سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے پیکج کا اعلان جو کیا ہے اگر اس کا یہاں خلاصہ پیش کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہوگا کہ پٹرول کی قیمت بڑھانا پڑے گی، سردیوں میں گیس نہیں ملے گی مگر مہنگی ضرور کریں گے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش میں پٹرول پاکستان سے بھی زیادہ مہنگا ہے، ترکی میں بدترین مہنگائی ہے جبکہ جرمنی تاریخ کی بدترین مہنگائی برداشت کررہا ہے۔ اسی طرح انگلینڈ میں کھانے پینے کی چیزیں بھی نہیں مل رہیں۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں 50اور پاکستان میں 9فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے فلاحی پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ اس سے 2کروڑ خاندانوں کے لئے گھی، آٹا اور دال کی قیمتوں پر 30فیصد رعایت ملے گی اس سے ملک کے 13کروڑ عوام کو فائدہ ہوگا۔ 40لاکھ خاندانوں کے لئے سود کے بغیر قرضوں کا پروگرام لارہے ہیں۔ کسان کو سود کے بغیر 5لاکھ روپے تک کا قرضہ ملے گا۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں دو خاندانوں سے درخواست کی کہ وہ ملک سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں وہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آدھی کردیں گے۔ وزیراعظم کی تقریر کا اگر لب لباب نکالا جائے تو وہ صرف یہی ہوگا کہ جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا یعنی عوام کو مہنگائی کے مزید جھکڑ برداشت کرنا پڑیں گے۔ ایک ایسے وقت میں جب عوام زندگی کے جبر کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں تو ایسے میں مزید مہنگائی کی ’’خوش خبری‘‘ بے حال اور دکھوں کے ستائے ہوئے عوام کے لئے کسی اندوہناک سانحے سے کم نہیں۔ عوام کی جانب سے وزیراعظم کے خطاب کے موقع پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ عوام کے غم میں نڈھال وزیراعظم انہیں کوئی ریلیف فراہم کریں گے مگر انہوں نے تو عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے مزید لگادیاہے کہ ان کی پٹاری میں عوام کو ریلیف نامی چیز دینے کے لئے سرے سے ہی موجود نہیں ہے اسی لئے تو عوام کو صرف تسلیاں ہی دی جارہی ہیں۔
اب وزیراعظم عمران خان سے کوئی پوچھے کہ وہ جن ممالک سے موازنہ کرکے عوام کو تسلیاں دینے کی کوشش کررہے ہیں تو ذرا یہ بھی سمجھانے کی بھولے عوام کو کوشش کریں کہ وہاں ان کی آمدن اور پاکستان کے غریب عوام کی آمدن میں زمین آسمان کا فرق ہے اسی لئے دیگر ممالک کے عوام پر مہنگائی کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا کیونکہ اول تو ان کی بچتیں بھی ہیں اور دوم ان کی آمدن اور مہنگائی میں ابھی بھی بہت فاصلہ ہے ایسے میں وزیراعظم عمران خان جو 22کروڑ عوام کے نمائندہ ہیں، کو چاہیے کہ وہ اگر عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتے تو کم از کم ان کے زخموں پر نمک بھی نہ چھڑکیں خاص طور پر اس وقت جب حکومت خود مہنگائی کی شرح میں جس تیزی سے اضافہ کررہی ہے وہ خود ہی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ایسے میں غریب عوام کی کیا درگت بنے گی، کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ ادھر مشیر خزانہ شوکت ترین نے بھی چند روز قبل عوام کو یہ کہہ کر کافی تسلی کروائی ہے کہ مہنگائی ان کے کنٹرول میں نہیں یعنی انہوں نے عوام کو مہنگائی کے مزید جھکڑ بھگتنے کے لئے تیار رہنے کی نوید سنادی تھی اور وزیراعظم نے تو اس کی تصدیق کردی ہے کہ اب اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط مانتے ہوئے حکومت نے موٹرویز اور ایئرپورٹس بھی گروی رکھنا شروع کردیئے ہیں۔ یاد رہے کہ ملک میں ماہانہ مہنگائی کی شرح 19.9فیصد ہوگئی ہے۔ ادھر بجلی کی قیمت میں 1.68روپے فی یونٹ اضافے کی بھی نوید سنادی گئی ہے جبکہ دوسری طرف پٹرول کی قیمتوں میں بھی آنے والے چند دنوں میں اضافے کی توقع ہے۔ وطن عزیز میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں خطرتاک حد تک اضافہ ہوچکا ہے لیکن ہماری حکومت کے نزدیک سب اچھا ہے اسی لئے تو اپنے اللے تللوں کو روکنے کیلئے رسماً بھی اعلان کرنے کی زحمت نہیں کی جارہی۔
معیشت کا تعلق براہ راست ملکی سلامتی سے ہوتاہے اس لئے وزیراعظم نے مہنگائی پر عوام کو جو اعتماد میں لیا ہے تو اس کے بعد عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ کس سے منصفی چاہیں کیونکہ حکمران طبقے کی جانب سے جس طرح بلندبانگ انداز میں عوام کش پالیسیوں پر عمل درآمد جاری ہے تو خدشہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں ووٹ دینے کے لئے شاید عوام نامی مخلوق زندہ ہی نہ بچے اور حکومت مُردوں پر حکمرانی کرکے اپنا شوق پورا کرے۔ وطن عزیز میں مہنگائی کے 70سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ وزیراعظم مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے جو منطق اور جواز پیش کررہے ہیں اس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں کیونکہ عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ صرف اسی امید پر دیئے تھے کہ وہ عوام کو ریلیف فراہم کرے گی مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ عوام نامی مخلوق کی کسی کو کوئی پروا ہی نہیں ہے اسی لئے تو عوام کو حالات کے تھپیڑے کھانے کے لئے چھوڑدیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان جنہوں نے عوام سے 2018ء میں ووٹ بے رحم احتساب کا نعرہ لگاکر لئے تھے اب احتساب تو کیا ہونا، منت ترلوں پر آگئے ہیں اسی لئے 2خاندانوں سے دولت واپس لانے کی بھی درخواست کی جارہی ہے جو ہر لحاظ سے ایک شکست خوردہ ذہن کی عکاسی ہے کہ بھئی اقتدار میں آپ ہو آپ کے نیچے پوری مشینری ہے اگر وہ کالا دھن ہے تو قانونی راستہ اختیار کرنے میں کیا قباحت ہے جبکہ دوسری طرف وزیراعظم کی ان دو خاندانوں سے دولت واپس لانے کی درخواست بارے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر انہوںنے دولت پاکستان لانی ہوتی تو وہ باہر بھیجتے ہی کیوں؟
یہ سچ ہے کہ میرا وزیراعظم بڑا سادہ لوح شخص ہے مگر خان صاحب اب تو جاگ جایئے، عوام بدترین مہنگائی کے ہاتھوں لہولہو ہوچکے ہیں، انہیں مرہم کی ضرورت ہے اور اب جنہیں وہ اپنا مسیحا سمجھتے تھے آپ نے بھی اپنی نظریں یوں پھیر لی ہیں کہ جیسے جانتے ہی نہیں۔ آسان الفاظ میں وزیراعظم نے اپنے خطاب میں عوام کو بڑا واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ وہ مہنگائی کنٹرول نہیں بلکہ زیادہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور اگر مہنگائی کے تھپیڑے کھانے کے بعد لہولہان عوام میں سے کوئی زندہ بچ گیا تو پھرخان صاحب شاید ان کی مدد کو آئیں۔ تاہم تحریک انصاف بالخصوص عمران خان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ عوام انہیں اگلی باری نہیں دیں گے اسی لئے تو وہ آئی ایم ایف کی ظالمانہ شرائط پر بلاچوں چراں عمل کئے جارہے ہیں تاکہ آئندہ بھی عالمی ساہوکار ان کو ہی موقع دیں۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ معیشت کی حالت اس قدر خراب ہے کہ کوئی بھی آئندہ حکومت بنانے کے لئے تیار نہیں۔ یہی وہ بات ہے جو ہم ان سطور کے ذریعے کئی ماہ قبل کرچکے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے آئندہ باری لینے سے انکار کردیا ہے کیونکہ وینٹی لیٹر پر موجود معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ان کے پاس کوئی پروگرام سرے سے ہی موجود نہیں ہے جبکہ دوسری طرف معیشت دان یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ مسلم لیگ (ن) ہی ہے جس نے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور آج جگہ جگہ جو بارودی سرنگیں پھٹ رہی ہیں یہ مسلم لیگ (ن) کی ہی بچھائی ہوئی ہیں جو عوام کو بھگتنا پڑرہی ہیں۔
حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی خوش خبری تو سنائی جارہی ہے لیکن اس کے عوض عوام کو کیا کچھ بھگتنا پڑے گا، اس بارے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تمام سیاسی جماعتوںسے معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ڈائیلاگ کرے بلکہ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز سے اس سلسلے میں فی الفور مشاورت کی جائے کیونکہ قرض کی مے کی پاکستان کو بڑی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ یوں بھی حالات کچھ عرصہ قبل منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ کی طرف جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ پاکستان کو خدانخواستہ اپنے ایٹمی اثاثے عالمی ساہوکاروں کے پاس گروی رکھوانے پڑسکتے ہیں اسی لئے تو پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے تاکہ اسے معاشی طورپر دبائو میں لاکر من چاہے فیصلے کروائے جاسکیں۔ یہ وقت اپنی انا اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی سلامتی کے لئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت نامور ماہرین معیشت کی ایک خصوصی ٹیم مرتب کرے اور انہیں جنگی بنیادوں پر معیشت کی بحالی کا ون پوائنٹ ایجنڈا دے تاکہ کسی طور تو پاکستانی معیشت کو سنبھالا دیا جاسکے، یہی وقت کی پکار ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ