گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال، گلزار صاحب اس پولیس چوکی کے سامنے جو روز ہوٹل ہے قدیم ماضی یعنی 1885-86میں اس کے پیچھے سیٹھ دکھ بھنجن رام نے سب سے پہلی کوئلے سے چلنے والی مشینوں کی آٹا چکی لگائی تھی جسکا نام” بلاس فلور ملز ” تھا۔ ڈیرہ اور اردگرد کے شہروں کے علاوہ یہاں سے گندم کا آٹا وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی سپلائی ہوتا تھا۔ کچھ عرصے بعد اسی فلور مل کے احاطے میں ” برف خانہ ” بھی علیحدہ تعمیر کیا گیا، جہاں سے شہراور انگریز فوج کے لیئے گرمیوں میں برف سپلائی کی جاتی تھی۔۔ دھوئیں کے اخراج کے لیئے ایک بلند و بالا بالکل اینٹوں کے بھٹے کی طرح چمنی تعمیر کی گئی تھی، تاکہ دھوئیں کے اخراج کی وجہ سے ارد گر د کا ماحول آلودگی سے پاک رہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ "بلاس فلور ملز اینڈ آئس فیکٹری ” تو ختم ہو گئی لیکن اس کی وہ یاد گار چمنی اپنی پوری تمکنت کے ساتھ ٹھہری رہی، گلزار صاحب! مزے کی بات ہے کہ پورے ڈیرہ والوں کے لیئے یہ چمنی ایک یادگار کے طور پر بہت مشہور تھی اور کافی لطیفے اور کہاوتیں اس کی ساتھ منسوب تھیں۔ افسوس کی بات ہے کہ 1885 میں تعمیر ہونے والی اس چمنی کو کسی محکمے نے ورثہ سمجھ کر حفاظت نہیں کی بلکہ پورے 107 سال بعد یعنی 1992میں اس کو مکمل طور پر منہدم کر کے نئی عمارت بنا دی گئی۔ گلزار صاحب ! اس پولیس چوکی کے سامنے جہاں اب پینا فلیکس، فوٹوؤں اور اخبار کا سٹال ہے۔ اسی نکڑ پر 1917 میں اللہ بخش لوہار نے ” ڈاج کمپنی کی ویگنوں کی ایجنسی” کھولی تھی۔ تقسیم پاکستان کے بعد اسی ایجنسی کے پیچھے چمنی والی جگہ کے نزدیکی میدان میں مشہور و معروف "حاجی عثمان بس سروس” کا اڈہ تھا، جہاں سے یارک، گلوٹی اور پنیالہ کے لیئے ویگنیں چلتی تھیں۔ بعد میں اس کے سامنے جہا ں آج کل کینٹ میں داخلے کے لیئے چوکی بنی ہوئی ہے، اس میدان میں گورنمنٹ نے ” جی ٹی ایس” کی بسوں کا اڈہ قائم کیا جہاں سے دوسرے شہروں کے لیئے بسیں چلتی تھیں۔
عمرانی صاحب سے ماضی کی یادگاروں کی تاریخی تفصیل سننے کے بعد سڑک پر چلتے ہجوم اور بے تحاشا دوڑتی گاڑیوں اور انکے ہارن اور کانوں کو پھاڑتا شور و غل سن کر محسوس ہوا کہ ماضی میں ڈیرہ کتنا پرسکون تھا۔حالانکہ سکوت کو زندگی کا زیور گردانہ جاتا ہے اور اس کے نظم و ضبط سے آشنائی کامرانی کی دلیل۔ شور و غل صرف تماشا کی طرف دھیان گیان کراتا ہے جبکہ سکوت کی پکار سے آشنائی کائنات کے بھید سمجھنے کا ذریعہ ہے۔
بہرحال اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھے، ہمیں پولیس چوکی سے دوسرے کنارے تک آنے کے لیئے بڑی تگ و دو کے ساتھ ساتھ چنگچیوں سے بچنے کے لیئے خصوصی کوشش کرنا پڑی۔ ہم دوسرے کنارے پہنچے جہاں ایک خشک میوہ جات اور سگریٹ کی کھوکا نما دکان ہے۔ میں نے بازار کے اندر موجودہ کالی باڑی کے آگے بنی ہوئی چھولے چاول اور حلوہ کی دکانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، عمرانی صاحب ! اسی جگہ پر بٹوارے سے پہلے شری طوطا رام کی ” برادرز بک سٹال” کی مشہور دکان اور نیوز ایجنسی تھی جہاں پر ہندوستان بھر کے ہر زبان میں اور ہر قسم کے اخبارات، رسالے، کتابچے وغیرہ ملتے تھے۔۔ بٹوارے اور ہندؤں کے واپس جانے کے بعد اسی جگہ پر "راجہ برادرز” بک سٹال اور نیوز ایجنسی قائم ہوئی، جہاں سے اخبارات، رسالے، میگزین وغیرہ پورے شہر میں سپلائی ہوتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ شاید 1998کے بعدیہ قدیمی "راجہ برادرز” بک سٹال اپنی آخری سانسیں لیتا ہوا بند ہو گیا تھا۔ عمرانی صاحب کہنے لگے، گلزار صاحب اس راجہ برادرز والی بک سٹال کے ساتھ ماضی میں یہاں ایک بڑا اور کشادہ تانگہ سٹینڈ بھی ہوتا تھا۔ ہاں عمرانی صاحب یاد آیا، اسی راجہ برادرز والے بک سٹال کے سامنے، جہاں آج کل سوئیٹر اور واسکٹ والوں نے دکانیں سجائی ہوئی ہیں، یہاں پر 1826 کے بعد آنے والے عیسائی پادریوں نے چھپروں سے بنی کچی مذہبی لائیبریر ی بھی قائم کی تھی، جہاں سے وہ لوگوں میں مفت عیسائیت کی کتابیں بھی تقسیم کرتے اور عیسائیت کی تبلیغ بھی کرتے تھے۔
عمرانی صاحب میرا جذباتیت سے بھرپور لہجہ اور تاریخ سنتے ہوئے کہنے لگے، گلزار صاحب ! شاید یہ قدیم بازار ہونے کی وجہ ماضی سے لے کر آج تک پر رونق ہے۔ یہی ایک مخصوص جگہ ہے جہاں پر تحریک ِ پاکستان کے جلسے جلوس ہوا کرتے تھے اس کے علاوہ یہی جگہ ہر قسم کے سیاسی، سماجی اور علاقائی جلسے جلوسوں اور احتجاجوں کے لیئے یادگار اور مشہور ہے۔۔ اسکے علاوہ یہ توپاں والا بازار شہر کا ایک مصروف ترین کاروباری علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اب تو اکثر پیدل چلنا بھی آسان ثابت نہیں ہوتا۔ گلزار صاحب ! ماضی میں ہمارے معاشرے میں سگریٹ وغیرہ کو کوئی مقام حاصل نہیں تھا لیکن حقہ ہر محفل میں پھر بھی لازمی جزو ہوا کرتا تھا۔ اسی بازار توپاں والے میں کئی مشہور و معروف چائے خانے، سرائے اور بازار میں سیر و خریداری کے لیئے آنے والوں کی کثیر تعداد ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ ان بازاروں میں حقے لیے ہوئے گھومتے اور شیدائیوں کو پیسوں کے بدلے دو دو کش پلاتے تھے۔
عمرانی صاحب کی ماضی اور حال کے تناظر میں باتیں سنتے ہوئے میں کہنے لگا، آپ اس بازار کی رونق کے بارے بالکل بجا فرما رہے ہیں۔ یہی تو وجہ ہے عمرانی صاحب کہ تقسیم پاکستان کے بعد آپ کے والد محسن علی عمرانی نے اپنی“بزم اقبال“ کی صدارت کے دور میں کتنے ہی کامیاب مشاعرے ڈیرہ اسماعیل خان میں منعقد کرائے۔ مشاعرہ چاہے ٹاؤن ہال میں ہوتا، سوشل ویلفئیر میں ہوتا یا پھر اسلامیہ سکول میں۔ مشاعرے سے پہلے تمام شعراء اور سامعین یہیں توپاں والے دروازے سے ایک جلوس کی صورت تمام بازاروں کا چکر لگا کر مشاعرہ گاہ پہنچتے تھے۔..(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر