رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا نہ کرے کہ ہمارے ہاں بھی ‘مہمان‘ کسی اجلی صبح یا سرمئی شام کے وقت پہلے سے کچھ بتائے بغیر اقتدار کی سرائے میں اتریں‘ مگر ہم کئی ایسی سلطنتوں میں سے ایک ہیں، جہاں کبھی کبھی مہمانوں کا آنا ہو جاتا ہے۔ جب بھی آئے‘ سب نے راستہ دیا یا گرد دور سے اڑتی دکھائی دی تو راستے روکنے والے گھروں کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہ خواتین و حضرات جو اقتدار کی سرائے میں اکثر ملتے، حقے پانی کی محفلیں جمتیں، ایک دوسرے سے قصے کہانیاں سنتے اور سناتے اور یونہی اچھا وقت گزارتے تھے، اگلے دن مہمانوں کے گلے میں ہار پہنانے کے لیے بھی زحمت کرتے۔ ان کے خلوص اور خدمت کے جذبے کو دیکھتے ہوئے انہیں پرانے ٹھکانے پر اہم قومی ذمہ داریاں تفویض ہو جاتیں۔ وہ بھی خوش اور آنے والے بھی خوش۔ ایسے چار دور چلے۔ مہمان تو بعد ازاں چلے جاتے رہے مگر مخلص کارکنوں نے نہ انہیں فراموش کیا اور نہ وہ انہیں بھول پائے۔ ہر نئی آمد کے ساتھ سیاسیوں کے ایک بہت بڑے حلقے کے ساتھ بندھن مضبوط ہوتے گئے۔
یہ محب وطن اور مخلص سیاسی کارکن بہت سیانے ہوتے ہیں، بلکہ یوں کہیے‘ یہ اتنے سیانے ہوتے ہیں کہ سقراط، بقراط، افلاطون ان کے سامنے دانائی میں طفل مکتب معلوم ہوتے ہیں۔ جو سیاست، فلسفہ اور معاشرت کے بارے میں انہوں نے پڑھایا تھا، اس کے بالکل الٹ ایسے نظریات پروان چڑھے کہ اگر وہ دوبارہ زندہ ہو جائیں اور اردو پڑھنا بھی سیکھ لیں تو بجائے مرثیے کے اش اش کر اٹھیں کہ ماشاء اللہ پاکستان نے کیسے تر سیاسی دماغ پیدا کیے کہ کل اِدھر، پرسوں اُدھر اور جب موقع ملے تو قوم کی خوب خدمت گزاری کریں۔ معاف کرنا‘ یہ میں کیا بات کہہ گیا۔ یہ طبقہ ایسا خوشحال ہوا ہے کہ اقتدار کی سرائے میں کوئی جمہوری نوعیت کا بھولا بھٹکا آ بھی جائے تو سب کوشش میں لگ جاتے ہیں کہ اس کو کیسے نکال باہر کیا جائے، تاکہ وہ آئیں جن کے انتظار میں انہوں نے نہ جانے کتنے دن گنے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں‘ مل جل کر چلیں تو معاملات ٹھیک رہتے ہیں، بالکل ٹھیک کہتے ہیں‘ مگر کس کے ساتھ مل جل کر؟ ان کے سامنے اس طرح کا فضول سوال کبھی نہیں اٹھانا چاہیے۔ مقصد تو قوم کی خدمت گزاری ہے، وہ جب بھی ممکن ہو سکے، اس میں تاخیر یا کوتاہی نہیں کی جا سکتی۔ یہ ہر حالت میں جاری رہنی چاہیے۔
بعض اوقات دل کی دھڑکن خواہ مخواہ تیز ہو جاتی ہے۔ سوچتا ہوں، یہ ‘جائے وائے‘ اس کا سبب ہے یا ملکی حالات کے پیش نظر سر اٹھاتے اندیشے، ابھی تک اس بارے میں کچھ طے نہیں کر سکا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد، کئی ممالک میں گھڑ سوار اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے تھے۔ ملکی حالات‘ سیاسی ماحول، سیاسی تحریکیں اور حکمران طبقات کے جوڑ توڑ کچھ ایسے مراحل سے گزرے کہ دنیا بھر میں جمہوریت پسند لوگ امید کی برستی کرنوں سے مسحور ہو گئے۔ ہر طرف کہا جانے لگا کہ اب لبرل ازم، جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کا سنہری دور شروع ہو چکا ہے۔ وقت اور تاریخ کا اٹل اور آخری فیصلہ آ چکا کہ مغربی سرمایہ داری نظام اور جمہوریت اب سب قوموں کی تقدیر بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی، باریاں لینے والی جمہوریت اپنے زوروں میں تھی کہ ایک شہ سوار‘ جو بیرونی دورے پہ تھا، نے زمین پر اترنے سے پہلے ہی فضا میں اڑن کھٹولے کی آرام دہ سیٹ پہ بیٹھے بیٹھے ہی دو تہائی اکثریت رکھنے والی جماعت کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ کوئی مزاحمت ہوئی‘ کوئی آگے بڑھا اور کچھ جرأت دکھائی تو وہ صرف ایک خاتون تھی، بیگم کلثوم نواز شریف۔ یہاں تعداد کی بات نہیں، جذبے اور وفاداری کی روایت قائم ہوئی۔
شریف خاندان پہ افتاد پڑی تو ان کے ‘جاں نثاروں‘ کی اکثریت اگلے روز ہار لے کر اقتدار کی سرائے پہنچ گئی تھی۔ سنا ہے کچھ مال دار لوگوں نے اسلام آباد اور لاہور کی سڑکوں پہ لوگوں میں اس حکومت کے خاتمے پر مٹھائیاں بھی تقسیم کی تھیں۔ تھوڑا سا مزید ماضی میں جائیں تو اس سے قبل اور میاں صاحب سے کہیں زیادہ طاقت ور، ذوالفقار علی بھٹو سے سرائے خالی کرائی گئی اور کسی جانب سے بھی وہ مزاحمت نہ ہو سکی، جس سے اقتدار کے حقیقی وارث اپنی جگہوں کو دوبارہ سنبھال لیتے ہیں۔ خیر ان کی کہانی تو بہت المناک ہے۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔
دنیا کے مختلف حصوں میں گزشتہ چند سالوں میں کئی جگہ گھڑ سوار اقتدار کی سراؤں پہ قابض ہو چکے ہیں۔ پہل غالباً تھائی لینڈ سے ہوئی جہاں جمہوری سیاست بظاہر بہت مضبوط معلوم ہوتی تھی۔ کئی بار انتخابات ہو چکے تھے، مگر ہماری طرح سیاسی ٹولے ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے تھے۔ انہیں ایک دوسرے پر یقین ہی نہیں تھا۔ وہاں لیگ پُلنگ کا سلسلہ متواتر جاری رہتا۔ بول چال نہیں، باہمی رقابت اور مسابقت جب نفرتوں میں بدل جائے، تو جمہوری سیاست کا سمجھیں کسی وقت بھی جنازہ اٹھ سکتا ہے۔ تھائی لینڈ میں ایسا ہی ہوا، ایک عرصے سے کبھی کبھار، سرخ اور نیلی بنیانوں میں ملبوس لوگ سڑکوں میں نعرہ بازی کرتے ہیں، مگر اقتدار ان کے پاس ہے جو سوار ہو کر آئے تھے۔ پرانا ملک برما جسے اب میانمار کہتے ہیں، ہمیشہ جرنیلی گرفت میں رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کئی دہائیوں کی مزاحمت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو اگلے ہی الیکشن کے بعد وہاں بی بی کو رخصت کر کے اپنے گھوڑے سرائے میں باندھ لیے۔
تاریخی دھاندلی تو ہم سے ملتے جلتے مصر میں ہوئی کہ بہار عرب خون اور آزادی کی خوشبو میں نہاتی اخوانوں کو سرائے میں لے آئی، مگر منتخب صدر محمد مرسی صرف ایک سال، ایک ماہ اور تین دن اقتدار میں رہ سکے اور پھر انہیں رخصت کر دیا گیا۔ ہر طرف شور اٹھا کہ وہ ”آمریت‘‘ کی بنیادیں رکھ رہے تھے۔ صد افسوس کہ وہ کال کوٹھری میں ہی جان کی بازی ہار گئے۔ بہت سے راز اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ جب تختہ الٹا، تو دنیا کے بڑے گھر سے شہ سوار کو مبارک باد، تحفے بھیجے گئے اور مصر کی امداد میں اضافہ کر دیا گیا۔ خطے کے بادشاہ سب سے زیادہ خوش تھے، کہ عرب کی بہاروں پہ کون ہیں یہ عامیانے جو اپنا حق جتاتے ہیں۔ تیونس‘ جہاں ایک نوجوان محمد بو عزیزی نے ریاستی جبر سے تنگ آ کر خود سوزی کی اور اس کی آگ کے دھویں سے عرب کے سب نوجوان جاگ اٹھے۔ وہاں جمہوریت کے پودے کو اکھاڑ کر ساتھ والے سمندر میں پھینک دیا گیا۔ سوڈان بھی طالع آزمائوں کی تحویل میں چلا گیا۔ وہاں سڑک پر مظاہرے کرنے والوں کو گولیوں سے بھونا جا رہا ہے۔ آخر ی خبر تک چالیس لوگ مارے جا چکے ہیں۔ مصر اور خطے کی بادشاہتیں خوش ہیں کہ اب ان کا پلڑا اور بھاری ہو چکا ہے۔
ہمیں فکر کی کوئی بات نہیں، سب ٹھیک چل رہا ہے، ایک ہی صفحے پہ رہنے میں کوئی دقت محسوس کرتا ہے، تو بات چیت کے راستے کھلے رہتے ہیں۔ ایسا ہی ہوتا ہے ایسے کاموں میں۔ ملک بڑا ہے، مسائل پیچیدہ ہیں اور وہ ممالک جن سے ہمیں کام رہتا ہے، وہ لولی لنگڑی جمہوریت سے نا خوش نہیں، بہرحال سموگ کے اس زمانے میں ہمیں کچھ زیادہ سجھائی بھی نہیں دیتا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر