ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو سال پہلے سئیں بھرا عاشق خان بزدار کی وستی مہرے آلی میں ۔۔۔۔ میلے کی روداد سمیت :
میری جیسی کیسی بھی کئی عادات میں سے ایک عادت یہ بھی ہے کہ ارادہ کر لوں تو اس پر بہر صورت عمل کرتا ہوں ویسے ہی جیسے اگر بمشکل ہی سہی کوئی وعدہ کر لوں تو نبھاتا ہوں۔ وعدہ اپنے مہربان جناب عاشق بزدار سے کیا تھا کہ ان کے زیراہتمام ان کی بستی مہرے آلی میں ہر برس ہونے والے ادبی ثقافتی میلے میں شرکت ضرور کروں گا۔
ایسے اولین دو اکٹھوں میں جب شامل ہوا تھا تب میں کوٹ ادو میں قیام پذیر تھا جہاں سے ریل گاڑی میں بیٹھ فاضل پور پہنچ جاتے اور وہاں سے نزدیک واقع بستی مہرے آلی۔ البتہ اپنے آبائی قصبہ علی پور سے یہاں پہنچنے کا سہل راستہ معلوم نہ تھا۔ پہلے تو میری جری بھتیجی کرن نے یہ ذمہ داری نبھائی کہ وہ معلوم کر دے گی۔ ترچھے راستے دو تھے کہ ڈی جی خان یا ظاہر پیر کے راستے۔ دونوں ہی بسیں تبدیل کرکے اڑھائی تین سو کلو میٹر لیکن اس کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق سہل تر راستہ علی پور سے بیس کلو میٹر دور دریائے سندھ کے ایک پتن سے کشتی کے ذریعے دریا عبور کرکے اس پار سے موٹر سائیکل پر مزید اتنا مگر کچا راستہ طے کرکے مہرے آلی پہنچنے کا تھا۔
عاشق بزدار صاحب کو فون کیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ علی پور سے گبر آرائیں کے پتن پہنچ کے لانچ پر دریا کے اس پار آ جائیں تو میں موٹر سائیکل والے کسی شخص کو بھجوا دوں گا کہ آپ کو لے آئے۔ میں نے یکے بعد دیگرے دو بھتیجوں سے ساتھ چلنے کو کہا۔ پہلے نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ گرد میں اٹ جائیں گے۔ دوسری بات کہ لانچ پہ گائے کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، آپ کہیں گے کیا مصیبت ہے، یا گائے اتار دو یا مجھے تو ناخدا بولے گا آپ اتر جائیں کیونکہ گائے قیمتی ہے، تیسرے آپ باہر رہنے کے سبب کچھ صاف رنگ کے ہیں ممکن ہے کہ کوئی برائے تاوان اغوا کر لے، جانا ہے تو سیدھے سیدھے راستے سے جائیں، یہ کہہ کر وہ ملتان سدھار گیا۔
پہلے ایک دوست نے جانے کی حامی بھری پھر دوسرے نے۔ پہلے کو کچھ کام آن پڑے اور دوسرے کی صحت کا مسئلہ اڑچن بن گیا مگر دوسرے اور بچپن کے دوست خادم حسین خادم نے کہا کہ وہ بہرصورت مجھے پتن پہنچوائے گا۔ اب دوسرے بھتیجے کو ہمرہی کی خاطر راغب کرنے کی سعی کی تو وہ یہ کہہ کر کہ چاچا جی، کشتی ڈوب بھی جاتی ہے اور مجھے پیراکی نہیں آتی، صاف انکار کر بیٹھا۔
خادم حسین کا چلبلا چھوٹا بیٹا، باپ کی از کار رفتہ سوزوکی ایف ایکس لے کے پہنچا۔ شہر سے نکلتے کی سڑک ایسے جیسے اس پہ بم برسائے گئے ہوں۔ پرانی کار اچھلتی ہوئی جا رہی تھی مگر شکر تھا کہ موٹر سائیکلوں کی روانی سے اڑتی گرد نہیں پڑ رہی تھی۔ کوئی چھ کلو میٹر کے بعد سڑک بہتر ہو گئی اور نوجوان دریا کے پتن پر گرد اڑنے سے جھنجھلایا، اسے بقول اس کے ڈسٹ الرجی ہے۔ پہلے کار کے مشکل سے بند ہوتے شیشے پورے چڑھائے۔ پھر آگے بڑھے۔ کوئی چار بیڑے ( لانچیں ) لنگر انداز تھے۔ ایک سے عورتیں، بچے، موٹرسائکلیں تھامے مرد اتر رہے تھے اور دو چھوڑ کے چوتھے بیڑے پہ ابھی موٹر سائیکلیں چڑھائی جا رہی تھی اور عقب میں دریائے سندھ کا وسیع اور دلکش ہاٹ تھا جس کے اس پار کی زمین دکھنے کا بس شائبہ ہی تھا۔
لانچ بھر رہی تھی۔ میں بھی چڑھ گیا۔ جہاں کھڑا ہوا وہاں کھڑی موٹر سائیکلوں میں مزید موٹر سائیکل چڑھنے تھے تو کرایہ لینے والے نے مجھ سے، ” سئیں وہاں بیٹھ جائیں”۔ لانچ کے پچھلے حصے میں بنے بنچ کی جانب اشارہ کرکے کہا۔ مجھے لانچ پر سوار کروانے والے نوجوان نے ساحل سے پوچھا آپ کا بیگ ( بیک پیک ) کہاں ہے۔ میں نے کہا، کار میں۔ اٹھا لے آو۔ اس نے لا کر کرایہ لینے والے کو دیا، جس نے میرے آگے کھڑے شخص کو دیا، اس نے مجھے پکڑا دیا۔ میں بنچ پہ بیٹھا ہی تھا کہ مجھے لوہے کا ادھر ادھر ہوتا پائپ دکھائی دیا جو لانچ کا سٹیرنگ تھا۔ میں نے بدحال، کمزور لڑکے سے جس نے آ کر اس پائپ کو چھوا تھا، پوچھا کہ کیا یہ ادھر ادھر ہوگا؟ تو اس نے کہا،” جی ہا، تساں اگوں تھی کے بہہ ونجو”، یعنی لانچ کے فرش پر جس پہ لوگ بیٹھے تھے۔ ایسے ہی لانچ کے شروع کے فرش پر منہ پر چادریں کھینچے عورتیں بیٹھی تھیں۔ میں کھڑا رہا اور پوچھا،” بیڑی بڈدی تاں نئیں” یعنی کشتی ڈوب تو نہیں جاتی۔ کرایہ لینے والے نے جسے مجھے لانے والا نوجوان میرا کرایہ ادا کر چکا تھا، بولا،” اللہ نہ کرے سائیں ” پھر اس نے بدحال لڑکے سے پوچھا کہ کوئی رہ تو نہیں گیا۔ اس کے انکار پر اس نے اسے کہا، ” وت مار گیڑا "۔ اس نے میرے بائیں طرف ذرا آگے کشتی کے ایک جانب اٹکا پیٹر پمپ چلا دیا، دھوئیں کا بادل اٹھا۔ اس سے پہلے کہ میں ناک پہ ہاتھ رکھتا، دھواں میرا حلق عبور کر چکا تھا۔ بدحال لڑکا اچھل کے اس پائپ کے پاس پہنچا اور اس نے کشتی کا رخ موڑنا شروع کیا۔ یوں کشتی پیٹر پمپ سے اچھالے پانی کے زور پر دریا عبور کرنے لگی۔ میں آگے بیٹھے چند انسانوں اور بوریوں کو پھلانگ کے پہلے کھڑے موٹر سائیکل کے پاس پہنچا، جس کے ساتھ کھڑا اس کا مالک سیلفیاں لے رہا تھا۔ میں یہاں پمپ سے دور ہونے کو پہنچا تھا مگر اس کے برعکس اس کے مزید نزدیک پہنچ گیا تھا۔ کوئی چارہ نہیں تھا۔ موٹر سائیکلیں اور پہلے حصے میں اکڑوں بیٹھی عورتیں رکاوٹ تھیں چنانچہ کھڑے ہو کے عظیم دریائے سندھ سے ابھرتی گرتی لہروں کو دیکھنے، چمکتے سورج کی پانی پر پڑتی کرنوں کے منظر کی تصویریں لینے اور پمپ کے انجن کے شور کو کھڑے رہ کر سننے پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ چند لمحے کے لیے پانی کے عمق کو دیکھ کر امکانی غرقابی سے ڈر لگا لیکن بیڑا خلاف توقع دس منٹ بعد ہی ساحل سے آن لگا تھا۔ میں موٹر سائیکل اور انجن سے بچتا، کشتی کے کنارے سے دریا کے کنارے پر جا کودا تھا۔
مجھے لینے کو آنے والے نے مجھے راستے میں فون کر دیا تھا۔ لوگ اپنی موٹر سائیکلیں اتار کر چلتے بنے تھے۔ میں نے لینے آنے والے کو فون کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ دس منٹ بعد پہنچ جائے گا۔ کچھ لوگ بوریاں اٹھا کر ٹرالی میں رکھ رہے تھے۔ ڈرائیور کی نشست پر بیٹھے دیہاتی ڈرائیور نے پوچھا،” آپ کو لینے کوئی موٹر سائیکل پر آ رہا ہے کیا؟” یعنی وہ مجھے ٹریکٹر ٹرالی پر لے جانے کو تیار تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہاں لینے پہنچنے والا ہے۔ دور سے دو موٹر سائیکل آتے دکھائی دیے تھے۔ میں ریت کا قطعہ عبور کرکے راستے پر آ گیا مگر دونوں موٹر سائیکلوں پر دو دو دو افراد سوار تھے جو دوسری طرف جانے کو تیار بیڑے کی جانب بڑھ گئے۔ میں پھر دریا کی جانب دیکھنے لگا۔ چند منٹ بعد مجھے آواز سنائی دی،” آو ڈاکٹر صاحب”۔ جاتے بیڑے پر کسی کو چڑھا کر لوٹے شخص نے موٹر سائیکل کھڑی کی اور مجھ سے مصافحہ کیا اور گلے ملا۔ اس نے کپڑے سے چہرہ ڈھانپنا ہوا تھا جو اس نے ملنے سے پہلے کچھ ڈھیلا کر دیا تھا۔ میں اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔ وہ ریت میں پاوں پھنساتا، پہیوں کو ریت میں سلپ ہونے سے بچاتا ، کچے، کبھی ہوئی بارش سے خشک گڑھوں والے راستے تک پہنچنے کی تگ و دو کرتا آگے بڑھا تو میں نے پوچھا کیا راستہ ایسے ہی ہے؟ بولا ، جی ایسے ہی ہے۔ بعد میں ایک چھوٹا دریا عبور کریں گے اور پھر ایک دو کلومیٹر کے بعد پانچ کلومیٹر سڑک پکی ہوگی۔
موٹر سائیکل رائڈر کا نام محمد جمیل تھا۔ وہ مجھے سرائیکی اور اردو کے شعر ہی نہیں بلکہ پوری پوری نظمیں بہت ہی اچھے انداز کے ساتھ سناتا، مقامی سیاست اور عمومی استحصال سے متعلق انتہائی مناسب باتیں کرتا موٹر سائیکل کو سڑک پر بنے سخت مٹی کے گڑھوں سے نکالتا سنبھالتا چلا جا رہا تھا۔ بتا رہا تھا کہ بہت دور تک تحصیل علی پور کا علاقہ ہوگا۔ یہ بھی کہ اس بار کپاس کی فصل برباد ہو گئی ہے۔ میرا کاشت کاری سے کوئی تعلق نہیں لیکن جب میں نے راستے کے دونوں جانب کپاس کی تباہ فصلیں دیکھیں جن میں کے ایک کھیت کو بیچارا کسان بالن کے لیے کاٹ رہا تھا تو یقین جانیں میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔
جمیل نے کہا کہ جو بیچارا اگاتا ہے۔ رات کو پانی لگاتا ہے۔ سال بھر کے رزق ملنے کی امید باندھتا ہے اس کو فصل کا آٹھواں حصہ ملتا ہے۔ اس بار وہ بھی ملنے سے رہا۔ اس کے ذوق شعری کے سبب میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تم بھی شاعری کرتے ہو تو بولا جی تو بہت کرتا ہے مگر کر نہیں پاتا۔ میں نے تعلیم پوچھی تو بولا گریجویٹ، نوکری نہ مل سکی تو میں بھی اپنا موٹر سائیکل کرائے پہ چلاتا ہوں۔ دریا کنارے سے کچھ دور میرے ساتھ بیڑی سے اترنے والے دو موٹر سائیکلیں تھامے مردوں اور پانچ چھ پیدل عورتوں کے گروہ میں سے ایک مرد نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا کرائے کا ہے تو اس نے ” کو سئیں” کہہ کے نفی کی تھی۔ اب مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مجھے میرے میزبان عاشق خاں بزدار کے آرڈر پر خاص طور پر لے جا رہا ہے ورنہ کرائے پر ایک بائیک پر دو بلکہ تین سواریاں بھی بٹھا لی جاتی ہیں۔ جمیل نے بتایا تھا کہ اس کے باپ نے اسے اور دوسرے بیٹے کو لوگوں کی جوتیاں گانٹھ گانٹھ کے پڑھایا تھا اور یہ کہ ان کے سماجی سیاسی شعور کو عاشق بزدار نے صیقل کیا ہے۔ منزل پہ پہنچ کر بعد میں معلوم ہوا کہ جمیل ایم اے ہے بتاتے ہوئے اس نے کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے خود کو گریجویٹ بتایا تھا۔
پھر راستے میں ایک چھوٹا دریا آ گیا۔ جس میں کھڑی کشتی پر پورا فورڈ ٹریکٹر بھی بمع ڈرائیور کے سوار کیا گیا تھا۔ پھر آر پار بندھی نائلن سے بٹی سرخ رسی پکڑ پکڑ کے بیڑی پار لگی تھی۔ ہم پھر موٹر سائیکل پر سوار ہو گئے تھے۔ باوجود احتیاط سے چلانے کے، عمر کے سبب میری ریڑھ کی ہڈی درد کرنے لگی تھی۔ شکر ہے پکی سڑک آ گئی تھی۔ کچھ دکانوں میں گندی مندی پھٹی یعنی کپاس خرید کے رکھی ہوئی تھی۔ جمیل نے بتایا کہ بچ رہی فصل کا بھاو 4200 من کی کم شرح سے شروع ہوا اور گر کے اب 3400 پر آ گیا ہے۔
سڑک کنارے ایک مسجد تھی۔ میں نے رکنے کو کہا اور عصر و مغرب کی قصر نمازیں پڑھیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس بہت بڑے گاوں کی گلیوں سے گذر کے عاشق خاں کے ڈیرے پر تھے۔ عاشق بزدار منتظر تھے جنہوں نے پانچ سو روپے دے کے جمیل کو رخصت کیا اور ہم باتیں کرنے لگے۔ عشاء کا وقت ہو گیا تھا۔ منور خاں بزدار بھی تشریف لا چکے تھے۔ میں نے نماز پڑھنے کی خواہش کی تو وہ مجھے گیٹ کے عین سامنے مسجد میں لے گئے۔ بڑے سے صحن اور ایک برآمدے کو عبور کرکے میں مسجد کے اندر پہنچا تو ایک کونے میں بس داڑھی والا ایک نوجوان بیٹھا تھا۔ میں نماز پڑھنے لگا اور وہ مسجد کے اندر اپنے موبائل پر زوردار موسیقی والے روحانی گیت سنتا رہا۔۔ کیا عجیب عابد ہے، میں نماز پڑھتے سوچا کیا۔
رات کا کھانا آ گیا۔ عاشق بزدار اونگھ رہے تھے۔ انہیں جا کے سونے پر قائل کیا۔ اب محفل نوجوانوں کے ساتھ تھی جن کا سرخیل بزدار صاحب کا خوبرو فرزند اور انقلاب پسند جانشین قصور عباس خاں بزدار تھا۔ بہت اچھی گپ شپ رہی۔ جب سگرٹیں زیادہ پھنکنے لگیں تو وہ مجھے غلام سرور اعوان کے نئے بنے گھر کی نئی اٹیچڈ باتھ والی مجہز بیٹھک میں چھوڑ آئے جہاں میزبان نے تمام مناسب اہتمامات کیے ہوئے تھے۔
حوائج سے فراغت کے بعد حسب عادت نیند نہیں آ رہی تھی۔ آدھی مسکن گولی کھا کر نیند لی مگر ساڑھے پانچ گھنٹے سے پہلے ساتھ میں پانی کی موٹر چلنے سے جاگ گیا اور نہ سو پایا۔ بالآخر سوا سات بجے در کھٹکا دیا۔ سرور اعوان فورا” حاضر ہو گیا۔ چائے کے بعد گرم پانی سے نہانے کے بعد ناشتہ کیا اور نو بجے ڈیرے پر پہنچ گیا۔ سب باہر تنبو تلے چارپائیوں اور کرسیوں پر بیٹھے باتیں کر رہے ہیں اور میں سامنے کمرے میں زمین پہ بچھی دری پہ لیٹا آپ سے مخاطب رہا۔
میں کل رات سے انقلابی ذہنیت کے تروئتسکی پسند، برخوردار قصور عباس بزدار، فرزند سئیں عاشق بزدار پر زور دیتا رہا کہ اگر کچھ انقلابی کام کرنا ہے تو اپنی بستی کے باسیوں کو اپنا فضلہ بدرووں میں سرعام نہ بہانے اور شاپر نالیوں میں نہ پھینکنے کا شعور دو۔
بھائی غلام سرور اعوان کے متمدن مکان سے مکمل ناشتہ کرنے کے بعد، بزدار صاحب کے دیرے پہ جانے کو نکلے تو نگاہیں بدرووں میں بکھر کر بہتے انسانی فضلے کو دیکھ کر دماغ خراب کرنے لگیں، تعفن نے ناک پر رومال دھرنے پر مجبور کر دیا۔
ڈیرے پر پہنچ کر برادر بزرگ عاشق بزدار اور برادر خورد و دوست منور بزدار کو بھی اس نیک عمل کرنے پر قائل کرتا رہا۔ وہ انتظامات دیکھنے نکل گئے اور میں کمرے میں فرشی دری پہ دراز روداد قلم بند کرنے کو فیس بک میں محفوظ کردہ پہلے سے لکھے اقتباس کو پھر سے حاصل کرنے کے جتن کرتا رہا۔ آخرکار کامیاب ہوا اور تحریر کا ایک حصہ لکھ ڈالا۔
منور خان نے دروازہ کھول کے کہا چلیں آپ کو کھانا کھلا لاتے ہیں۔ آپ آرام بھی کر لینا اور کپڑے استری کرنے کو دے دینا۔ پھر وہی دماغ کو خراب کرتا اور متعفن کرتا ماحول دیکھتا سونگھتا منور کے ہمراہ سرور کے در پر پہنچا اور صاف ستھری بیٹھک میں داخل ہوا۔ صبح غسل خانے میں ایک کمی کا ذکر کیا تھا یعنی ہینڈواش کا جو سرور نے لا کے سنک پر رکھ دیا تھا۔ کچھ دیر بعد کیلے اور سیب آ گئے۔ وہ کھائے۔ سئیں عاشق بزدار بھی پہنچ گئے۔ مچھلی کا خوشبودار بہترین سالن اور گرم گرم روٹیاں آئیں ۔ اس پر ہاتھ صاف کیے۔ سرور نے خود کسی نئی ترکیب سے چاول تیار کیے تھے۔ ان کو بھی پودینے کی چٹنی ملے دہی کے ساتھ کھایا۔ سب نکل گئے، میں اندھیرا کرکے استراحت کو لیٹ گیا۔ لمحے بھر کو آنکھ لگی تھی کہ ماسکو سے بیٹے تمجید کے آئے فون کی گھنٹی نے بیدار کر دیا۔ دس سالہ بیٹا فیس بک پر تصویریں دیکھ کے پریشان ہوا تھا کہ بیڑے پر اتنے موٹرسائیکل تھے، وہ ڈوب سکتا تھا۔ کیا آپ کے پاس لائف جیکٹ تھی۔ میں ہنس پڑا۔
سرور کو میسیج کیا کہ تولیہ لے آئے۔ وہ فورا” لے آیا اور پوچھا کہ چائے کا کپ ہو جائے۔ میں بولا کہ قصر نماز پڑھ لوں۔ میں نے ٹانگیں پاک کیں اور وضو بنایا تو وہ چائے لے آیا۔ اچھی اور بہت میٹھی چائے پی۔ کپڑے استری کر کے لا دیے گئے تھے۔ کپڑے پہن کے نماز پڑھی اور ہم دونوں ڈیرے پر چلے گئے۔ جاتے ہوئے ایڑی کے درد نے بہت ستایا۔ کوئی ساڑھے چھ بجے میں نے منور سے پوچھا کہ کیا کوئی میڈیکل سٹور کھلا ہوگا تاکہ درد کم کرنے کی کریم مل سکے۔ وہ مجھے موٹر سائیکل پر لے گیا، کریم دلوائی اور سرور کی گلی میں یہ کہہ کر چھوڑ گیا کہ میں موٹر سائیکل چھوڑ کے آتا ہوں۔ میں نے ایڑی پہ کریم ملی۔ کچھ دیر بعد منور پہنچ گیا۔ میں نے تجویز کیا کہ کھانا آٹھ بجے کھائیں گے۔ ابھی ساڑھے تین بجے سہ پہر تو ظہرانہ لیا تھا۔
مٹر مٹن اور گرم گرم روٹیوں کا عشائیہ تناول کرکے منور انتظامات میں ہاتھ بٹانے کو نکل گیا۔ ہم اس کے فون کا انتظار کرتے رہے۔ فون ملنے پر ڈیرے پر جانے کو نکلے۔ ایڑی کے درد سے چلنا دوبھر تھا مگر پہنچے۔ ڈیرے پر بہت سے لوگ تھے۔ میں نے جا کے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ اور عشاء کی قصر علیحدہ پڑھی۔ سوا نو بجے منور بائیک پر پہلے عاشق بزدار کو پنڈال لے گیا۔ پھر مجھے لینے پہنچا۔ ہم سٹیج پر چڑھنے کو قنات کے کونے سے داخل ہونے کو تھے کہ صوفی تاج گوپانگ آتے دکھائی دیے۔
تاج میرا پیارا دوست اور بہت اچھا شاعر ہے۔ اس کی علالت کی خبر پہلے سے تھی۔ یہ بھی معلوم تھا کہ اسے بولنے میں دقت ہے۔ اس کے کہے لفظ ناقابل فہم ہوتے ہیں۔ میں اس سے ملنے کا خاص طور پر منتظر تھا۔ ہم والہانہ انداز میں بغل گیر ہوئے اور بہت دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے رہے۔ اس کے ساتھ اس کے بیٹے سبطین نے اپنا تعارف کروایا جو بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں لیکچرر ہے اور والد کے کہے کو واضح کرتا ہے۔ مجھے تاج جیسے خوش گفتار شخص کے اس طرح باتیں کرنے سے بہت تکلیف اور الجھن ہوئی۔ ہم سٹیج پر پہنچ کے دری پر پھسکڑا مار کے بیٹھ گئے۔ تاج بولنے کی کوشش کرتا سبطین دہراتا۔ میں دکھی بھی ہوتا اور خوش بھی کہ تاج ایسی مرض کے باوجود فعال زندگی گذار رہا ہے۔
پنڈال پہلے سے بھرا ہوا تھا۔ آگے بچے بیٹھے وہی کر رہے تھے جو بچے کرتے ہیں یعنی شرارتیں۔ ہم بہت بڑے جبوترے پر تھے۔ پھر بہت سے شاعر پہنچے اور ڈائس کے دوسری جانب اکٹھے بیٹھ گئے۔ عاشق بزدار نے لوگوں کو بیٹھنے کی تلقین کی۔ کہیں جا کر کے پونے دس تقریب شروع ہوئی۔ لوگوں کا ایک پرا نیلی اجرکیں گلوں میں حمائل کیے اور اچھے کپڑے پہنے پہنچا اور ہمیں پھلانگ کے ہمارے آگے بیٹھ گیا۔ یہ سرائیکی پارٹی کے لوگ تھے۔
جھمر کے لیے آگے بیٹھے بچوں کو ہٹایا گیا۔ پھر بھی جھمر کھیلنے میں بچے زیادہ تھے۔ گرد اٹھ کر ہم تک یعنی مجھ تک پہنچ رہی تھی۔ پنڈال میں زمین پر بیٹھے لوگ، اڑتی گرد، چبوترے پر مٹی بھری دری پر آلتی پالتی مار کے بیٹھے ہم بہت زیادہ لوگ، مجھ باہر سے آئے شخص پر ایک بار پھر واضح کر رہے تھے کہ ہماری ثقافت بے حد پسماندہ ہے۔ نالیاں اسی طرح کثیف رہیں گی اور لوگ بچوں کو ہٹانے کے لیے اسی طرح انہیں ان کی ماوں بہنوں کے نسوانی عضو کے بازاری یا عوامی نام کے ساتھ منسوب گالیاں دے کر کھدیڑتے رہیں گے۔
جب حاجی کنیرا نے الغوزہ بجانا شروع کیا تو میں باوجود ایڑی کے شدید درد کے جھمری حاجی عبدالعزیز کلیار کی فرمائش پر جھمر کھیڈنے اٹھ کھڑا ہوا۔ تاج گوپانگ نے بھی اٹھنا چاہا۔ اسے اٹھنے میں مدد دی اور ہم نے جھمر کھیڈی۔
مشاعرے کے سٹیج سیکرٹری کے طور پر برخوردار قصور عباس بزدار نے وائس سنبھالا۔ یہ خوبرو اور سمجھدار جوان کیا بہتر انداز میں شاعری پڑھتا ہے، واہ۔
مجھ سے مزید بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ آٹھ کر کچھ دیر کھڑا رہا۔ پھر ساونڈ سسٹم کے پیچھے جا کے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ارشاد ناصر نے بہت اچھی شاعری سنائی اور بہت اچھے انداز میں۔ کوئی ایک صاحب تقریر کرنے کو بلائے گئے اور انہوں نے دہلی پہ پاکستانی جھنڈا لہرانے کا اعلان کرکے پوچھا کہ کون کون دہلی پر جھنڈا لہرائے گا۔ پنڈال میں نوے فیصد لوگوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ میں حیران و پریشان۔
رات کا پونے ایک بچ چکا تھا۔ مجھے دوا بھی لینی تھی۔ درد بھی تھا اور ماحول میں گرد بھی۔سرور کو فون کرکے بلایا۔ بمشکل چل کے سرور کے ساتھ اس کے گھر پہنچا۔ ایڑی پر کریم ملی۔ پیشاب کے لیے اکڑوں بیٹھنا جانکاہ رہا ۔ مسکن دوا لے کے کہ کوئی پونے دو بچے سویا اور پونے ساتھ آنکھ کھل گئی۔ ایڑی کا درد کچھ کم ہے۔ آج مجھے نکل جانا چاہیے۔ لاہور بھی پہنچنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر