مئی 12, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عام آدمی کی سیاست غائب ہے ||عامر حسینی

خانیوال تحصیل میں کھگہ اور ڈاہا خاندانوں کے درمیان برٹش دور سے مقابلہ چلا آرہا تھا اور 1937ء اور 1946ء اور پھر 1950ء میں ہوئے انتخابات میں کھگہ خاندان کا پلڑا بھاری رہا۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خانیوال،میاں چنوں ، کبیروالہ اور جہانیاں یہ چار نئے ٹاؤن انگریز راج میں کالونیل کینالائزییشن اور کالونیز کے طور پہ بنائے گئے تھے ۔ ان ٹاؤنز کے اردگرد نئے چکوک بنائے گئے ، ٹاؤنز اور چکوک میں مشرقی پنجاب سے آبادکار لاکر بسائے گئے اور یوں آبادکاروں اور پرانے مقامی باشندوں کی ایک تقسیم قائم ہوئی – 47ء کی تقسیم نے پنجاب ، ہریانہ اور دہلّی سے مہاجروں کی بڑی تعداد کو یہاں بسنے پہ مجبور کیا گویا مقامی، آبادکار اور مہاجر تین شناختیں ہوگئیں۔ سیاسی طور پہ اس سارے علاقے میں کھگے، ڈاہا، ھراج، سید، گردیزی ،قریشی،بودلے ان چھے شناختوں سے تعلق رکھنے والے جاگیردار خاندان سیاست پہ چھائے رہے۔ قومی اسمبلی ،صوبائی اسمبلی اور بلدیہ اور ضلع کونسل کی سیاست میں بھی انہی چھے خاندانوں کا راج رہا۔ آبادکاروں اور مہاجروں کی پوزیشن یہ تھی کہ خانیوال میں ایک عرصے تک یہ کھگہ بمقابلہ ڈاہا ، کبیروالہ میں سید بمقابلہ ھراج ، میاں چنوں میں بودلہ بمقابہ قریشی اور جہانیاں میں قریشی بمقابلہ گیلانی کی حمایت اور مخالفت میں تقسیم رہتے تھے۔ یوں سمجھ لیں کہ ان کے اندر بھی ذات، برادری اور قبیلے کے چھوٹے چودھری بڑے جاگیردار اور چودھری کے ساتھ ملنے کا فیصلہ لیتے تھے۔ درمیان طبقے کی پروفیشنل پرت اور تاجروں اور متوسط طبقے کے زمیندار سے ہٹ کر آبادکاروں اور مہاجروں میں جو غریب اور جھوٹے موٹے کاربار کرنے والے اور کاریگر وغیرہ جو تھے وہ اپنی اپنی برادریوں کے دھڑوں کے چوہدریوں کی رائے پہ چلتے تھے۔ ٹاؤنز میں پہلے پہل جو تحصیل بورڈ ہوتے تھے ان کے ممبران کے طور پہ مہاجروں اور آبادکاروں کے ممتاز اور اشراف گھرانوں کے لوگ سامنے آتے اور کبھی کبھار یہ بطور چئیرمین بھی سامنے آجایا کرتے تھے۔
یہاں شہروں میں پاکستان بننے سے قبل جو پروفیشنل مڈل کلاس اور بڑے اور درمیانے تاجر تھے ان کی بھاری اکثریت ہندؤں کی تھی اور وہ آل انڈیا نیشنل کانگریس سے منسلک تھی ۔ جبکہ چند ایک تھے جو لیفٹ رجحان رکھتے تھے – کسانوں میں آبادکار سکھوں اور ہندؤں میں کئی ایک کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے کسان فرنٹ "کیرتی پارٹی” سے منسلک تھے اور سرکاری محکمے جن میں ریلوے، بلدیہ، پوسٹل سروس میں بھی چند ایک ٹریڈ یونینسٹ تھے۔ لیکن ان کا انتخابی سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔
جب تقسیم ہوئی تو ان ٹاؤنز کی مڈل کلاس کی پروفیشنل پرتیں اور تاجر پرت کا بڑا حصّہ ہندوستان چلا گیا- کیمونسٹ اور سوشلسٹ رجحان رکھنے والے کسانوں کی بڑی تعداد جو سکھ تھے وہ بھی ہندوستان چلے گئے۔ اور مسلمانوں میں لیفٹ سے منسلک کسان تحریک کے چند گنے چنے نام ہی رہ گئے تھے۔
پاور پالیٹکس میں آبادکار اور مہاجروں کی برادریوں ، نام نہاد اونچی ذاتوں اور قبائل کے دھڑوں نے اپنے آپ کو برٹش پنجاب کے زمانے سے چلے آرہے بڑے جاگیردار سیاسی گھرانوں کے ساتھ اپنی وفاداریاں استوار کرلیں۔
خانیوال تحصیل میں کھگہ اور ڈاہا خاندانوں کے درمیان برٹش دور سے مقابلہ چلا آرہا تھا اور 1937ء اور 1946ء اور پھر 1950ء میں ہوئے انتخابات میں کھگہ خاندان کا پلڑا بھاری رہا۔ آبادکار اور مہاجروں کی اکثریت دھڑے پیر بڈھن شاہ کگھہ کے گھرانے سے جڑے رہے اور بدلے میں انھوں نے خانیوال کی بلدیہ مہاجروں کے ابھرتے ہوئے اشراف گھرانوں کے حوالے کیے رکھی ، دوسری طرف ہیبت خان ڈاہا کا کنبہ سیاست میں تھ انہوں نے بھی بلدیاتی سیاست میں مہاجروں کے ابھرتے اشراف گھرانوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھا۔
دسمبر 1970ء کے انتخابات پنجاب کی عمومی سیاست کی طرح ایک انقلابی تبدیلی کا اظہار تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی خانیوال سے پہلی بار ایم این اے اور ایم پی اے کی نشستوں پہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے چوہدری برکت اللہ، امیر عبداللہ اور راؤ فرزند منتخب ہوئے اور یہ ایسا الیکشن تھا جس میں پاور پالیٹکس کی پرانی ہیرارکی / درجہ بندی بری طرح سے بکھر گئی تھی اور درمیانے طبقے اور شہری و دیہی غریبوں نے پاور پالیٹکس میں انگریزوں کے دور سے چلے آرہے پاور سٹرکچر کو بری طرح سے منتشر کردیا تھا۔ ان انتخابات میں عام آدمی نے پاور پالیٹکس کو تشکیل دیا تھا۔
لیکن یہ تبدیلی مشکل سے چار سال تک برقرار رہی- پی پی پی جو پہلے پہل عام آدمی کی پارٹی بنکر خانیوال کے سیاسی افق پہ رونما ہوئی تھی اس پارٹی کے اندر 1974ء کے آنے تک مقامی جاگیردار گھرانے اس میں شامل ہوئے اور ان جاگیرداروں کے ماتحت چلنے والے آبادکاروں اور مہاجروں کی برادریوں اور قبیلوں کی نئی اور پرانی دھڑے بندیوں کی قیادت کرنے والے چھوٹے چودھری بھی ان کے ساتھ پی پی پی میں داخل ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ پرانا پاور سٹرکچر بحال ہوتا گیا اور پھر جب جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا لگا تو پرانے پاور سٹرکچر کی علامت بننے والوں کی اکثریت جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہوگئی ۔85ء میں بڈھن شاہ کے گھرانے سے قمرالزمان شاہ کھگہ واپس ایم این اے بن گئے۔ آبادکار نیازی قبیلے کا ایک نوابزادہ ایم پی اے بن کر سامنے آگیا۔ جبکہ ان کے مدمقابل کھگہ خاندان کی زیر سرپرستی بلدیہ پہ برسراقتدار ایک مہاجر شیخ برادری کا ممتاز گھرانے کا شخص شیخ سوداگر شکست کھا گیا لیکن اسے بلدیہ سونپ دی گئی جس نے آبادکار اور مہاجر برادریوں کے دھڑوں کے ساتھ وہاں پاور برقرار رکھی اور ان سب نے ضیاء الحق کی مسلم لیگ میں پناہ لے لی ۔
جنرل ضیاء الحق کے 11 سالہ دور حکومت میں مختلف طریقوں سے شہروں اور دیہاتوں فنانشل اور سوشل پاور کے حامل ایسے افراد ابھرنا شروع ہوئے جو اپنے آپ کو کہیں نہ کہیں پرانے جاگیردار سیاسی گھرانوں کی سیاسی پاور میں سے شئیر مانگتے تھے اور یہ اپنے آپ کو مڈل کلاس سیاست کا علمبردار قرار دیتے پائے جاتے لیکن ان کا آخری کردار کسی نا کسی جاگیردار سیاسی گھرانے کی وفاداری ہوا کرتا تھا۔ خانیوال میں یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے۔
پڑوسی تحصیل جہانیاں میں پہلے اشرف واہلہ کا خاندان، پھر جاوید ہاشمی اور پھر افتخار نذیر کا خاندان سامنے آیا لیکن اقتدار اور پاور ملتے ہی ان کے ہاں بھی الیکشن سیاست میں پاور کی جو پرانی درجہ بندی ہے اس میں کوئی فرق دیکھنے کو نہیں ملا ۔ ان کے مدمقابل جو نئے کھلاڑی ہیں وہ بھی پاور پالیٹکس کے پرانے اصولوں سے چمٹے نظر آئے۔
سن 1970ء میں پی پی پی کے پلیٹ فارم پہ جس طرح سے عام آدمی نے اپنے آپ کو ذات ،برادری ، قبیل داری ، مذہب، نسل، جنس ، دولت ، سماجی جاگیردارانہ طاقت جیسے عناصر کو شکست دی اور پیچھے دھکیلا تھا وہ منظر آج تک پھر دیکھنے کو نہیں ملا – حالانکہ آج پہلے سے کہیں زیادہ ورکنگ کلاس، بے زمین کسان، کھیت مزدور ، سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونینز اور تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے لیکن پاکستان کے پاور پالیٹکس کے سیاسی منظر نامے پہ ایک بھی مین سٹریم سیاسی جماعت عام آدمی کی پاور پہ سرے سے یقین ہی نہیں رکھتی۔ پاور پالیٹکس پہ سیاسی بہروپیوں نے قبضہ کررکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: