انور خان سیٹھاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائی لارڈ آپ آزاد ہیں ہر اس کام سے جو آپ کے ذمہ ہے آپ آزاد ہیں ظالم کی سرپرستی کرنے کیلئے آپ آزاد ہیں کرپٹ افراد کی نگرانی کیلئے آپ آزاد ہیں جاگیرداروں کو قانونی چھت فراہم کرنے کیلئے آپ آزاد ہیں غریبوں مظلوموں ہو انصاف نہ دینے کیلئے آپ آزاد ہیں سپریم کورٹ میں پڑے ہزاروں اور ماتحت عدالتوں میں پڑے لاکھوں کیسز کیلئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے والے سائلین کو انصاف دینے کیلئے آپ آزاد ہیں غیر آئینی غیر قانونی اور غیر اخلاقی ریمارکس دیتے کیلئے آپ آزاد ہیں اپنے جوڈیشل سسٹم سے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد نہیں۔
ہم اسلامی فلاحی ریاست کے دعوے دار تو ہیں اپنے مقاصد کیلئے اسلام کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن ہمارا حقیقت میں اسلام پر عمل ایک فیصد بھی نہیں حضور آقائے دو عالم نور مجسم شفیع امم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) بھی چوری کریں تو انکے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے یہ فرمان انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے فرمایا گیا تاکہ امیر غریب کی تمیز نہ ہو چھوٹے بڑے کی تمیز نہ ہو ظالم جابر کی تفریق نہ ہو انصاف سب کیلئے برابر ہوگا تو عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہونگے،
مائی لارڈ آپ نے تو تمیز تو رکھی لیکن ظالم کی سرپرستی کی مظلوم کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا آپ نے تمیز تو کی لیکن قومی خزانے لوٹنے والوں کو NRO دیئے آپ نے تمیز تو کی لیکن قبضہ مافیا کو قانونی ٹوپی پہنائی جو کہ اسلام آئین پاکستان اور اخلاقیات کے عین مخالف ہے اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے۔
آپ نے فرمان مصطفیٰ پر بجائے عمل کرکے چوروں کے ہاتھ کاٹنے کے قانون کے مطابق فیصلے دینے کے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے آپ نے پشاور بی ار ٹی میگا کرپشن اسکینڈل کی تحقیقات روک رکھی ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے آپ فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔
اخی رسول زوجِ بتول افضل الامہ امیر المومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان ہے کہ کوئی بھی معاشرہ ظلم پر تو قائم کیا جا سکتا ہے ہے لیکن انصاف کے بغیر کسی صورت قائم نہیں کیا جاسکتا اور اس وقت پاکستان پر ناانصافی کے ڈیرے ہیں جو پاکستان کو دن بدن تباہی کی طرف دھکیلے جارہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے۔
کسی بھی ترقی یافتہ ملک یا ریاست کے ترقی یافتہ ہونے بارے تحقیق کریں یا انکی ہسٹری دیکھیں تو انکی ترقی و خوشحالی اور استحکام کی وجہ آپ کو صرف اور صرف ایک ہی چیز نظر آئے گی اور وہ ہوگا آئین و قانون کے مطابق ہوتا ہوا انصاف۔
کسی بھی ملک یا ریاست کو مضبوط خوشحال بااخلاق اور دنیا کے برابر لاکھڑا کرنے کیلئے صرف ایک ہی سسٹم لانا پڑتا ہے اور وہ ہے انصاف کیونکہ انصاف ظالم کو ظلم سے روکتا ہے جابر کو جبر سے روکتا ہے کرپٹ کو کرپشن سے روکتا ہے جھوٹے کو جھوٹ سے روکتا ہے المختصر تمام وہ کینسر جو ملک و قوم کی ترقی میں روکاوٹ ہوتے ہیں انصاف ان سب ناسوروں کو ختم کر دیتا اور پھر ملک کی ترقی کیلئے پالیسیوں کی ضرورت ہے نہیں رہتی قومیں خود بخود ترقی یافتہ ہو جاتی ہیں اور دنیا کی مضبوط طاقت بھی بنتی ہیں۔
آپ یورپ کی مثالیں سنتے اور دیتے نہیں نہیں تھکتے ہر پاکستانی شخص کی آخری خواہش ہے کہ وہ یورپ کے کسی بھی ملک چلا جائے اور وہاں اپنی بقیہ زندگی سکون سے گزارے مثال کے طور پر اگر یورپی ممالک پاکستانیوں سے یورپ شفٹ ہونے کیلئے آسان شرائط پر درخواستیں طلب کر لیں تو یقین کیجیے چند گھنٹوں میں پاکستان کے 95 فیصد لوگ پاکستان چھوڑنے کی درخواستیں دے ڈالیں گے اور پاکستان کو مکمل ریجکٹ کر دیں کیونکہ اسکی مین وجہ ہے پاکستان میں انصاف کی عدم دستیابی۔
پاکستان میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں پاکستانی جوڈیشل سسٹم سے انصاف حاصل کرنے کیلئے آپ کو خزانہ قارون عمرِ نوح اور صبرِ ایوب چاہیے انصاف کے حصول کیلئے دھکے کھاتے لوگ مر گئے لیکن انصاف نہیں ملا کئی نسلیں پیشیاں بھگت بھگت کر دنیا سے کوچ کر گئیں لیکن کیسز جوں کے توں ہیں اسکی اہم وجہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم ہے۔
پاکستان کا جوڈیشل سسٹم ہمیشہ متنازعہ اور طاقتور افراد کے زیرِ سایہ رہا اگر ڈکٹیٹروں کے ادوار اور سول حکومتوں کے ادوار دیکھیں تو عدلیہ کہیں بھی کبھی بھی آزاد و خودمختار نظر نہیں آتی ججز صاحبان کے فیصلوں سے لیکر ریمارکس تک سب کچھ سازش زدہ ہی نظر آتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ ججز کو فیصلے طاقت ور قوتیں لکھ کر دیتی ہیں اور ججز کورٹ میں آ کر صرف پڑھ کر سنا دیتے ہیں تو یہ بلکل غلط نہ ہوگا پاکستان کے جوڈیشل سسٹم میں بیٹھے ججز در حقیقت لکھے ہوئے فیصلے پڑھنے کی مشین بن کر رہ گئے ہیں۔
دنیا میں یہ بات مشہور ہے کہ ایک غلط فیصلہ نسلیں اجاڑ دیتا ہے وہ فیصلہ ایک گھر کا ہو تو گھر اجڑتا ہے خاندان کا ہو تو خاندان اجڑتا ہے قبیلے کا ہو تو قبیلہ اجڑتا ہے اگر ملک کا ہو تو ملک اجڑتا ہے اور وہی غلط فیصلہ پاکستان کی عدالت نے کیا جسکی وجہ سے آج پاکستان کا ستیاناس ہوا پڑا ہے اور وہ فیصلہ تھا بانی پاکستان پیپلزپارٹی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ اور اسی فیصلے سے لیکر آج دن تک پاکستان کا جوڈیشل سسٹم طاقت ور قوتوں کے ہتھے چڑھا اور آج دن تک انہیں کے ہی زیرِ سایہ ہے۔
گزشتہ روز عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ایک سیمنار کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جناب علی احمد کرد نے سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جناب شوکت صدیقی کے بیان کی یاد تازہ کر دی کہ ایک جنرل صبح ہمارے چیمبر میں آ جاتا ہے اور سارے فیصلے اپنی مرضی کے مطابق کرانے کے نہ صرف احکامات دیتا بلکہ فیصلے کرواتا بھی ہے پاکستان کا جوڈیشل سسٹم ایک جنرل کے ماتحت ہے پاکستان کی عدالت میں فیصلے آئین و قانون کے مطابق نہیں بلکہ جنرلز کی ذاتی پسند نہ پسند کی بنا پر دیئے جاتے ہیں۔
تو علی احمد کرد کے بیان کے بعد موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے ہمیں نہ تو کسی کا پریشر ہوتا ہے اور نہ ہی ہم کسی کے احکامات پر فیصلے دیتے ہیں ہمارے فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہوتے ہیں پاکستان کا جوڈیشل سسٹم مکمل آزاد ہے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا یہ بیان صرف مضحکہ خیز نہیں ہے بلکہ سال دو ہزار اکیس کا سب سے خوبصورت لطیفہ بھی ہے کہ کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے۔
چیف جسٹس کے اس اہم اور تہلکہ خیز انکشاف (عدلیہ آزاد ہے) کو "میسجز” "لاؤڈ اسپیکر میں اعلانات” چوک چوراہوں پر منادی ٹوئٹس پوسٹیں اور کالموں کے ذریعے اتنا پھیلایا جائے کہ ہر شخص کو پتہ چلنا چاہیے کہ عدلیہ واقعی آزاد ادارہ ہے اور فیصلے آزادانہ طور پر کرتی ہے کم از کم اس افرا تفری کے دور میں قوم کے چہروں پر ہلکی سی ہی سہی مسکراہٹ تو آ جائے گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے عدلیہ کو موقع دیا کہ پاکستان کے جوڈیشل سسٹم پر لگی ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کی کالنک عدلیہ کے چہرے سے صاف کرو سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس بھیجا جسے بھٹو ریفرنس کہتے ہیں ایک دہائی گزر گئی سپریم کورٹ کو بھٹو ریفرنس کا فیصلہ دینے کی جرآت نہیں ہوئی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے خون کی سرخی پنڈی کے چوک چوراہوں پر انصاف کی منتظر ہے پاکستان کے جوڈیشل سسٹم کو انصاف کرنے کی جرآت نہیں اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
آئین شکن غدار وطن غدار جمہوریت ڈکٹیٹر مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ دینے والی عدالت ہی غیر آئینی قرار دے دی گئی مشرف دبئی میں عیاشیاں کررہا ہے اور آپ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ دینے والے جج جسٹس وقار سیٹھ کو کرونا وائرس کی آڑ میں قتل کردیا اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
پاکستان کی تاریخ میں کسی جج کی جرآت نہیں ہوئی کہ کسی سازشی ادارے یا سازشی عناصر کے خلاف فیصلہ دے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بہادری کی پاکستان کی ہسٹری بدل دی اہل و عیال کی پرواہ نہیں کی اور فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا آپ نے موسٹ سینئر جج اور فیوچر چیف جسٹس آف پاکستان کو رجسٹرار کا غلام بنا دیا اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اداروں کا احترام کیا اداروں کو خود مختار بنانے کیلئے تمام اقدامات اٹھانے اسی اثناء میں عدلیہ کو آزاد کرنے کا بیڑہ پیپلزپارٹی نے اٹھایا تھا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف کتنی سازشیں کیں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف کتنے احکامات مانے پیپلزپارٹی کے وفاقی وزراء کو جیل بھیجا پیپلزپارٹی کے وزیراعظم کو غیر آئینی غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر نااہل کیا پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف ہر سازش کا حصہ رہا سازش کا مرکز سپریم کورٹ رہی پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
موجودہ وفاقی حکومت تاریخ کی نااہل ترین حکومت ہے مہنگائی بیروزگاری لاقانونیت بد امنی بد اخلاقی کرپشن مافیا راج اور عالمی تنہائی کا شکار ہیں عدالت پھر بھی نااہل حکومت کو مکمل سپورٹ کررہی ہے آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
بلوچستان پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی حکومتوں نے صوبوں کے ستیاناس کر دیئے آپ ٹس سے مس نہیں ہو رہے آپ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی آپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی عوامی حکومت سندھ حکومت جو کہ تعلیم صحت روزگار سمیت تمام محکموں میں خدمات میں سب سے آگے ہے لیکن آپ ہر گھنٹے بعد سندھ حکومت کے خلاف ریمارکس ہے انبار لگا رہے ہوتے ہیں سندھ حکومت کے کام میں روڑے اٹکائے ہوئے ہوتے ہیں سازش کا حصہ بن کر سندھ حکومت کو پریشان کئے ہوئے ہیں اور آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
پاکستان کی عدلیہ نے ہر دور میں دوہرے معیار رکھے آج بھی وہی صورتحال ہے دو قانون ہیں امیر کیلئے الگ قانون غریب کیلئے الگ قانون اسٹیبلشمنٹ کے دلالوں کیلئے الگ قانون اسٹیبلشمنٹ کے مخالفین کیلئے الگ قانون اور آپ پھر بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
اگر قانون ایک ہوتا اسکا معیار ایک ہوتا تو پہلے بلڈوزر بنی گالا کی 300 کنال پر چلتے آپ نے نیازی کے محلات کو قانونی ٹوپی پہنا دی اور غریبوں کی چھتوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں آپ نے حیات ون ٹاور پر لگے بین کو ہٹایا اسے کام جاری رکھنے کی اجازت دی جبکہ نسلہ ٹاور بارود سے اڑانے کیلئے آپ حکم پر حکم دیئے جارہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
اسلام آباد میں علیم خان کی پارک ویو سوسائٹی ملک ریاض کا بحریہ انکلیو سمیت چک شہزاد میں درجنوں جنرلز کے فارم ہاؤسز کو قانونی قرار دیا جو کہ سو فیصد غیر قانونی ہیں اور آپ گجر نالے کے مکینوں پر بلڈوزر چلانے کیلئے حکم پر حکم دیئے جارہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
آپ کے جوڈیشل سسٹم میں جسٹس مشتاق جسٹس منیر جسٹس قیوم جسٹس افتخار چوہدری جسٹس ثاقب نثار جسٹس انوار الحق جسٹس ارشاد خان جسٹس شریف جیسے غلیظ لوگوں کے اثرات اور باقیات موجود ہیں موجودہ ججز سینئیرز ججز کے مکمل نقشِ قدم پر چل رہے ہیں سازش زدہ آئین و قانون کے خلاف فیصلے دے رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
آصف علی زرداری فریال تالپور شرجیل انعام میمن ڈاکٹر عاصم آغا سراج درانی خورشید شاہ سمیت درجنوں پیپلزپارٹی کے قائدین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے سالوں جیلوں میں رکھا جبکہ 5000 ارب روپے سے زائد کرپشن کرنے والے PTI کے لوگ آزاد ہیں احتساب نام کی کوئی چیز نہیں اور آپ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم آزاد ہے؟
پاکستان کی عدلیہ کی آزادی محض لطیفہ ہو سکتا ہے خواب ہو سکتا ہے جھوٹ ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت کسی صورت نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک ججز منصب کو نوکری سمجھیں گے عدلیہ کبھی بھی آزاد نہیں ہوگی جب تک ججز ادارے کو سازش کا مرکز بنائے رکھیں گے جوڈیشل سسٹم کبھی آزاد نہیں ہوگا جب تک ججز احکامات پر فیصلے کریں گے نہ جوڈیشل سسٹم آزاد ہوگا اور نہ ہی آئین و قانون کے مطابق فیصلے ہونگے اور نہ ہی قوم کو انصاف ملے گا اور نہ ہی پاکستان ترقی کرے گا۔
جسٹس قیوم کی مشہور زمانہ آڈیو اس بات کی گواہی ہے کہ پاکستان کی عدلیہ طاقتور افراد کے حکم پر سزا جزا کا تعین کرتی ہے آئین و قانون کی رو سے نہیں اگر سیاستدانوں کو اس کا ذمہدار ٹہراتے ہیں تو یہ سو فیصد غلط ہے آپ کا جوڈیشل سسٹم ہے ججز بک رہے ہیں اور آپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ہم عدلیہ کو نہ کل آزاد مانتے تھے اور نہ ہی اب مانتے ہیں موجودہ ججز کو ہم پی سی او ججز ہی سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ سب ججز وہی لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں آپ جو مرضی بلند بانگ دعوے کریں لیکن یہ حقیقت ہے عدلیہ آزاد نہیں ہے جہاں ججز کو بتانا پڑے کہ ہم آزاد ہیں تو قوم کو سمجھ جانا چاہیے کہ یہ انکے ساتھ وہ مذاق ہے جو حقیقت میں انکی تباہی کی وجہ ہے۔
جنگ عظیم کے دوران چرچل کو جب بتایا گیا کہ جرمنی کی فوجیں فتوحات حاصل کرتی چلی آ رہی ہیں تو اس نے پوچھا کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں؟ جواب میں اسے بتایا گیا کہ ہاں ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں تو اس نے تاریخی جواب دیا کہ پھر ہمیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کی اس ترقی کے پیچھے کیا راز پوشیدہ ہے۔
مائی لارڈ آپ نے کتنے ایسے فیصلے کئے جن سے یہ تاثر جائے کہ پاکستان میں انصاف ہے کتنے اقدامات کئے جن سے غریبوں کو انصاف ملنے کی توقع ہو آزادی کے راگ آلاپ کر گفتار کے غازی نہ بنیں غریبوں مظلوموں کو انصاف کی فراہمی یقینی بنا کر کردار کے غازی بنیں۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
مسائل کا حل صرف پیپلزپارٹی ۔۔۔انور خان سیٹھاری
پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید
پاکستان کی تباہی میں عدلیہ کا کردار ۔۔۔انور خان سیٹھاری
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ