نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خان صاحب عوام کو زندہ رہنے کا حق تو دو||سارہ شمشاد

اس وقت وطن عزیز میں جو حالات ہیں ان میں ہلکی سی چنگاری حکومت کے لئے انتہائی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے لیکن اپوزیشن کواپنے مفادات سے کبھی دیکھنے کی چونکہ عادت ہی نہیں ہے اسی لئے تو ستے خیراں ہی ہیں۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے حالات کی بالکل درست تشخیص کرتے ہوئے حکومت کو صائب مشورہ دیا ہے کہ ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے سنجیدگی کے ساتھ فیصلے کئے جائیں کیونکہ یہی وہ اصل چیز جس کا حکومتی صفوںمیں شدید فقدان ہے۔ ایک تو وزیراعظم عمران خان اپنے وعدوں کے برعکس عوام کو مہنگائی کے بم ٹھوک ٹھوک کر ایسے مار رہے ہیں کہ جیسے یہ تو ان کی اولین خواہش تھی کہ انہیں موقع ملے اور وہ پھر آئیایم ایف کی ظالمانہ شرائط کو ایسے تندہی کے ساتھ پوری کریں کہ کم از کم عالمی ساہوکار ان سے ایک مرتبہ تو خوش ہو ہی جائیں۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ حکومت جس طرح آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لئے ظالمانہ شرائط عوام پر لامتناہی بوجھ لاد کر پوری کررہی ہے، ماضی میں شاید ہی کسی حکومت نے عوام کی ایسی درگت بنائی ہو مگر مقام افسوس ہے کہ حکومتی ترجمان آج بھی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا یہ موقع ہاتھ سے جانے یہ کہہ کر نہیں دے رہے کہ دیگر ممالک میں پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مہنگائی ہے غالباً ان کی نظریں اس رپورٹ پر نہیں پڑیں جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کا مہنگا ترین ملک ہے یہی نہیں بلکہ اب تو ہر سروے ہر رپورٹ میں برملا کہا جارہاہے کہ عمران خان کے دعوئوں کے برعکس پاکستان میں مہنگائی سب سے زیادہ ہے۔ چند روز قبل وزیراعظم نے جس ’’تاریخی‘‘ ریلیف پیکیج کا اعلان کیا اس غبارے میں سے ہوا 24گھنٹوں میں ہی نکل گئی کہ رات کے اندھیرے میں مہنگائی کے بم عوام پر انتہائی بیدردی سے غالباً یہ سوچ کر گرائے گئے کہ چلو مرے ہوئوں کو دکھ کچھ کم ہوگا۔ پٹرول کی قیمت میں 8روپے فی لٹر اضافہ ہوا جبکہ زرعی ملک میں چینی نے 150روپے کلو کا ہندسہ بھی عبور کرلیا ہے اور گھی جو پچھلے 3برسوں میں 160روپے فی کلو ملتا تھا اب 350روپے سے بھی اس کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ سچی بات ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کی ایسی پھینٹی لگارہی ہے کہ ان کو چھٹی کا دودھ بھی یاد دلوادیا ہے اور ساتھ ہی عوام کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آئندہ اگرکبھی حکومت میں آئے تو اس سے بھی برا حال کریں گے۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف نے ہماری حکومت کو دسمبر تک پٹرول 200روپے لٹر جبکہ حکومت کی مدت مکمل کرنے تک 300روپے لٹر تک کرنے کی مکمل یقین دہانی کی ہے۔ اب ہماری حکومت اپنے عوام کی مشکلات کو سمجھنے کی بجائے غیرملکی آقائوں کی ہاں میں ہاں بلاجھجک ایسے ملارہی ہے کہ جیسے وہی اس کے مائی باپ ہوں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ چینی اور آٹا انکوائری جو آج سے کچھ عرصہ قبل شروع ہوئی تھیں ان سب کا خمیازہ عوام کو اب سود سمیت بھگتنا پڑرہا ہے کہ عوام کو گلے سے ہی دبوچ لیا گیا ہے۔ چند روز قبل تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے برملا کہا کہا حکومت مہنگائی کنٹرول کرے اب کوئی اللہ کے بندے سے پوچھے کہ جناب مجموعی چینی کا 22فیصد آپ پیدا کرتے ہیں، آپ ہی اس کے نرخ کم کردو تو شاید آپ کی حکومت عوام کو کچھ ریلیف دے سکے۔ یہاں ہمیں خسرو بختیار اور دیگر کو بھی قطعاً نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر وہ بھی اپنی شوگر ملوں سے چینی کی قیمت کم کردیں تو فی الفور اس بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے مگر چونکہ عمران خان نے مستقبل میں یہ نعرہ لگانا ہے کہ انہیں اچھی اور قابل ٹیم نہیں ملی اسی لئے وہ عوام کو ڈلیور نہیں کرسکے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف میں گھس بٹھیے آئے ہی اسی مقصد کے لئے تھے اور اب جب کہ ہمارے وزیر داخلہ شیخ رشید کچھ اکھڑے اکھڑے سے نظر آرہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے کس کے تعلقات بہتر ہورہے ہیں، مجھے علم نہیں کس کس کی ڈیل ہورہی ہے، مجھے نہیں پتہ تو شیخ صاحب یہ بدلا بدلا ہوا رویہ بھی ہمیں بہت کچھ بتارہا ہے کہ ان جیسا جہاندیدہ سیاستدان بھی یہ بھانپ گیا ہے کہ حکومتی کارکردگی صفر ہے اور اگر انہوں نے آئندہ الیکشن لڑنا ہے تو اب کسی اور منڈیر پر بیھٹنا پڑے گا۔ دراصل یہی شیخ صاحب کا پرانا طریقہ اردات ہے جس سے ہم سبھی بخوبی آگاہ ہیں۔ اسی طرح پچھلے چند دنوں سے ہمارے وسیم اکرم پلس منظرنامے سے ایسے غائب ہیں کہ عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چین کی بانسری بجارہے ہیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ تحریک انصاف کو وسیم اکرم پلس کی کارکردگی کا خمیازہ آئندہ الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔
عمران خان واقعی قسمت کے دھنی ہیں اسی لئے تو ان کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں جس کا ثبوت پی ڈی ایم کا لانگ مارچ اور استعفوں کے معاملے پر اختلافات کا شکار ہونا ہے۔ یعنی تحریک انصاف کی کامیابی میں پی ڈی ایم کے انتشار میں بارہویں کھلاڑی کا اہم کردار ادا کررہاہے حالانکہ اس وقت وطن عزیز میں جو حالات ہیں ان میں ہلکی سی چنگاری حکومت کے لئے انتہائی مشکلات کا باعث بن سکتی ہے لیکن اپوزیشن کواپنے مفادات سے کبھی دیکھنے کی چونکہ عادت ہی نہیں ہے اسی لئے تو ستے خیراں ہی ہیں۔
ادھر میونسپل کارپوریشن ملتان کا بجٹ اجلاس بھی ہنگامے کی نذر ہوگیا کہ میئر ملتان کی عدم موجودگی میں افسران کے شریک نہ ہونے کی نشاندہی پر اجلاس شروع ہوتے ہی ملتوی کردیا گیا کہ ایک دوسرے پر الزامات کا لامتناہی سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اب کوئی اللہ کے ان نیک بندوں سے پوچھے کہ بھئی یہ ایوان جس کو آپ نے مچھلی منڈی بنایا اس ایک اجلاس کیلئے عوام کے کتنے کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہوں گے۔ اگر فقط اس بارے ہی سوچ کر معاملات کو آگے بڑھانے کی سبیل کی جائے تو عوام کی زندگیوں میں شاید کوئی سدھار آہی جائے مگر چونکہ سب نے ایکا کیا ہواہے کہ عوام کو کوئی ریلیف نہیں دینا اسی لئے تو عوام نامی مخلوق کا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے۔ وزیراعظم 2لاکھ روپے میں گزارہ نہ ہونے کا شکوہ کرتے نظرآرہے تھے لیکن ذرا سوچئے کہ 10سے 15ہزار کمانے والا شخص کس طرح اپنا گزارہ کرتا ہوگا۔ اسی طرح ایک اہم بات جس کا حکومت کو ضرور جواب دینا چاہیے کہ نیب کی جانب سے ریکور کئے گئے 815ارب روپے سرکاری اکائونٹ میں جمع نہ کرائے جانے کا سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے۔ اب کوئی پوچھے کہ ایک طرف حکومت ہر چیز کی قیمتیں بڑھاکر عوام پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہے اور دوسری طرف اگر نیب کے حوالے سے یہ خبر درست ہے تواب تک یہ رقم خزانے میں کیونکر جمع نہیں کروائی گئی ہے۔ ان حالات میں جب معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکلتے ہی جارہے ہیں تو ضروری ہے کہ حکومت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے کیونکہ مہنگائی ملکی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ ایسے میں اگر حکومت کا مہنگائی کے حوالے سے یہ مدعا مان لیا جائے کہ مہنگائی کرنا مجبوری ہے کیونکہ عالمی منڈی میں چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف حکومت کو عوام کو دیگر سہولیات فراہم کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ کسی کو عوام کی مجبوریوں سے کھیلنے کی جرات نہ ہو۔ مہنگائی کا جو سیلاب آجکل آرہا ہے اس میں عوام سوتے ہیں تو اٹھنے پر پتہ چلتا ہے کہ فلاں چیز کی قیمت میں اتنا خطیر اضافہ ہوگیا ہے جبکہ عوام کی آمدن وہی ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب پرویز اشرف ریلیف پیکیج سے ہر کنبے کو صرف 5روپے ملنے کا دعویٰ کررہے ہیں تو حکومت کو اس بارے ضرور وضاحت کرنی چاہیے جو آج بھی تاریخی سکیم کے ڈونگرے بجارہی ہے۔
عالمی بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستان میں مہنگائی 10فیصد تک بڑھنے کے خدشہ کا اظہار کرتے ہوئے عوام کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بجلی، تیل، غذائی اجناس کی قیمتوں، بیرونی مالی دبائو، قرضوں میں اضافے سے غربت کئی گنا بڑھ گئی ہے جبکہ معاشی ترقی کی رفتار 3.4فیصد رہنے کا امکان ہے۔ اسی طرح سیمنٹ، سریا اور اینٹیں بھی مہنگی ہوگئی ہیں جبکہ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق دنیا کی 68فیصد آبادی 2050ء تک شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہوگی۔ رواں برس کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی 37فیصد آبادی شہروں، 63فیصد دیہات میں مقیم ہے جبکہ 2047ء میں شرح 50فیصد کے ساتھ برابر ہوجائے گی۔
ان حالات میں جب عوام کے لئے رشتہ جسم و جاں برقرار رکھنا مشکل ہے تو ایسے میں پنجاب حکومت نے ایک لاکھ خالی اسامیوں پر بھرتی کرنے کی منظوری دے کر عوام کی ٹینشن کو کچھ کم کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن ’’کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ بعض تجزیہ کار ایک لاکھ اسامیوں پر بھرتی کو الیکشن سٹنٹ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ اس لئے وزیراعظم عمران خان اپوزیشن پر الزامات کی بات کرنے کی بجائے بہترین ملکی مفاد میں مشاورت کو اولین ترجیح سمجھیں کیونکہ اگر عوام کو ریلیف نہدیا گیا تو معاملات انتہائی مخدوش اور خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی المیہ جنم لے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو پہلی اور آخری باری کی بجائے ملکی مفاد میں مہنگائی کے عذاب کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بھرپور تیاریاں شروع ہیں اور اب تو جہانگیر ترین بھی اس محاذ پر سرگرم نظر آرہے ہیں۔ آنے والے دن پاکستان کے لئے انتہائی اہم ہیں اس لئے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author