حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رزق سے بندھی ہجرتوں کے اسیر مجھ ملتانی کو جب بھی امڑی کے شہر میں قیام کی سعادت نصیب ہوتی ہے میری عید ہوجاتی ہے۔ دوستوں سے ملتا ہوں، امڑی زندہ تھیں تو ان کی قدم بوسی کی سعادت حاصل ہوجاتی تھی۔
اولاد کے درمیان سے اٹھ کر حیات ابدی کے سفر پر روانہ ہوگئیں تو اب ان کی تربت کو بوسے دے کر اور حالِ دل بیان کرکے سکون پاتا ہوں۔ پچھلے چند ماہ سے علیل ہوں اس کے باوجود امڑی کی تربت کو بوسہ دینے کے لئے ملتان کا سفر اچھا لگتا ہے
البتہ یہ دکھ ضرور ہے کہ اب میں پہلے کی طرح اپنے جنم شہر کی سڑکوں اور بازاروں میں گھوم نہیں پاتا بس ہوٹل کے کمرے تک محدود رہتا ہوں۔
دوستوں کی مہربانی ہے ملنے آجاتے ہیں مسافر کے چہرے پر مسکراہٹیں رقص کرنے لگتی ہیں۔ ملتانی منڈلی کے سنگتی ہوں یا ملتانی سنگت کے عزیز جاں دوست، ان کی محبت اور کرم نوازی ہے کہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر محفل سجالیتے ہیں۔ امڑی کے شہر میں اس بار مسافر بیٹے کو پانچ دن رہنا نصیب ہوا ان پانچ دنوں میں دوست بھول نہیں پائے۔
ملتانی منڈلی کے صاحب علم دوست حافظ صفوان نے منڈلی کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ عشائیہ تو مل بیٹھنے کا بہانہ تھا اصل بات تو وہ نوک جھونک ہے جو منڈلی کا خاصا ہے۔ حافظ جی، عمومی معنوں میں تو حافظ قران ہیں ہی مگر اس کے ساتھ سرسید احمد خان کے بھی حافظ ہیں۔ عاشق وہ کسی ’’اور‘‘ کے ہیں اور اس عشق میں وہ محبوب کی مخالف پارٹیوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو عاشق کا حق بنتا تھا۔
ملتانی منڈلی کے تاحیات قائد خاور حسنین بھٹہ اپنے شفیق و مہربان والد ملک شفقت حسنین بھٹہ مرحوم کے جانشین کے طور پر پچھلے ایک برس سے حق فرزندگی نبھانے میں مصروف ہیں۔ اپنی سیاسی، سماجی اور ملی ذمہ داریوں کے ساتھ روزگار کے امور کی انجام دہی اور پھر یاران ملتانی منڈلی کے ناز نخرے اٹھانے میں کمی بیشی نہیں کرتے۔
ساجد رضا تھہیم پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں جوانی میں اچھے خاصے انقلابی ہوا کرتے تھے۔ اب خالص جمہوریت پسند ہیں۔ مستقل عزیزی طارق شیراز دو جمع تین نتیجہ مرضی کا یعنی اکائونٹس کی دنیا کے آدمی ہیں جہاں موجود ہوں مسکراہٹیں تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ ایک اور انقلابی ہیں شاہد ملک، شائستہ اطوار شخص ہیں۔
برادر عزیز کاشف حسین سندھو پنجابی قوم پرستی کے علمبردار ہیں اپنی دھن میں مگن، پنجابی زبان و ادب اور قوم پرستی کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔
عزیزم کاشف حسین سول سپر میسی کے محافظ ہیں اس بار بوجہ ملازمت غیرحاضر تھے۔ لیجئے یہ ہے دوستوں کے اس کٹھ کا تعارف جسے ملتانی منڈلی کہتے ہیں۔
ہم سب کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے حامی ہیں البتہ مکالمے پر یقین رکھتے ہیں۔ مکالمے کے درمیان چھوٹا موٹا فقرہ اچھال لینے کو برا نہیں سمجھتے البتہ دوست کی عزت نفس کا پاس ضرور رکھتے ہیں۔ ملتانی منڈلی اس بار حافظ جی کی مہمان تھی سو "لنگرِ حافظ” سے مستفید ہوئی خوب باتیں ہوئیں۔ سیاست، تاریخ، علم و ادب، مذہب اور اس سے ملتے جلتے موضوعات کے ساتھ درمیان میں کبھی کبھی مجاہدین جاتی امرا اور دیوان گانِ گڑھی خدا بخش میں یُدھ بھی پڑجاتا۔
قائد محترم کی قیادت تو خیر ہم بھگت لیتے تھے ان کی موجودگی میں انکار و اقرار اور پھر عدم وجود تک یہ خوب بحثیں اٹھالیا کرتے تھے مگر جب سے قائد اپنے بابا جان مرحوم کے جانشین (سجادہ نشین) ہوئے ہیں اب آتے ہی اعلان کردیتے ہیں یارو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ ارے ٹھہریں ملتانی منڈلی کے ایک شاہکار برادرِ عزیز محمود مہے کا تعارف تو رہ ہی گیا، دستیاب وہ قسمت سے ہوتے ہیں۔ مل جائیں تو پھر قدیم روایات میں سے ایسے ایسے چٹکلے نکال لاتے ہیں رہے نام سائیں کا۔
اب آیئے ملتانی سنگت کی طرف، یہ فقط چھ رکنی سنگت ہے اس کے روح رواں کامریڈ دلاور عباس صدیقی ہیں۔ ملتان اور سرائیکی وسیب کے ساتھ ملک بھر کے محنت کشوں اور محنت کش تنظیموں میں اپنی نظریاتی استقامت اور جدوجہد کی بدولت خاصے معروف ہیں۔
مجاہد سول سپر میسی حسن رانا کے دو پسندیدہ مشغلے ہیں اولاً کائنات کی عظیم جمہوری جماعت کی سوشل میڈیا پر کلاس لینا اور دوسرا مشغلہ خیر رہتے دیجئے کہیں برادرِ بزرگ کے منصب سے اتار ہی نہ دیں
ہماری ملتانی سنگت کے تیسرے رکن معطل شدہ ڈبل امام منجمد کامریڈ استاد میرالحسینی ہیں۔ سوشل میڈا کے دھانسو قسم کے دانشور ہیں شاگردوں اور عقیدت مندوں کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں اب تو خیر سے لاہور تک پہنچ ہوگئی ہے اس لئے مزاج میں کچھ کچھ سامراجیت بھی پائی جاتی ہے۔
چوتھے رکن احمد خان لنگاہ ایڈووکیٹ ہیں آپ اپنا تعارف ہیں ہم اگر تعارف میں کمی بیشی کربیٹھے تو کھٹ سے نوٹس کھڑکادیں گے سو ان کے تعارف کے لئے ضروری ہے کہ براہ راست ان سے ہی رابطہ کیا جائے۔
ملتانی سنگت کے پانچویں رکن کامریڈ ملک ستار ہیں روزگار انہیں خلیجی ریاست میں رکھے ہوئے ہے دل ان کا ملتان میں دھڑکتا ہے۔
خیر یہ دنیا جہان میں جیتے بستے سارے ملتانیوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ دکھی ہونے کی کوئی بات نہ مل پائے تو ملتان سے جدائی کو یاد کرکے آنکھوں کو ’’تازہ‘‘ کرلیتے ہیں۔
چھٹے رکن وہی فقیر راحموں ہیں ان کا تعارف بھی کیا لکھا جائے بس یوں سمجھ لیجئے کہ ہم پر جتنی مشکلیں آئیں ان کی وجہ سے آئیں اور کچھ اچھا کیا تو وہ ہم نے خالص اپنی محنت سے کیا۔
حضرت آجکل ڈن ہل والی سرکار کہلاتے ہیں دوچار چلیں سات عقیدت مند اور حجتی دوست ملاقات پر انہیں ڈن ہل کا تحفہ دے دیتے ہیں یہ سلسلہ ڈن ہل والی سرکار بننے سے قبل کا ہی تھا پھر باقاعدہ آستانہ عالیہ جلالیہ، حسینیہؑ حیدریہؑ فقیر راحموں بخاری ملتانی ڈن ہل والی سرکار کا اعلان کربیٹھے اب دو پنجابی خلیفوں کو بھگت رہے ہیں جو ہر تین چار دن بعد لڑرہے ہوتے ہیں کہ سرکار کی خانقاہ لاہور میں بنانی ہے یا ضلع شیخوپورہ میں۔ کئی بار کہا ہے یار پہلے اس ڈن ہل والی سرکار سے تو پوچھ لو وہ کیا مدفون ہونا پسند کرتے ہیں مگر کوئی سنتا ہی نہیں۔
امڑی کے شہر کی اس بار چھ روزہ یاترا کے دوران حسب معمول پروفیسر تنویر خان اور برادرم زبیر فاروق سے خوب نشست جمی۔ اس بار پروفیسر صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر علی رضا بھی شریک محفل تھے۔ نوجوان ڈاکٹر کا حوصلہ ہے کہ اس نے لگ بھگ چار گھنٹے آباد رہنے والی محفل کے شرکا کی ہلکی پھلکی اور بھاری بھرکم باتیں تحمل سے سنیں۔ ان جیسے اچھے کم گو سامع ہونے چاہئیں تاکہ علم و مطالعہ کے جھنڈے گاڑے جاسکیں۔
بدقسمتی کہہ لیجئے کہ اس بار برادرم شاکر حسین شاکر کے آستانہ عالیہ کتاب نگر پر حاضری نہیں ہوسکی وجہ وہی علالت ہے۔ اسٹک پکڑ کر چلنے میں اب پہلے کی نسبت تکلیف کچھ زیادہ ہونے لگی ہے دوستوں کی مہربانی ہے کہ وہ مسافر کی قیام گاہ پر تشریف لاکر رونق لگاتے رہے۔
ایک شام برادرم حارث اظہر اور میر احمد کامران مگسی کے ساتھ بھی خوب محفل جمی یہیں ہوٹل کے کمرے میں۔
کیا دن قسمت میں لکھے گئے ہیں کہ پنچھی کی طرح ملتان کی سیر و زیارت سے سکون پانے والے مسافر کو بس رہائشی کمرے تک ہی محدود رہنا پڑتا ہے۔ کبھی کوئی دوست ساتھ لے جاتا ہے تو ملتان کو آنکھوں میں بند کرکے رکھنے کو جی چاہتا ہے۔
ملتان ملتان ہے صاحب۔ میرے لئے ہی کیا سبھی گزرے زندہ اور آنے والے ملتانیوں کے لئے یہ جنت نشان شہر ہے۔ ملتان سے ملنا گویا تاریخ سے ملنا ہے پورے چھ سات ہزار سال کی تاریخ سے دائم آباد ملتان کی مٹی میں میرے والدین (خدا انہیں غریق رحمت فرمائے) ابدی نیند سورہے ہیں۔
اس شہر سے محبت کے ڈھیروں حوالے ہیں۔ مجھ مسافر کی امڑی کا شہر ہے۔ ہمارا جنم شہر۔ میری ماں جائیاں اس شہر میں آباد ہیں اس بار ان کی قدم بوسی سے محروم رہا وجہ وہی ہے اپنی علالت۔ امڑی کی تربت پر حاضری تو واجبات میں شامل ہے۔ حاضری دی، تربت کو بوسہ دیا، قدموں کی طرف بیٹھ کر حال دیا بیان کیا۔ امڑی کہہ رہی تھیں، بس خوش رہا کر دن ایک جیسے نہیں رہتے۔ میرا چاہتا تھا امڑی سے عرض کروں امڑی پیاری امڑی سارے دن خدا کے ہیں ان میں سے کچھ دن ہمارے کیوں نہیں۔ کہہ نہیں سکا ڈانٹ پڑجانی تھی۔ لیجئے ہم رخصت ہوتے ہیں امڑی کے شہر سے، صحت و زندگی نے ساتھ دیا تو پھر امڑی کی تربت اور شہر کی مٹی کو بوسہ دینے بہنوں کی قدم بوسی کرنے اور دوستوں سے ملنے آئیں گے نہ آسکے تو یہ ہمارا سلامِ آخر ہی سمجھ لیجئے گا۔
ملتان آباد رہے تا قیامت اور ملتانیوں کے گھروں کی رونقوں کو خداوند کریم دشمنوں اور حاسدوں سے محفوظ فرمائے، آمین۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر