نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات کے بل کی منظوری!||سارہ شمشاد

اب جبکہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکی ہے تو اسے یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ ابھی تک ای وی ایم کاوطن عزیز میں کوئی تجربہ نہیں ہوا ہے اس حوالے سے حکومت الیکشن کمیشن سے مل کر کیا طے کرے گی۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات بل 2021ء الیکٹرانک ووٹنگ مشین، سمندر پارپاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور کل بھوشن یادیو سمیت مختلف بلز منظور کرلئے گئے ہیں۔ ایوان میں مختلف بلز پر رائے شماری ہوئی جس میں حکومت نے اپوزیشن کو 203 ووٹوں کے مقابلے میں 221ووٹ لے کر 180ووٹوں سے شکست دی جبکہ متحدہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں منظور کردہ قوانین کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کا اپنی عددی برتری ثابت کرنا خوش آئند ہے جس سے اس کے مورال میں ضرور اضافہ ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان جو خطرات سے کھیلنے کے بڑے شائق ہیں اور ہمیشہ پریشر میں اچھا کھیلتے ہیں، نے ایک مرتبہ پھر بغیر گھبرائے اپوزیشن کو چیلنج کیا اور چاروں شانے چِت کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ شہباز شریف ان بلز کی منظوری کو Manageکرنے سے مشروط کررہے ہیں تو یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کس نے کس کو Manage کیا لیکن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ایوان میں داخلے کے وقت بڑا معنی خیز بیان دیا کہ ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں بلکہ بڑے اہتمام سے لائے گئے ہیں۔ اس سے بھی اپوزیشن کے بلز کی منظوری کو Manage کرنے کے تاثر کو تقویت مل سکتی ہے۔ تاہم شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم شفاف انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں بلکہ ماضی کی کالک کو بھی دھونا چاہتے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ماضی کے شیطانی منصوبوں کو ختم کرنے کے لئے لائی گئی ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی آمد سے ایک طرح سے دھاندلی اور جعلی ووٹوں کی آوازیں تو ضرور دب جائیں گی لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک بڑا اہم سوال ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں بڑی آبادی ناخواندہ ہے جنہیں الیکٹرانک ووٹنگ کی بھی کچھ زیادہ سمجھ نہیں ہوگی تو پھر وہ اپنے پسندیدہ شخص کے سامنے کیسے کلک لگا پائیں گے کیونکہ پہلے تو وہ نشان کے سامنے ٹھپہ لگادیا کرتے تھے لیکن اب اگر ایک ووٹر سے غلطی سے 2مرتبہ بٹن دب گیا تو اس سے کیا ووٹ ضائع ہوجائے گا یا پھر 2ووٹ کائونٹ ہونگے اس بارے ضرور وضاحت کی جانی چاہیے یہی نہیں بلکہ کیا الیکشن سے قبل ووٹرز کو کوئی ووٹنگ ٹریننگ دی جائے گی یا نہیں اس بارے بھی بتایا جانا بے حد ضروری ہے۔
اب جبکہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکی ہے تو اسے یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ ابھی تک ای وی ایم کاوطن عزیز میں کوئی تجربہ نہیں ہوا ہے اس حوالے سے حکومت الیکشن کمیشن سے مل کر کیا طے کرے گی۔ کیا ای وی ایم بلدیاتی انتخابات میں استعمال کی جائے گی یا ضمنی الیکشن میں اس کو ٹیسٹ کیا جائے گا۔ ادھر یہ امر بھی قابل ذکرہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو مسترد کردیا تھا اس لئے اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا کیا ردعمل ہوگا وہ بھی بڑا ضروری اور اہم ہوگا۔ تاہم اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنے سے ان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ ان کا دیرینہ مطالبہ عمران خان نے پورا کردیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 70لاکھ کے لگ بھگ لوگ بیرون ملک سمجھتے ہیں عمران خان جو اوورسیز پاکستانیوں کو اپنا اثاثہ قرار دیتے تھے اب ان کو ووٹنگ کا حق دے کر ان کو وہ حقوق دے دیئے ہیں جن کا وہ عرصہ دراز سے مطالبہ کرتے تھے کیونکہ ماضی میں کسی بھی حکومت نے انہیں ووٹنگ کے عمل میں شامل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جس پر وہ ہمیشہ خفا خفا سے نظر آتے تھے کہ وہ بیرون ملک رہ کر ایک بڑی تعداد میں زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ حق رائے دہی سے محروم ہیں۔ اوورسیز پاکستانی چونکہ وطن عزیز کے مسائل سے زیادہ باخبر اور آگاہ ہیں اور کون اس ملک کا خیرخواہ اور کون دشمن ہے، کا ادراک رکھتے ہیں اور اب وہ ووٹنگ کے عمل کا حصہ بننے پر انتہائی خوش ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ ان کی شمولیت سے روایتی سیاست دانوں اور پارٹیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جو پاکستان کے بھولے بھالے عوام کو سہانے سپنے دکھاکر بہلا پھسلالیتے ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے مطابق ووٹ ویگنیں بھر بھر کر ڈ لواتے ہیں جبکہ دوسری طرف 20سے 30ہزار ہر حلقے میں جعلی ووٹوں کا معاملہ بھی کچھ زیادہ پرانی بات نہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال سے جعلی اور بوگس ووٹوں سے نجات مل جائے گی اور یوں اب کسی کو دھاندلی زدہ الیکشن کا الزام لگانے کی نوبت نہیں آئے گی۔
تاہم دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے انتخابی اصلاحات بل 2021ء کو مسترد کرنے کے بعد ہی اسے متنازعہ بنادیا گیا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ آئندہ الیکشن ابھی سے متنازعہ ہوگیا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ کچھ اسی قسم کی بات بلاول بھٹو نے ابھی سے کردی ہے کہ اگر بل منظور کروالیا گیا تو وہ اگلے الیکشن کے نتائج کو ابھی سے تسلیم نہیں کریں گے یعنی اگر حکومت نے اپوزیشن کو یارکر مارا ہے تو وہ بھی حکومت کو بائونسر مارنے کے موڈ میں ہے۔ ای وی ایم کے حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن سپریم کورٹ میں بل چیلنج کرتی ہے تو وہاں پر اس کی تشریح ہوسکتی ہے کیونکہ آئین و قانون بنانا پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے اس لئے اپوزیشن انتخابی اصلاحات بل کی منظوری کو چیلنج کرنے کی بات صرف اپنی Face Saving کے لئے کررہی ہے۔اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اس بل میں کوئی شق آئین سے متصادم ہے تو اسے پورا حق ہے کہ وہ اپنا کیس دبنگ انداز میں لڑے۔ اگر بات کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے کی کی جائے تو پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت اس عالمی دہشت گرد کو اس کی والدہ اور بیوی سے ملاقات کی اجازت دی۔ اسی طرح عالمی عدالت میں بھی بھارت کو منہ کی کھانی پڑی اور اب جب کلبھوشن یادیو کے حوالے سے اپیل کے حق کی درخواست باقاعدہ طور پر کی گئی ہے تو ایسے میں پارلیمنٹ سے زیادہ متعلقہ کون کرسکتا ہے اس لئے معاملات کو مزید تلخ تر بنانے کی بجائے پاکستان کو دنیا کے سامنے اپنے امیج کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ کلبھوشن نے جو کچھ کیا اس کی سزا اسے ضرور ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرات نہ ہوسکے اور اب اگر وہ اپیل کررہا ہے تو کس اصول کے تحت وہ ایسا کررہا ہے اور کیا پاکستان کو نقصان پہنچانے اور دہشت گردی کی لاتعداد وارداتیں کروانے اور ایک گینگ کو عرصہ دراز تک آپریٹ کرنے بارے کلبھوشن اور بھارت کیا کہنا چاہے گا اس لئے کلبھوشن کی اپیل کے حوالے سے فیصلہ پارلیمنٹ کے سوا کہیں اور نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اب جبکہ حکومت ایک مرتبہ پھر بیک فٹ کی بجائے فرنٹ فٹ پر آگئی ہے تو توقع کی جانی چاہیے کہ وہ بلاول کے اس مشورے پر بھی ضرور توجہ دے گی کہ مہنگائی، غربت، بیروزگاری کے خاتمے کے لئے مل کر کام کیا جائے۔ وطن عزیزی کو کس طرح آئی ایم ایف کی دلدل سے نکالنا ہے اس کے لئے بھی پارلیمنٹ سے ہی رجوع کیا جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ چونکہ جمہوریت کی ماں ہے اس لئے پارلیمنٹ کو مضبوط تر کرنا تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف نے آئندہ ڈیل کے لئے بجلی مہنگی کرنے سمیت 5شرائط عائد کردی ہیں جبکہ دوسری طرف حکومت کی جانب سے پٹرول پر زیرو ٹیکس وصول کرنا بھی خوش آئند ہے اور اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسے عوام کی مشکلات کا احساس ہے لیکن دوسری طرف جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں اضافے سے سی این جی کی کنزیومر پرائس میں ساڑھے 10روپے فی کلو اضافہ ہوگیا ہے جبکہ بجلی صارفین کو بلوں میں شامل ٹیکسوں، ڈیوٹیز اور سرچارج نے مالی طور پر ہلکا کرکے رکھ دیا ہے اور بجلی بلوں میں مختلف ٹیکسوں، ڈیوٹیز اور سرچارج کی شرح 30 فیصد سے بڑھ گئی ہے مگر اس کو کیا کہئے کہ غریب ملک کے امیر جو ملک کو کنگال کرنے میں اپنا پورا حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں، ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو)، بورڈ ڈائریکٹرز نے قومی خزانے اور کمپنی وسائل پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے بی او ڈی کے ہر اجلاس میں شرکت کے لئے ہر ڈائریکٹر کے اعزازیے میں خود ہی 100فیصد اضافہ کردیا ہے اور ایک اجلاس میں شرکت کا اعزازیہ 30سے 60ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ یوں ایک اجلاس خزانے کو لاکھوں میں پڑے گا۔ خزانے کو کٹ لگانے کی بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اپنے پیسے کھرے کرنے کے لئے ایک ہی دن میں کئی کئی میٹنگز بھی معمول بن گئی ہیں۔ ان سخت حالات میں جب حکومت نے پارلیمنٹ سے ای وی ایم سمیت دیگر بلز منظور کروالئے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ اب سنجیدگی کے ساتھ عوام سے جڑے مسائل کے خاتمے کے لئے توجہ کرے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے گردشی قرض ختم کرنے کےل ئے تیل گیس کمپنیوں سے سالانہ منافع کا حساب طلب کرلیا ہے جسے دیر آید درست آید ہی کہا جاسکتا ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین یا انتخابی اصلاحات عمران خان کا نہیں قومی ایجنڈا تھا۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کو بھی حکومت قومی ایجنڈا بنائے کیونکہ حکومت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ جب وہ کسی کام کو کرنے کی ٹھان لے تو وہ کرکے ہی دم لیتی ہے اس لئے اب عوام کو مزید دلاسے اور باتیں کرکے مطمئن کرنے کی حکمت عملی کو حکومت کو خیرباد کہہ دینا چاہیے اور ای وی ایم کی خوشی میں عوام کو قطعاً نہیں بھولنا چاہیے تبھی جاکر آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کسی مثبت نتائج کی امید کرسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author