حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بائیس برسوں کے دوران یہ دوسرا موقع ہے جب اپنی سالگرہ والے دن میری بیٹی فاطمہ حیدر آنکھوں کے سامنے نہیں ہے۔
پچھلے برس اس کے بابا جانی اپنے دوستوں کے حکم پر ان دنوں (27نومبر) ملتان میں تھے جہاں 14نومبر سے کارکن صحافیوں کے اخبار روزنامہ ’’بدلتا زمانہ‘‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا تھا۔ 26اور 27نومبر کی درمیانی شب باپ بیٹی نے ویڈیو کال پر لمبی گفتگو کی۔ دونوں اُداس تھے۔ فاطمہ کہہ رہی تھی چلیں کوئی بات نہیں بابا آپ میرے پاس نہیں ہیں دادی اماں کے شہر میں تو ہیں۔ آپ کو دادی اماں کا شہر بہت پسند ہے نا؟
بھیگی آنکھوں سے میں نے جواب دیا اولاد کے لئے اپنی امڑی کا دامن اور شہر کائنات کی محفوظ اور پرسکون پناہ گاہ ہوتے ہیں۔ وہ کہنے لگی اچھا بابا جانی یہ بتائیں، دادی اماں آپ کی سالگرہ کیسے مناتی تھیں؟
میں نے مسکراتے ہوئے کہا، تمہاری دادی اماں کے گھر میں سالگرہ منانے کا رواج نہیں تھا البتہ جنم دن پر دعائیں مل جاتی تھیں۔ اس ویڈیو کال کے وقت چونکہ 27نومبر کا آغاز ہوچکا تھا اس نے لاہور میں بیٹھ کر کیک کاٹا، باپ نے اپنی امڑی کے شہر سے اسے دعائیں دیں۔
پھر طے ہوا کہ 25دسمبر کو جب میں لاہور آوں گا تو وہ میری سالگرہ کے کیک کو میرے ساتھ کاٹے گی اس طرح ہم ایک بار پھر اسکی سالگرہ منائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا حالانکہ موسم کی خرابی (دھند) کی وجہ سے میں رات گئے ملتان سے لاہور پہنچ سکا تھا۔ باپ بیٹی کی مشترکہ سالگرہ کا یہ موقع اپنے اندر مزید خوشیاں لئے ہوئے تھا کہ اس دن فاطمہ کی ایک پھپھو طویل مدت کے بعد بھتیجی سے مل رہی تھی۔
آج فاطمہ پھر میری آنکھوں کے سامنے اور اپنے کے گھر پر نہیں ہے۔ وہ جولائی میں امریکہ چلی گئی نومبر آگیا اور 27نومبر بھی۔ بیٹیاں ہی تو باپ کی زینت اور گھر کی رونق ہوتی ہیں۔
ہمارے گھر کی رونق امریکہ میں ہے اس کا 22برس کا سفر حیات طے ہوا ہے باقی ماندہ سفر حیات میں بھی اللہ کریم سرکار دوعالمؐ کے صدقے کرم و فضل فرماتا رہے۔
پچھلے برس میں نہیں تھا اس بار فاطمہ، وہ ہے مگر آنکھوں سے دور۔ ہم ویڈیو کال پر خوب باتیں کریں گے۔ ویڈیو کال، لیکن ملال تو رہے گا کہ بیٹی کے ماتھے پر بوسہ نہیں دے پاوں گا۔ زندگی یہی ہے۔
آگے بڑھنے کےلئے تھوڑی بہت قربانی تو دینا ہی پڑتی ہے۔
22سال قبل ہمارے آنگن میں اتری شہزادی نے پچھلے کئی برس اپنے والدین کی خوب دیکھ بھال کی تھی
ہمارے گھر میں پچھلے بائیس برسوں سے اس کی حکمرانی تھی۔ سارے اختیارات کسی آئینی ترمیم کے بغیر اس کے پاس تھے۔ کیا کھانا ہے اور کیا پکانا اس کا فیصلہ حتمی ہوتا تھا۔
ہم (میں اور میری اہلیہ) نے کس وقت کون سی دوا کھانی ہے، کب کس ڈاکٹر کو دیکھانا ہے یہ سب اسے ہم سے زیادہ معلوم ہوتا تھا، پچھلے برس جب کورونا نازل ہوا تواس نےہم دونوں کے گھر سے باہر جانے یہاں تک کہ سودا سلف لانے کے بازار جانے پر بھی پابندی عائد کردی۔
یہ ذمہ داری بھی اس نے خود سنبھال لی۔ کئی بار کہا بابا کی جان باہر کورونا ہے۔ جواب ملا بابا ابھی وہ بچوں کو کچھ نہیں کہہ رہا، بس آپ بہانے نہ بنائیں۔
نومبر کے آغاز پر میں چھ ماہ کے لئے ملتان چلا گیا تواس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئیں اور یہ اس نے خوب ادا کیں۔
روزانہ رات کو ہم ویڈیو کال پر باتیں کرتے اور وہ دن بھر کی مصروفیات کی تفصیلات بتانے کے ساتھ کہتی بابا جانی آپ جلدی سے آجائیں۔
اداس ہورہی ہو میں دریافت کرتا؟ بابا وہ تو ہے لیکن
"یہ آپ کی بیگم مجھے ڈانٹتی بہت ہیں”۔ اس بات پر ہم دونوں ہنستے
ایسے میں ویڈیو کال پر ایک آواز سنائی دیتی ’’حیدر جاوید یہ میری بات نہیں سنتی‘‘۔ سنتی ہوں بابا یہ بس مجھے آپ سے ڈانٹ پڑوانا چاہتی ہیں۔
ہمارہی خواہش تھی وہ ایف ایس سی کرکے میڈیکل میں داخلہ لے اور ڈاکٹر بنے۔ اس نے اچھے نمبروں میں ایف ایس سی کی لیکن ایف ایس سی کے دوسرے سال کے دوران ہی اعلان کیا کہ اسے ڈاکٹر نہیں بننا۔ اچھا تو پھر کیا پروگرام ہے، میں نے پوچھا۔
بابا !مجھے میڈیا سٹڈی میں آنرز کرنا ہے آپ مجھے کینرڈ میں داخل کروادیجئے گا۔ میں نے وعدہ کرلیا۔
خاتون خانہ بہت برہم ہوئیں بلکہ مجھ سے تو دوچار دن ناراض بھی رہیں کہ بجائے اس کے کہ بیٹی کو سمجھاتے الٹا اس کی حمایت کرنے لگے۔ بہت مشکل سے انہیں آمادہ کرپایا کہ ہمیں بچوں پر اپنے فیصلے اور خواب مسلط کرنے کی بجائے انہیں اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنی چاہیے۔
خاتون خانہ مان تو گئیں لیکن کہنے لگیں حیدر جاوید مجھے یہ بتائیں اس صحافت نے آپ کو کیا دیا جو میڈیا سٹڈی میں آنرز کرکے اسے ملے گا؟
میں ان کے سوال میں موجود کرب، شکایات اور مسائل تینوں کو سمجھ سکتا تھا۔ قبل اس کے کہ میں جواب دیتا، فاطمہ میری مدد کو آگے بڑھی اور بولی، ماما دیکھیں لوگ میرے بابا کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ ہر شخص کہتا ہے انہوں نے ساری عمر اپنے نظریہ سے وفا کی۔ اب ماں بیٹی میں بحث شروع ہوگئی ماں نے بیٹی کے سامنے شکایات کے دفتر کھول کے رکھ دیئے اور پھر ایک سوال کرتے ہوئے کہا چلو تم اپنے بابا سے یہ پوچھو یہ ہر حکومت کے خلاف ہی کیوں لکھتے ہیں۔
حکومت، فوج، مولوی، تینوں سے ہروقت لڑتے ہی رہتے ہیں۔ کئی بار اللہ تعالیٰ نے حادثوں سے محفوظ فرمایا پھر بھی یہ سدھرے نہیں۔
قبل اس کے کہ مصائب مزید پُر درد ہوتے میں نے کہا وہ آپ کہہ رہی تھیں جناح پارک سے ایک ویگن لاہور کے مختلف کالجز کے لئے بچیوں کو لے کر جاتی ہے۔ ویگن جن کی ملکیت ہے وہ خاندان جناح پارک میں ہی مقیم ہے۔ کل چلیں ان کے گھر بات کرکے آئیں کہ وہ فاطمہ کو بھی لے جایا کریں۔
جواب ملا دیکھا میری باتوں کا جواب دینے کی بجائے موضوع بدل دیا۔ فاطمہ کہنے لگی آپ بے فکر رہیں میں تعلیم مکمل کرلوں جو جو کام میرے بابا نے آپ کے لئے نہیں کیا وہ میں کردوں گی۔ پھر ہم تینوں ہنس پڑے، شکایات کے دفتر بند ہوگئے۔
فاطمہ کو کینرڈ کالج میں داخلہ مل گیا۔ ہم بھی شیخوپورہ سے لاہور منتقل ہوگئے۔ ان برسوں میں، میں ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ لاہور سے بطور ایڈیٹر منسلک تھا۔ مجھے بھی چار پانچ گھنٹے روزانہ کے سفر سے نجات مل گئی۔
پچھلے برس فاطمہ کا میڈیا سٹڈی کا آنرز مکمل ہوا جولائی میں وہ امریکہ چلی گئی۔ اب اس سے فون پر بات ہوتی ہے۔ اپنی عادت کے مطابق وہ شب و روز کی مصروفیات تفصیل سے بتاتی ہے۔ پھر کہتی ہے بابا میں بہت اداس ہوں،
امتحان کی اس گھڑی میں اسے کہتا ہوں اداس نہیں ہوتے دیکھو ہم بھی تو تمہارے اچھے مستقبل کے لئے اداسی کو پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔
سچ یہ ہے کہ یہ کہتے ہوئے میں اس کی طرف دیکھنے کی بجائے سامنے کتابوں کے ریکوں کی طرف دیکھنے لگتا ہوں۔ بیگم کبھی کبھی شکوہ کرتی ہیں کہ ’’آپ نے غلط کیا اس وقت زور دیتے اس پر وہ ایف ایس سی کے بعد میڈیکل کالج میں داخلہ کے لئے انٹری ٹیسٹ دیتی۔
یہ میڈیا سٹڈی کی تعلیم ، فائدہ کیا ہے اسکا ، صحافیوں کی پاکستان میں کوئی زندگی ہے؟ آپ اپنا حشر دیکھ لیں پھر بھی بیٹی کو اسی شعبہ میں لاناچاہتے ہیں‘‘۔
مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پاتا تو امام علیؑ کے ارشاد کے پیچھے پناہ لیتے ہوئے انہیں بتاتا ہوں، مولاؑ کا ارشاد ہے
’’اولاد کی تربیت اپنے زمانے کی طرح نہیں بلکہ اِن کے زمانہ کے تقاضوں کے مطابق کرو‘‘۔
مولاؑ کاارشاد سن کر وہ درود پڑھتی ہیں مگر ان کی آنکھیں کہہ رہی ہوتی ہیں، مولاؑ کا ارشاد سنانے کی بجائے میرے سوال کا جواب دیجئے۔
آج ہم دونوں اداس ہیں ہماری نورالعین ہماری زندگی زینت اور فخر ہم سے ہزاروں میل دور ہے گو وہ وہاں بھی اپنوں کے درمیان ہے مگر ہم سے تو دور ہے۔ سالگرہ مبارک بابا کی جان فاطمہ حیدر، ڈھیروں دعائیں،
بس اپنے بابا کی ایک بات یاد رکھنا، حالات کیسے بھی ہوں تم نے دخترِ امام علیؑ و پاک بتولؑ سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی پیروی کرنی ہے اور اپنے حصے کا سچ وقت پر بولنا ہے۔
نوٹ
ہفتہ 27 نومبر ہماری نورالعین سیدہ فاطمہ حیدر بخاری کا جنم دن ہے فیس بک تین دن کیلئے بلاک رہی آنکھوں سے اوجھل ہزاروں میل دور مقیم لخت جگر کی سالگرہ کی مناسبت سے یہ تحریر لکھی تھی بیٹی نے ویڈیو کال پر کہا بابا اس سے اچھا تحفہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔ ہم نے بیٹی کی تصویر سجاکر کیک بھی کاٹا آنکھیں کیوں بھیگیں پتہ نہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ