازش ہوئی ہے۔ ان تمام تر ثبوتوں کے باوجود بھی آج نواز شریف کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔ یہ پارٹی کی قیادت نہیں کر سکتے۔ کوئی سیاسی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ان تمام تر ثبوتوں کے باوجود بھی اگر یہ پابندی قائم رہے گی تو یہ اس نظام پر ایک بہت بڑا تازیانہ رہے گا۔ اس سے پہلے کہ ہم حکومت کی رخصت کے وقت کا تعین کریں۔ ان ہاؤس چینج کی بات کریں۔ آزادانہ اور منصفانہ نئے الیکشن کی بات کریں۔ عدلیہ کا اپنے ماتھے سے اس داغ کو مٹانا ہو گا۔ نواز شریف پرسے پابندی کو اٹھانا ہو گا۔ آزاد الیکشن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ پابندی قائم ہے۔

وہ حلقے جو اس وقت بڑی شد و مد سے اس وقت آزاد اور منصفانہ الیکشن کے حق میں دلائل دے رہیں انہیں اس بارے میں سوچنا ہو گا کہ نواز شریف پر سے نا اہلی کی تلوار ہٹائے بغیر نہ الیکشن آزاد ہوں گے نہ منصفانہ اور نہ ہی انہیں شفاف الیکشن کہا جا سکتا ہے۔ اگر اس نا اہلی کی پابندی کے ساتھ الیکشن کروانے کی کوشش کی گئی تو عوامی رد عمل سامنے آئے گا۔

ہم نے گزشتہ تین سالوں میں اس ملک کا بہت نقصان کیا ہے۔ خود اپنے ہاتھ سے اس نشیمن کو آگ لگا دی ہے۔ اپنے مفادات کی خاطر بائیس کروڑ لوگوں کے مفادات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ بہت کچھ برباد ہو گیا ہے لیکن ابھی بھی واپسی کا رستہ ممکن ہے۔ ابھی بھی بگڑتے حالات کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ ابھی بھی اس گرتی معیشت کو سہارا دیا جا سکتا ہے ابھی بھی پاکستان کے بین الاقوامی امیج کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ ابھی بھی نفرتوں کا اختتام ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سب کے لیے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔ ماضی کی کوتاہیوں سے توبہ ضروری ہے۔

آج اگر نواز شریف کی سیاسی سرگرمیوں سے نا اہلی ختم ہوتی ہے تو یہ اس اعتماد کی بحالی کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ یہ شفاف الیکشن کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ یہ اداروں اور عدلیہ کی ساکھ بچانے کی طرف پہلا قدم ہو گا۔

اگر ایسا نہیں ہوتا، ضد اور ہٹ دھرمی قائم رہتی ہے، ذاتی مفادات، قومی مفادات پر حاوی رہتے ہیں، الیکشن سے پہلے خفیہ ہاتھ کام کرتے رہتے ہیں، مذہبی جماعتوں کا سیاسی استعمال جاری رہتا ہے، عوامی امیدوں کا قتل عام جاری رہتا ہے تو بات بہت بگڑ جائے گی۔ بے گناہی کے تمام تر شواہد کے بعد نواز شریف کی نا اہلی کے برقرار رہنے کی صورت میں سارا نظام نا اہل ہو جائے گا۔ اس لیے کہ ایک طرف تو عدالتیں نواز شریف کو سیاسی اہلیت دینے پر تیار نہیں دوسری جانب عوام اب نواز شریف کے علاوہ کسی کی بات سننے پر راضی نہیں۔

یاد رکھنے کی بات بس اتنی ہے کہ قوموں کو بار بار بڑی غلطیاں کرنے کی مہلت نہیں ملتی۔ قومیں بار بار گر کر کھڑا ہونے کی ہمت نہیں رکھتیں۔ بڑے نقصان سے پہلے غلطیاں درست کرنا ہوں گی۔ ورنہ سارا ملک کسی انجانی آڈیو کی زد میں آ جائے گا سب کا پول کھل جائے گا۔ ابھی آخری موقع بچا ہے، ابھی توبہ کا آخری دروازہ کھلا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

بندہ ایماندار ہے ۔۔۔عمار مسعود

حکومت کی عجلت اور غفلت ۔۔۔عمار مسعود

پانچ دن، سات دن یا دس دن؟ ۔۔۔عمار مسعود

نواز شریف کی اگلی تقریر سے بات کہاں جائے گی؟ ۔۔۔ عمار مسعود

عمار مسعود کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author