نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اور اب حکیم عمر عطاری۔۔۔||حیدر جاوید سید

اسی لئے اس کے سانحہ ارتحال کو ہر شخص نے اپنے ذاتی نقصان کے طور پر لیا۔ یہ مقبولیت اور توقیر کی معراج اس عمر کے نوجوانوں کے حصے میں بہت کم آتی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے دو تین دن سے لکھنے پڑھنے کو بالکل بھی جی نہیں چاہتا۔ رزق سے بندھی مجبوریاں نہ ہوں تو خاموشی سے کسی ویرانے کی طرف رخ کرلوں یا پھر اپنے کمرے سے باہر نہ نکلوں۔
اس کیفیت کی وجہ ہمارے نوجوان دوست اور چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز حکیم عمر عطاری کا سانحہ ارتحال ہے۔
ہفتہ 20نومبر کو بخار کی علامات پر ہسپتال سے رجوع کیا اور ہسپتال میں داخل ہوگئے جہاں بتایا گیا کہ انہیں ڈینگی بخار ہے۔ سوموار کی شام وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اتوار کو انہوں نے سوشل میڈیا کے اپنے فیس بک اکائونٹ پر ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات، طبی عملے کے غیرذمہ دارانہ رویے اور صفائی کے ناقص انتظامات پر ایک پوسٹ بھی لکھی۔
ہفتے کی
سپہر وہ ہمارے مشترکہ دوست بلال حسن بھٹی کی بارات میں شریک ہوئے۔ شادی ہال میں موجود دوستوں اور بالخصوص برادرم ملک قمر عباس اعوان سے طبیعت کی ناسازی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہتے رہے
’’ملکا لگدا انج اے کہ کم پے گیا اے، ڈینگی میرے سر ہوگیا وے‘‘۔ طبیعت میں زیادہ خرابی محسوس کرتے ہوئے وہ تقریب کو درمیان میں چھوڑ کر چلے گئے۔
دو اڑھائی گھنٹوں کے بعد ان کے ہسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع ملی پھر انہوں نے خود بھی تصدیق کردی۔
اگلے دو دن وہ ڈینگی بخار اور ہسپتال میں داخلے کے باوجود دوستوں سے رابطوں میں فعال رہے۔ سوموار کے روز انہوں نے اپنے محبوب دوست شاہ اویس نورانی کو سالگرہ مبارک کا پیغام بھیجا۔ اس پیغام کے لگ بھگ گیارہ گھنٹوں بعد اطلاع ملی کہ انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا ہے۔ کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ان کے سانحہ ارتحال کی خبر نے قیامت توڑدی۔
ہنستا مسکراتا، دوستوں کا دوست، مربی و مددگار، ہر دم متحرک رہنے والا حکیم عمر عطاری منگل کی صبح منوں مٹی کی چادر اوڑھ کے سوگیا۔
لمبی مسافت ہے، چار معصوم بچے اور خاندان۔ دوست احباب، عزیزورشتہ دار سب ایک دوسرے سے یہی کہہ رہے ہیں، بس اللہ کی رضا، مالک کی مرضی، سفر حیات مکمل ہوا، زندگی کا انت یہی ہے۔
ہر ذی نفس کے لئے موت کا ذائقہ چکھنا واجب ہے لیکن اس جوان رعنا کی موت نے ہزاروں لوگوں کو سوگوار کردیا۔
دوسرے بہت سارے دوستوں کی طرح میرا بھی ان سے تعارف سوشل میڈیا کے توسط سے ہوا تھا پھر دو تین برس قبل ان سے بالمشافہ ملاقات ہوئی۔ نوجوان نے اپنی فہم و فراست، درد مندی اور انسان دوست خیالات کی بنا پر گرویدہ کرلیا۔
ملاقات مضبوط برادرانہ تعلق میں تبدیل ہوئی۔ ہر دو چار دن بعد رابطہ لازم ہوا۔ حکیم عمر عطاری، طب کے پیشے سے منسلک تھے۔ باضابطہ طور پر حکمت کی تعلیم حاصل کی۔ مطالعہ اچھا تھا، مکالمے پر یقین رکھتے تھے۔ انسان دوستی میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کی عمر کے نوجوان اپنی شامیں تفریحات میں بسر کرتے ہیں وہ ان اوقات میں ضرورت مندوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کرنے کا فرض نبھاتے، کسی دوست یا دوست کے دوست کی غمی خوشی کو ذاتی غمی خوشی کے طور پر لیتے۔ اس خوبی نے انہیں ہردلعزیز بنارکھا تھا۔
اڑھائی تین برسوں کے دوران رابطوں کے علاوہ ان سے تین چار نشستیں ہوئیں۔ ہر ملاقات میں درجنوں سوالات لئے ہوتے، خوب محفل جمتی۔ ان کے سوال ہوتے اور طالب علم کے جوابات۔ درمیان میں کبھی کبھی مسرت بھرے انداز میں کہہ اٹھتے
’’ویخونا شاہ جی سوال کرن دا سواد آگیا وے‘‘۔ خاندانی طور پر صوفی سنی مذہبی پس منظر رکھنے کے باوجود ان کے حلقہ احباب میں ہر طبقہ خیال کے لوگ شامل تھے۔ وسعت قلبی کا اندازہ کیجئے کہ وہ ان لوگوں سے بھی ترک تعلق پر کبھی آماد نہیں ہوئے جن کے بارے میں ان کے کچھ مذہبی احباب کی رائے خاص قسم کی ضد اور ہٹ دھرمی سے عبارت ہوتی۔
اس جوان رعنا کو ہمیشہ یہ ملال رہتا تھا کہ ایسا کیا ہوگیا ہے کہ لوگ ناموں اور مسلکی شناخت پر تعلق رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
ایک سے زائد بار بتایا، شاہ جی! میرے کچھ دوست کہتے ہیں حکیم یہ تم جسے مرشد کہہ کر بات کرتے ہو وہ تو لادین بھی ہے اور گستاخ بھی۔ پھر خود ہی قہقہ اچھالتے ہوئے کہتے،
’’لئو اے وکھری چول جے‘‘۔ بندہ لادین بھی ہے اور گستاخ بھی ، روندے اندھی عقیدت نوں‘‘۔
دو برس ہوتے ہیں ایک صبح برادرم علی سجاد شاہ، ملک قمر عباس اعوان، بلال حسن بھٹی، بابر لطیف ملک ہمارے فقیر خانے پر جمع ہوئے دوستوں کی یہ محفل لگ بھگ پانچ ساڑھے پانچ گھنٹے جمی رہی
اس دوران دیگر موضوعات پر گپ شپ بھی رہی لیکن عمر عطاری کے انوکھے سوالات کا جواب بھی واجب ہوا۔ مسلم تاریخ کے تضادات، روایات کی اسناد پر اٹھائی گئی بحثوں، مسالک کے اختلافات، مسلم معاشروں کی زوال پذیری، پاکستانی سیاست کے اتارچڑھائو سے بندھے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ایک لمحے میں، میں نے کہا
’’یار حکیم تم حکمت کیا کرو ان بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
یاد پڑتاہے کہ علی سجاد شاہ اور ملک قمر عباس اعوان نے تائید کی مگر اس نے ان کی تائید کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا
یارو!
میری رائے یہ ہے کہ بندے کو زندگی کا سفر اپنے شعور کے ساتھ طے کرنا چاہیے۔ بات تو اس کی درست تھی اور ہے۔ اس کے سانحہ ارتحال کی خبر پر جو پہلا سوال میرے ذہن میں ابھرا وہ یہی تھا کہ کیا اپنے عصری شعور کے ساتھ اس کا سفر حیات اتنا ہی تھا اسی لئے اسے ہر کام کی جلدی تھی؟
سب راضی رہیں، سب جان لوں، سب کی خدمت کروں، سب کے دکھ بانٹوں۔ کم از کم میں نے اڑھائی تین برسوں کے مختصر لیکن بھرپور تعلق میں اسے ایسا ہی پایا۔ اسی لئے وہ جلدی سے دنیا خرابے سے رخصت ہوگیا۔
موت اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے۔ گزشتہ روز بھی ایک دوست رانا تنویر عالمگیر سے عرض کیا تھا کہ
” ہم اپنی فہم کی بنیاد کامل انکار پر بھی رکھیں تو تب بھی موت کا انکار ممکن نہیں۔ ہاں وجوہات پر بحث تو ہوسکتی ہے لیکن ہر وجہ حتمی طور پر موت کی تصدیق ہی کرتی ہے”
یہاں بھری پری انسانی آبادیوں میں نجانے کتنے لوگ سفر حیات مکمل کرکے رخصت ہوتے ہیں لیکن یاد وہی رہتے ہیں جو کردار و عمل کے حوالے سے منفرد ہوں۔
حکیم عمر عطاری بھی اردگرد کے ہجوم سے یکسر مختلف تھے۔ ہر آن لوگوں کی مدد اور رہنمائی کے لئے تیار بلکہ یوں کہہ لیجئے ’’تازہ بہ تازہ‘‘۔ انکار کرنا اور نظرانداز کرنا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔
اسی لئے اس کے سانحہ ارتحال کو ہر شخص نے اپنے ذاتی نقصان کے طور پر لیا۔ یہ مقبولیت اور توقیر کی معراج اس عمر کے نوجوانوں کے حصے میں بہت کم آتی ہے۔
یقیناً وہ اس حوالے سے خوش نصیب اور اسکے تعلق سے محروم ہونے والے بدنصیب ہی ہیں۔ اپنا سفر حیات طے کرکے وہ رخصت ہوا، اس کی یادوں کا سرمایہ ہر دوست کے پاس ہے۔ سچ یہ ہے کہ وہ یاد رکھے جانے کے لئے خلق ہوا تھااور رخصت بھی۔
مالک دوجہاں کے اپنے فیصلے ہیں ان میں مداخلت ممکن ہے نہ ان پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اس دنیا سرائے میں ہمیشہ جینے کی سند لے کر کون آیا ہے؟
کوئی بھی نہیں۔ حق تعانی اس کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے، آمین۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author