نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بیروزگاری کی شرح میں خطرناک اضافہ!||سارہ شمشاد

آج اپنی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات ان کی بہتری کے لئے نہ اٹھائے جانے پر ماتم کناں ہیں کہ ان کے دکھوں کو سمجھنے کے لئے کوئی موجود نہیں اور انہیں لاوارث اور بے یارومددگار چھوڑدیا گیا ہے کہ جیسے عوام سے کسی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں رواں مالی سال میں تعلیم یافتہ ہنر مند بیروزگاروں کی تعداد 66لاکھ سے متجاوز کرگئی ہے۔ 3برسوں کے دوران حکومت نے سرکاری ملازمتوں سے پابندی نہیں اٹھائی۔ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 11.56 فیصد تک اضافہ ، برسرروزگار افراد کی تعداد 2020-21ء میں 6کروڑ 20لاکھ جبکہ 2019-20ء میں یہ تعداد 6کروڑ 21لاکھ تھی۔وطن عزیز میں تعلیم یافتہ ہنر مند بیروزگاروں کی رواں مالی سال میں تعداد 66لاکھ سے متجاوز ہونا حکومت کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی کی شرح میں 70سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے تو ایسے میں حکومت کا سب اچھا کا راگ الاپنے کا پول ان اعدادوشمار سے خود ہی کھل جاتا ہے۔ اندازہ کیجئے گا کہ 6لاکھ بیروزگار افراد کس طرح اپنی گزر بسر کررہے ہوں گے وہ بھی اس کھڑکی توڑ مہنگائی میں، کورونا کے دنوں میں 2کروڑ افراد کے بیروزگار ہونے کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ یہ اعدادوشمار سرکاری طور پر ہی جاری کئے گئے ہیں جس کے بعد کسی کے لئے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ عوام کے لئے زندگی کس قدر تلخ ہوگئی ہوگی۔
تحریک انصاف کو سب سے زیادہ ووٹ نوجوانوں نے دیئے تھے کہ ان کو مغالطہ تھا کہ ان کے مسائل کو کم کرنے کے لئے ہرممکن کوشش کریں گے لیکن انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ نوجوانوں کے دکھوں اور مسائل کو کم کرنا تو درکنار، حکومت نے ان میں کئی گنا اضافہ ہی کردیا اور آج جب نوجوان اپنی زندگی مشکل ترین حالات میں دیکھ رہے ہیں تو ایسے میں وزیراعظم عمران خان جو ہر وقت میرے نوجوانوں، میرے نوجوانوں، کرتے نہیں تھکتے، مجال ہے کہ کبھی ان نوجوانوں کے لئے صحیح معنوں میں کچھ کرنے کی بھی زحمت کریں ؟ یوں تو نوجوان پر ہر حکومت میں ہی ملازمتوں کے دروازے بند رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت کو بہرحال نوجوانوں کے لئے ضرور کچھ کرنا چاہیے۔ یوتھ لون سکیم ہو یا اپنا گھر سکیم، ان میں بھی نوجوانوں کو کچھ خاص نہیں مل رہا بلکہ اپنا گھر سکیم سے تو بیروزگار نوجوان مستفید ہو ہی نہیں سکتے جبکہ یوتھ لون سکیم میں نوجوانوں کے لئے کچھ زیادہ کشش اس لئے نہیں ہے کہ یہ پراسس اس قدر لمبا اور مشکل ہے کہ ایک عام نوجوانوں یہ سوچ کر ہی خیال ترک کردیتا ہے کہ وہ اپنے لئے روزگار کے مواقع ڈھونڈے یا پھر لون کے لئے فائل کا پیٹ بھرنے پر اپنی انرجی ختم کرے۔ اسی طرح عوام جو مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ایک مایوسی کی سی کیفیت میں مبتلا ہیں اور انہیں یہ تک سمجھ نہیں آرہا کہ وہ اس پُرآشوب دور میں کیسے زندہ رہ پائیں گے۔
ادھر یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نوجوان بیروزگاری کی بنا پر کئی ذہنی الجھنوں کا شکار ہے اور اسی مایوس کی کیفیت میں وہ کئی مرتبہ غیرقانونی کام بھی شروع کردیتا ہے۔ آج ملک میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ نوجوانوں کے پاس باعزت روزگار کی عدم دستیابی ہے۔ ایک صحت مند اور مضبوط اعصاب کا مالک نوجوان آخر کب تک پریشر کو برداشت کرے گا۔ آخرکار وہ اس تمام تر صورتحال سے فرار حاصل کرنے کے لئے تو نشے جیسی علت کا شکار ہوجاتا ہے یا پھر جرائم کی نگری کا راستہ اختیار کرلیتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پراکسی وار پوری دنیا میں پھیل چکی ہے تو ملک دشمن عناصر ان بیکار ذہنوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اسی لئے تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کسی کے پاس اس چلتے پھرتے ایٹم بم کو ڈی فیوز کرنے کے لئے سرے سے ہی کوئی ایجنڈا موجود نہیں ہے اور ہو بھی کیسے کہ عوام نامی مخلوق کی نہ تو پہلے کسی کو پروا تھی اور نہ اب ہے۔ نوجوان جو پوری تندہی کے ساتھ اس تبدیلی کے سفر میں شامل رہے آج اپنی حکومت کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات ان کی بہتری کے لئے نہ اٹھائے جانے پر ماتم کناں ہیں کہ ان کے دکھوں کو سمجھنے کے لئے کوئی موجود نہیں اور انہیں لاوارث اور بے یارومددگار چھوڑدیا گیا ہے کہ جیسے عوام سے کسی کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
وطن عزیز کے اس تلخ دور میں نوجوان جس کرب میں مبتلا ہیں اس کو لفظوں میں پرونا بہت مشکل ہے۔عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر ہماری حکومت نے تو اس ذمہ داری سے یہ کہہ کر جان چھڑوالی ہے کہ سب کو روزگار فراہم نہیں کرسکتے اس لئے عوام حکومت سے زیادہ اچھے کی امید نہ رکھے لیکن کوئی کیا یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ اگر حکومتیں عوام سے جڑے مسائل حل نہیں کرسکتیں تو کس سے اپنے مسائل کے حل کے لئے مدد طلب کریں۔ بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل کے پاس وہاں کے لوگوں میں جو لاوا پک رہاہے اس کی حدت پوری دنیا میں محسوس کی جارہی ہے۔اگر حکومتیں عوام کو روزگار نہیں فراہم کرسکتیں تو کم از کم انہیں آسان اقساط پر قرض دے کر کاروبار شروع کروائیں تاکہ وہ اپنی زندگیوں میں چھائے گہرے اندھیروں کو ختم کرسکیں۔ مگر جب بھی عوام کے مسائل حل کرنے کی بات آتی ہے تو فوراً ہی حکومتی خزانہ خالی ہوجاتا ہے۔نوجوان پاکستان کی کل آبادی کا60 فیصد سے بھی زائد ہیں لیکن نوجوانوں کو جس بری طرح سے نظرانداز کیا جارہا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہر سرکاری ادارے میں ہزاروں کی تعداد میں اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں لیکن مجال ہے کہ حکومت ان پر بھرتی کو ضروری سمجھے۔ اور یوں حکومت کی یہ نااہلی عوام کے دکھوں میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ آخر ایسا کیا امر مانع ہے کہ حکومت خالی اسامیوں پر بھرتی سے انکاری ہے حالانکہ ہر محکمے میں لوگوں کی ضرورت ہے یہی نہیں بلکہ سٹاف کی قلت کے باعث کام بہت مشکل سے ہوپارہے ہیں جبکہ دوسری طرف بھرتیوں کے وقت میرٹ کی پامالی اور اقربا پروری بھی بڑا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور یوں ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں قابل لوگ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں جبکہ نااہل لوگ بھرتی کرکے انہیں خزانے پر بوجھ بناکر بیٹھادیا جاتا ہے۔ ادھر اس بات کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے کہ عوام کے پاس کچھ نہیں لیکن کوئی عوام کو کچھ دینے کو ہی تیار نہیں اور ان کو صرف ووٹ کے وقت ہی عوام نامی مخلوق یاد آتی ہے ایسے میں عوام بھی اپنا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن میں کسی کو ووٹ نہ دیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عوام اور ان سے جڑے مسائل بارے کبھی کسی نے سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی اسی لئے تو آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عوام کے مسائل کا انبار ہے لیکن حکومتی عہدیداران کے نزدیک سب اچھا ہے۔ مہنگائی دوسرے ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہے لیکن شاید چند روز قبل گارڈین جیسے بڑے جریدے میں چھپی اس خبر کو بالکل ہی نظرانداز کئے ہوئے ہیں کہ جس میں پاکستان میں بدترین مہنگائی کو نہ صرف رپورٹ کیا گیا بلکہ عمران حکومت کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ عالمی طاقتیں بھی مہنگائی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو نوٹس کررہی ہیں یعنی اگر مہنگائی دنیا بھر میں ہوتی تو پھر عالمی جریدوں میں یہ خبر شائع نہ ہوتی جس سے حکومتی وزراء کا یہ جواز کہ مہنگائی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، خودبخود ختم ہوجاتا ہے۔ حکومت جن نوجوانوں کے کاندھوں کو استعمال کرکے اقتدار میں آئی تھی اگر ان کو روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے تو اسے آئندہ الیکشن میں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کیونکہ بدترین مہنگائی کے مارے نوجوان معاشرے کے لئے چلتے پھرتے ایٹم بم ثابت ہونگے اس لئے ضروری ہے کہ عمران خان جنہیں اس ملک کے نوجوان آج بھی امید کی ایک کرن سمجھتے ہیں ان کے مسائل کے حل کے لئے آگے آئیں اور انہیں ملازمتیں فراہم کرنے کی ذمہ داری کا ادراک کریں وگرنہ انہیں کاروبار شروع کروانے میں ہرممکن مدد کریں کیونکہ بھوک جس بری طرح سے وطن عزیز میں ناچ رہی ہے اس میں ضروری ہے کہ عوام کو خالی نعروں کی بجائے ڈلیور کرنے پر توجہ دی جائے، یہی وقت کی پکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author