نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خانیوال میں ضمنی الیکشن ,کون کتنے پانی میں||عامر حسینی

پی ٹی آئی میں شامل نشاط گروپ مخالف دھڑوں میں عمران دھول گروپ اور کھگہ گروپ کے ووٹ کا بڑا حصہ پی پی پی کے امیدوار کو جاسکتا تھا اور اس میں وہ ووٹ بھی شامل ہے جو نوے کی دہائی میں روایتی طور پہ پی پی پی کو ملتا رہا ہے –

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب کا صوبائی کا حلقہ پی پی 206 خانیوال میں جو علاقے شامل ہیں، اُن میں دایاں بازو کا ووٹ 30 سے 35 ہزار ہے – یہ ووٹ 70ء میں سب سے زیادہ جمعیت علمائے پاکستان کے حصے میں آیا، 77ء میں پی این اے کے امیدوار (جو جے یو پی کے ہی امیدوار تھے) کو پڑا – 1985ء کے غیر جماعتی انتخاب میں ایم آر ڈی، جے یو پی، جمعیت اھل حدیث کے بائیکاٹ کے سبب اور جماعت اسلامی و دیگر مذھبی جماعتوں کے امیدواروں کی غیر موجودگی میں اس کا تعین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ووٹ سب سے زیادہ کسے پڑا، 1988ء میں اس ووٹ کا بڑا شیئر اسلامی جمہوری اتحاد اور مولانا نورانی و فضل الرحمان کے اتحاد کے امیدوار کو گیا – 1990ء اور 1993ء میں اس کا بڑا حصہ اسلامی جمہوری اتحاد و نواز لیگ کو گیا- 1997ء میں اس کا ایک بڑا شیئر نواز لیگ اور دوسرا شئیر اسلامک فرنٹ نے لیا- 2002ء کے الیکشن میں نواَز لیگ، ایم ایم اے، متحدہ دینی محاذ اور بعد ازاں ق لیگ میں شامل ہونے والے آزاد امیدوار ظہور خان ڈاہا نے لیا-

2008ء میں دایاں بازو کا ووٹ پھر تقسیم ہوا لیکن زیادہ ووٹ نواز لیگ کی حمایت کے سبب پہلی بار پی پی پی کے امیدوار نشاط ڈاہا کو ملا – 2013ء میں بھی دائیں بازو کا ووٹ نواز لیگ کو ملا – لیکن 2018ء میں دائیں بازو کے ووٹ کا ایک بڑا شیئر تحریک لبیک لے گئی اور اس نے نواز لیگ کی جیت کا مارجن دو ہزار کردیا – اور پی ٹی آئی کے دائیں بازو کے 3 سے چار ہزار ووٹوں کو تحریک لبیک کی جھولی میں ڈال دیا –

اس ضمنی الیکشن میں تحریک لبیک پاکستان نے شیخ محمد اکمل کو ٹکٹ دیا ہے – شیخ محمداکمل 2002ء میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں 12 ہزار ووٹ لے گئے تھے اور اب وہ دوسری بار میدان میں ہیں – یہ بات تو طے ہے کہ بریلوی مذھبی ووٹ کی اکثریت تو شیخ اکمل کے حصے میں ہی جائے گی اور اُن کی اپنی برادری جس پہ دائیں بازو کی چھاپ زیادہ ہے اور اکثر تاجر برادری ہے وہ جو نواز لیگ کو ووٹ دیتی تھی اُس کا اکثر ووٹ بھی شیخ اکمل کو جائے گا – ایک عمومی تجزیہ یہ ہے کہ شیخ اکمل مسلم لیگ نواز کا کم از کم دس ہزار ووٹ توڑے گا – اور چار سے پانچ ہزار ووٹ پی ٹی آئی کا توڑ سکتا ہے –

پی ٹی آئی کا ٹکٹ اگر نورین نشاط ڈاہا کو ملتا ہے تو نشاط ڈاہا کا جو شہر میں بلدیاتی گروپ ہے اُس کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ نواز سے رہا ہے یہ ووٹ بھی نواز لیگ کے ووٹ سے کم ہوگا – ایک اندازے کے مطابق کم از کم گزشتہ انتخاب میں مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پہ جو ووٹ لیا تھا اُس میں کم از کم 10 سے 12 ہزار ووٹوں سے نواَز لیگ محروم ہوجائے گی –

پی ٹی آئی میں شامل نشاط گروپ مخالف دھڑوں میں عمران دھول گروپ اور کھگہ گروپ کے ووٹ کا بڑا حصہ پی پی پی کے امیدوار کو جاسکتا تھا اور اس میں وہ ووٹ بھی شامل ہے جو نوے کی دہائی میں روایتی طور پہ پی پی پی کو ملتا رہا ہے –

مسلم لیگ نواز میں شامل ہونے والے رانا محمد سلیم نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم پہ جو ووٹ لیے تھے اُن میں رانا سلیم کا اپنا ذاتی ووٹ مشکل سے تین سے چار ہزار تھا- اس میں اب زیادہ سے سے زیادہ اُن کا ذاتی ووٹ پانچ ہزار ہوسکتا ہے – مسلم لیگ نواز کو یہ نشست جیتنے کے لیے کم از کم 25 ہزار سے زائد کا ہدف حاصل کرنا ہوگا – کیا وہ یہ ہدف بنا بلدیاتی مشینری کی حمایت اور تحریک لبیک کے طاقتور امیدوار کی موجودگی اور خود سے الگ ہونے والے نشاط ڈاہا گروپ کے بغیر حاصل کرپائے گی؟

اگر پی پی پی پی ٹی آئی کے نشاط مخالف دھڑوں کے ووٹ کا بڑا حصہ لینے میں کامیاب ہوئی اور یہ دس ہزار کے ہدف سے آگے چلی گئی تو اس نشست پہ بہت ہی کم مارجن سے ہار جیت پھر پی ٹی آئی، تحریک لبیک، نواز لیگ اور پی پی پی کے امیدوار کے درمیان ہوگی – اس ضمنی الیکشن میں سب سے زیادہ خسارے کا خطرہ مسلم لیگ نواز کو ہے –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author