آپ کتنے عرصے کے بعد اپنی الماری میں کتابوں کی ترتیب درست کرتے ہیں؟
میں نے آج کئی مہینوں کے بعد اپنی الماریوں کو سنوارنے کا ارادہ کیا۔ میں اس عرصے میں سو ڈیڑھ سو، یا شاید اس سے بھی زیادہ کتابیں خرید چکا ہوں۔ اتنی کتابیں کون پڑھ سکتا ہے؟ دراصل مجھے کتابیں خریدنے کا ہوکا ہے۔ بعض اوقات میں کتاب خرید کر بھول جاتا ہوں اور دوسری بار بھی خرید لیتا ہوں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک وقت میں ایک کتاب کی کئی کاپیاں خرید لیتا ہوں۔ اس سے آسانی یہ ہوتی ہے کہ کوئی مہمان گھر آجائے تو اسے تحفہ دیا جاسکتا ہے۔
کیا ہمارے معاشرے میں، اپنی کتابیں خود چھپوانے والے ادیبوں شاعروں کے علاوہ، کوئی اور شخص دوسروں کو کتاب کا تحفہ دیتا ہے؟
اچھا تو آج میں نے اپنی کتابوں کو ترتیب سے لگانا شروع کیا تو دستخط شدہ کتابیں الگ کرتا گیا۔ کیسی کیسی کتابیں نکل آئیں! میں ان میں کھو
گیا اور آج بھی کتابیں بکھری رہ گئیں۔
میں ایک عرصے سے دستخطوں والی کتابیں جمع کررہا ہوں اور کتابیں لکھنے والوں سے دستخط کروا رہا ہوں۔ میں نے اپنے ہاں کم ہی ایسے لوگ دیکھے ہیں جنھیں اس کام میں کوئی دلچسپی ہو۔ مغرب میں یہ کام صنعتی بنیادوں پر کیا جارہا ہے۔ اہم ادیبوں کی ہر نئی کتاب کے کئی ایڈیشن چھپتے ہیں۔ ہارڈ بیک اور پیپر بیک کے علاوہ سائنڈ ایڈیشن جو تھوڑا مہنگا ہوتا ہے۔
میری ذاتی لائبریری میں جو دستخط شدہ ناول موجود ہیں ان میں پاولو کوئیلو کا الکیمسٹ، ڈین براؤن کا ڈا ونچی کوڈ، خالد حسینی کا دا کائٹ رنر، یان مارٹیل کا لائف آف پائی، ارون دھتی روئے کا دا گاڈ آف اسمال تھنگز اور فلم سلم ڈوگ ملینیئر کی تخلیق کا سبب بننے والا ناول کیو اینڈ اے شامل ہیں۔ کیو اینڈ اے کے مصنف بھارتی دفتر خارجہ کے موجودہ ترجمان وکاس سوارپ ہیں۔ افغان ادیب عتیق رحیمی کا ناول دا پیشنس اسٹون بھی میرے پاس ہے جس پر انھوں نے ایرانی فلم میکر شیریں نشاط کا نام لکھ کر دستخط کیے۔
آرٹ بک والڈ کے دستخط والی کتاب امریکا سے ایک دوست نے بھیجی تھی۔ لیڈیا ڈیوس کی کتاب لندن سے ایک مہربان نے ارسال کی۔ شاہد رسام انڈیا گئے تو گلزار صاحب سے میرا نام لکھواکر کتاب پر دستخط کروالائے۔ ان کے علاوہ انتظار حسین، عبداللہ حسین، کمال احمد رضوی، مشتاق احمد یوسفی، بانو قدسیہ، مستنصر حسین تارڑ، ضیا محی الدین، آغا ناصر، رضا علی عابدی، عطا الحق قاسمی، انور مسعود، انور شعور، افضال احمد سید، عامر حسین، محمد حنیف، کاملہ شمسی اور ندیم فاروق پراچہ سے خود دستخط کرواچکا ہوں۔ صدر ممنون حسین، ڈاکٹر ادیب رضوی، حسین حقانی، محمد احمد سبزواری اور طالب جوہری کے آٹوگراف بھی میرے خزانے میں ہیں۔
اس سال کراچی لٹریچر فیسٹول کے دوران میں نے تیس کتابوں پر دستخط کروائے۔ ان میں جرمن ادیب کرسٹوف پیٹرز، امریکی تاریخ داں باربرا میٹ کاف، برطانوی اسکالر ضیا الدین سرکار، بھارت کے سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید، ٹی وی اینکر برکھا دت اور ترقی پسند ادیب سجاد ظہیر کی بیٹی اور ادیبہ نور ظہیر بھی شامل ہیں۔
میری پاس کئی کتابیں ایسی ہیں جو میں پڑھ نہیں سکتا لیکن ان پر دستخط کروالیے ہیں۔ اسٹیفن کوپیٹزکی کے کراچی لٹریچر فیسٹول میں آنے کی خبر سنی تو جرمنی سے ان کا ناول ریسیکو منگوالیا۔ یہ جرمن زبان میں ہے۔ کوپیٹزکی نے بہت حیران اور خوش ہوکر اس پر دستخط کیے۔ امر جلیل کی کوئی کتاب اردو میں نہیں۔ میں نے ان کے انگریزی افسانوں کے مجموعے کے علاوہ سندھی کتابوں پر آٹوگراف لیے ہیں۔ اسے میری بدقسمتی ہی کہیے کہ میں سندھی نہیں پڑھ سکتا۔ چین کے ممتاز ادیب یان لیانکے کے چینی زبان میں دستخط پاکستان میں میرے علاوہ شاید صرف آصف فرخی کے پاس ہوں جو ان سے لندن میں مل چکے ہیں۔
دستخط شدہ کتابیں فٹ پاتھ سے بھی مل جاتی ہیں۔ میرے پاس ایسی متعدد کتابیں ہیں۔ مجنوں گورکھپوری کی کتاب غالب، شخص اور شاعر مجھے ایک ٹھیلے سے صرف ڈیڑھ سو روپوں میں ملی تھی۔ اس پر ان کے دستخط تھے۔ راغب مرادآبادی اور جوش ملیح آبادی کی خط و کتابت پر مبنی کتاب مکالمات جوش و راغب سو روپے میں ہاتھ لگی۔ اس پر راغب نے 1988 میں دستخط کیے تھے۔ 1982 میں اسد محمد خان نے اپنی کتاب کھڑکی بھر آسمان پر دستخط کرکے اسے عبدالحمید چھاپرا کی نذر کیا۔ وہ گھوم پھر کے مجھ تک پہنچ گئی۔ چھاپرا صاحب نے اپنی کتاب کہانی کفن چور حکمرانوں کی 1999 میں دستخط کرکے کسی کو پیش کی۔ وہ بھی اب میرے قبضے میں ہے۔
بعض کتابیں ایسی ہیں جو لکھیں کسی اور نے لیکن میں نے دستخط کسی اور سے کروالیے۔ بھارتی تاریخ داں اور فلم بمبے ویلوٹ کے اسکرپٹ رائٹر گیان پرکاش کراچی آئے، اور مجھے ان کی کوئی کتاب نہ ملی تو جیمی تھامپسن اسٹرن کی کتاب دا فلم میکر سیز پر ان کے آٹوگراف لے لیے۔ اردشیر کاوس جی کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کی کتاب کا کیا کرتا؟ ڈون کے ایڈیٹر ظفر عباس سے اصرار کرکے اس پر دستخط کروائے۔ جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات پر ان کے شاگرد ڈاکٹر ہلال نقوی سے آٹوگراف لیے۔ جون ایلیا کی کتاب فرنود پر ان کے دوست شکیل عادل زادہ سے تحریر لکھوائی۔
دوسروں کے دستخط ڈھونڈتا پھرتا ہوں لیکن جب کوئی مجھ سے میری کتاب پر دستخط کروانا چاہتا ہے تو جھجک جاتا ہوں۔ کبھی انکار بھی کردیتا ہوں۔ اس کی وجہ سو لفظوں کی ایک کہانی میں بیان کردی ہے۔ اس کا عنوان ہے، ردّی
پیاری محبوبہ!
آج میں نے صدر کے فٹ پاتھ سے ایک پرانی کتاب خریدی
وہی کتاب اگر نئی خریدتا تو ڈھائی سو روپوں میں مل جاتی
لیکن اس کباڑیے نے پرانی کے پانچ سو مانگے
کہنے لگا، ”کتاب تو مفت سمجھیں
ساری قیمت دست خطوں کی ہے
کتاب کا اِنتساب جس لڑکی کے نام ہے
افسانہ نگار نے اپنے قلم سے وہی نام دوبارہ لکھ کر
دست خط کیے ہیں
یہ محبّت کا تحفہ ہے صاحب!“
میں نے ردّی فروش کو منہ مانگے دام ادا کردیے
لیکن اسے یہ نہیں بتایا کہ
کتاب پر نام تمھارا تھا
اور دست خط میرے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ