مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ویجائنا یا موت کا کنواں؟||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ویجائنا کہانی بیان کرنا اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد جان سکے کہ عورت کب کب زندگی کی بازی ہار سکتی ہے۔ وطن عزیز میں زچگی کی وجہ سے ہونے والی شرح اموات دنیا بھر میں سرفہرست ہونے پر کبھی کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ سوچیے اکیسویں صدی میں ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کی عورت کا یہ حال کیوں؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ہمارا دماغ چل گیا ہو! اب دیکھیے نا نصف شب کا عالم ہو، باہر شاہین طوفان کی تباہ کاریاں ہوں، آپریشن تھیٹر ہو، آپریشن ٹیبل پہ ایمبولینس کے ذریعے لائی عورت لیٹی ہو، عورت کے جسم سے خون کا اخراج تیزی سے ہو رہا ہو اور ہم خون روکنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اپنا غم لے کر بیٹھ جائیں۔

فرض کرو یہ نو بیاہتا بلوچستان کے کسی دور دراز گاؤں میں رہ رہی ہوتی، یا پھر تھر کے ریگستان میں کسی دیہات کی باسی ہوتی!

فرض کرو کہ سندھ کے کسی ایسے گوٹھ سے تعلق ہوتا جہاں نہ سڑک ہوتی نہ سواری!

فرض کرو کہ پنجاب کے کسی دور افتادہ دیہات کے کسی چھوٹے سے گھر میں اس کی ڈولی اتری ہوتی، جہاں طبی سہولیات کی موجودگی دیوانے کا خواب ہوتی۔

فرض کرو اگر کچھ لوگ اس کی مدد کرنے کے لئے کمر بستہ بھی ہوتے تو قریبی شہر کے ہسپتال پہنچنے تک کتنی دیر لگتی؟ اتنی دیر میں کتنا خون بہہ جاتا؟

فرض کرو کہ اگر قریبی شہر کے ہسپتال پہنچ بھی جاتی مگر وہاں موجود ڈاکٹر کی اہلیت ہی مشکوک ہوتی؟
فرض کرو کہ بلڈ بینک میں خون ہی موجود نہ ہوتا اور رشتے دار خون دینے کا نام سن کے کھسک لیتے۔
فرض کرو کہ اس ہسپتال کی اکلوتی ڈاکٹر چھٹی پہ ہوتی؟ یا شاید کوئی ڈاکٹر ہی نہ ہوتی؟

اف، یہ خیال، یہ سوچیں یہ فرض کرتے ہوئے سوال جی کا روگ بنتے جاتے ہیں۔ ان کا غم ہمیں سانس نہیں لینے دیتا، وہ سب عورتیں جن کی زندگی ہمارے زمانے میں ہمارے ساتھ گزری مگر کیسے گزری؟

بنیادی سہولیات سے محرومیوں کے سائے میں، زندگی اور موت کے بیچ پائی جانے والی شکستہ لکیر کے آس پاس چلتے ہوئے، آرزوؤں اور تمناؤں کی کرچیاں سمیٹتے ہوئے، ہونے اور نہ ہونے کے بیچ معلق!

لیجیے اصل بات تو ہم بھولے جا رہے ہیں کہ آخر نصف شب میں ایسا ہوا کیا؟

شاہین سائیکلون کے ڈر سے سب گھروں میں دبکے بیٹھے تھے۔ ہسپتال سے کال آئی کہ ایک خاتون ایمرجنسی میں لائی گئی ہیں جن کی ویجائنا ( مہبل) سے خون کا اخراج تیزی سے ہو رہا ہے۔ اب ایسے میں ڈاکٹر کہاں سوچتا ہے کہ ایسی برستی بارش میں کیا کرے کہ جب دو ہاتھ کے فاصلے پہ کچھ نظر نہ آئے۔ برق باراں کی اٹکھیلیاں دیکھتے ہم ہسپتال پہنچ گئے۔

خاتون دو ہفتے پہلے ہی شادی شدہ ہونے کے مقام پہ فائز ہوئی تھیں اور کسی بے تابی کے نتیجے میں لہولہان ہو کر ہسپتال تک آ پہنچی تھیں۔

بات بڑھانے سے پہلے ویجائنا کی ماہیت سمجھ لیجیے۔ بیرونی دنیا سے رابطہ رکھنے کے لئے ہر جاندار کے جسم میں کچھ کھڑکیاں موجود ہوتی ہیں۔ آنکھ، کان، ناک، گلا، مقعد اور ویجائنا۔

ان کھڑکیوں کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ بیرون اور اندرون کا آپس میں ربط ضبط تو ہو مگر ایسا بھی نہ ہو کہ ہر کس و ناکس بنا کسی احتیاط کے دندناتا ہوا ہر حفاظتی دیوار میں شگاف ڈال دے۔

ویجائنا ایک نالی کی طرح ہے جو بیرونی حصے جسے vulva کہا جاتا ہے، کو رحم سے ملاتی ہے۔ ویجائنا کی لمبائی دس سینٹی میٹر یا چار انچ اور دیوار مسلز کی بنی ہوتی ہے جن پر ایک ملائم جھلی چڑھی ہوتی ہے بالکل اسی طرح جیسے بازو یا ٹانگ کے مسلز کی حفاظت جلد کرتی ہے۔ لیکن جلد اور اس جھلی میں فرق موٹائی، ساخت اور نزاکت کا ہے۔

ویجائنا کی دیواروں کی اندرونی جھلی میں کسی بھی زور دار رگڑ سے شگاف پڑنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اس سے بھی بڑھ کر مشکل یہ ہے کہ جلد پر پڑے شگاف تک پہنچنا مشکل نہیں لیکن ٹیوب جیسی ویجائنا کی گہرائی میں پڑے شگاف کی سلائی تجربہ کار ہاتھوں کی محتاج ہے۔

ویجائنا میں شریانیں پھٹ جانے سے خون اس سرعت سے بہتا ہے کہ مضروب کو ہسپتال کم سے کم وقت تک پہنچانا ہی زندگی کی ضمانت ہو سکتا ہے۔

مظلوم ویجائنا ازدواجی تعلقات میں ہی لہولہان نہیں ہوتی، زچگی کے دوران بچے کے سر کی ہڈیاں اگر چہ نرم ہوتی ہیں لیکن ویجائنا کی نرم و نازک دیواروں سے رگڑ کھاتے ہوئے ویجائنا کو زخمی کرتی ہیں۔

ویجائنا کے داخلے کا سوراخ اس قدر تنگ ہوتا ہے کہ بچے کا سر نکلنا اکثر ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں مقعد کو بچاتے ہوئے ویجائنا کی ایک دیوار میں چار پانچ سینٹی میٹر کا ایک کٹ لگایا جاتا ہے جسے عرف عام میں چھوٹا آپریشن کہا جاتا ہے۔

چھوٹا آپریشن بچے کو نکلنے میں مدد دیتا ہے اور مقعد کو پہنچنے والے نقصان سے بچاتا ہے۔ قینچی سے دیے جانے والے اس کٹ کو دھاگے سے سی دیا جاتا ہے۔ جن شریانوں سے خون بہہ رہا ہو ان کی مرمت کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

ویجائنا کہانی بیان کرنا اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد جان سکے کہ عورت کب کب زندگی کی بازی ہار سکتی ہے۔ وطن عزیز میں زچگی کی وجہ سے ہونے والی شرح اموات دنیا بھر میں سرفہرست ہونے پر کبھی کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ سوچیے اکیسویں صدی میں ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کی عورت کا یہ حال کیوں؟

خدارا اب وہ گھسے پٹے جملے نہ کہنے بیٹھ جائیے گا کہ عورت تو ازل سے بچے جن رہی ہے، کیا انوکھی بات ہے بھلا؟

جان لیجیے کہ عورت تمام عمر تنے ہوئے رسے پر کسی بازی گر کی طرح چلتی ہے۔ جہاں ذرا سی چوک ہوئی وہیں کھیل ختم!

%d bloggers like this: