نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ریاست کمزور نہیں!||سارہ شمشاد

مریم نواز ہو،محسن داوڑ یا کالعدم جماعت، کوئی بھی آئین و قانون سے بالاتر نہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہر صورت قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے گزشتہ دنوں ایک ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے بلوچستان کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا جس کے بعد پاکستان کا ہر باشعور آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ مریم بی بی نے بلوچستان کو مسئلہ بناکر اس طرح پیش کیا جس طرح بھارت کرتا ہے۔ حالانکہ بلوچستان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مریم کے اس قسم کے فتنہ پرور ٹویٹ کے پیچھے آخر کیا سوچ اور منطق پنہاں ہے۔ آزاد بلوچستان کا نعرہ تو بھارت کی جانب سے لگایا جاتا ہے اور اپنے مذموم مقصد کے حصول کےلئے بھارت نے نہ صرف علیحدہ ڈیسک بلکہ فنڈنگ بھی مختص کررکھی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب بلوچستان میں تمام معاملات احسن انداز میں چل رہے ہیں اور وہاں کے عوام بھی دیگر صوبوں کے شہریوں کی طرح تمام تر حقوق و مراعات انجوائے کررہے ہیں تو ایسے میں مریم نواز نے ایسا ٹویٹ کرکے آخر کس کی خدمت کی اور کس کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ بے وقت کی اس راگنی کے پیچھے آخر کوئی نہ کوئی راز تو لازمی پوشیدہ ہے جس کا ہماری ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضرور پتہ لگاناچاہیے۔
اسی طرح مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو بھی اس بارے ان سے جواب طلب کرنا چاہیے خاص طور پر اس وقت جب انہوں نے چند روز قبل ہی اداروں کے خلاف بیانات نہ دینے کا بیان دے کر 22کروڑ عوام کے دلوں کی ترجمانی کی تھی مگر نجانے یکایک ایسا کیا ہوگیا کہ مریم بی بی نے ’’جسٹس فار بلوچستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ پاکستان کا امن اور سلامتی اگر کسی کو کھٹکتا ہے تو اس میں بھارت سرفہرست ہے جو شروع دن سے ہی پاکستان میں نقص امن پھیلانے کی کوششوں میں جتا رہتا ہے۔ مریم نواز کا پاکستان اور اداروں مخالف بیانیے کا آخر کیا مقصد ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا مجھ سمیت 22کروڑ عوام ہر صورت جواب چاہتے ہیں کیونکہ مریم بی بی کی جانب سے کوئی پہلی مرتبہ تو ایسا کیا نہیں گیا بلکہ وہ جس طرح ماضی میں اداروں کو لتاڑتی رہی ہیں وہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ اگر ڈان لیکس کے کرداروں کو کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچادیا جاتا اور قومی سلامتی کو خطرے میںڈالنے والوں کو سبق ملتا تو آج کسی کو اتنی جرات نہ ہوتی کہ وہ کھائے پاکستان میں ، رہے پاکستان میں مگر گن کسی اور کے گائے اور خوش کسی اور کو کرے۔
مریم بی بی عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے اسی لئے تو جب اور جہاں دل کرتا ہے اداروں پر انگلی اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ میں کبھی یہ سوچ کر ہی پریشان ہوجاتی ہوں کہ کیا ہماری ریاست اس قدر کمزور ہے کہ ذرا سی تنقید سے ہی لرز اٹھتی ہے یا پھر ہماری ریاست ملک دشمن بیانیہ اپنانے والوں کو لگام ڈالنے سے انکاری ہے کہ آئندہ کسی کو ایسی جرات نہ ہوسکے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکہ ہو یا بھارت، جو خود کو بڑی جمہوریت کہلوانا پسند کرتے ہیں وہاں بھی کسی کو اجازت نہیں کہ وہ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔ ایک بات جس کی اجازت ہمارا آئین و قانون نہیں دیتا اور اس کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینا اور اداروں کا حرکت میں نہ آنا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں دو قانون ہیں جو امیر او غریب دونوں کے لئے ہی مختلف ہیں اگر یہی شرمناک بیان یا گستاخی خدانخواستہ میں یا مجھ جیسی عام سی لڑکی دیتی تو قانون فوراً حرکت میں آتا اور میرے خلاف اب تک نجانے کتنی ایف آئی آرز درج ہوچکی ہوتیں لیکن چونکہ مریم نواز ہیں اور ان کے لئے قانون کس چڑیا کا نام ہے بلکہ قانون کو تو ان کی سہولت کے مطابق ہمیشہ موڑاجاتا رہا ہے اور جاتا رہے گا اسی لئے ان کے لئے آئین و قانون کی حیثیت محض ایک موم کی گڑیا کی سی ہے جسے وہ جب چاہتی ہیں بلڈوز کردیتی ہیں۔ ابھی چند روز قبل بھارت میں معروف اداکار شاہ رخ خان کے بیٹے کو دو ہفتے منشیات کے کیس میں جیل کی ہوا کھانا پڑی لیکن ہمارے ہاں نجانے ادارے کیوں اتنے کمزور ہیں یا ان کی کون سی مجبوریاں ہیں کہ وہ ہمیشہ طاقتور کے سامنے جھک جاتے ہیں اور یہ وہ بات ہے جس کا ملک دشمن طاقتیں ہمیشہ فائدہ اٹھاتی ہیں اور ریاست کو بلیک میل کرتی ہیں۔
ابھی چند روز قبل کالعدم جماعت نے 10دن سے زائد احتجاجاً دھرنا دیئے رکھا جس میں کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوگئیں اور اب حکومت اور کالعدم ٹی ایل پی میں مفاہمتی معاہدہ ہوگیا ہے جس کے بعد عوام حکومت سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جو معصوم لوگ اپنی جانوں سے گئے ان کے لواحقین کس کے ہاتھ پر ان کا لہو تلاش کریں۔ اگر ریاست نے ان عناصر کے خلاف جھکنا ہی تھا تو پہلے ہی مذاکرات کرلیتی کم از کم قیمتی جانیں تو ضائع نہ ہوتیں، کئی بچے یتیم نہ ہوتے اور ان کے گھر والوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار نہ ہوتیں۔ اگرچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انتشار سے بچنے کیلئے حکومت نے یہ بہتر فیصلہ کیا ہے کہ تشدد کو پھیلنے سے روکا جائے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ ریاست ایک مرتبہ پھر نقص امن پھیلانے والوں سے بلیک میل ہوگئی ہے۔ اسلام تو امن و آشتی کا مذہب ہے جس میں ناحق ایک جان کو قتل کرنا گویا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔
اب کوئی عوام کو یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ کئی معصوم جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے اور اپنی املاک کو جلاکر اور توڑپھوڑ کر کے ہم نے آخر کس دین کی خدمت کی ہے۔ دین مبین کے لئے ہم سب کٹ مرنے کو تیار ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصہ سے اسلام کے چہرے کو جس طرح جلائو گھیرائو کرکے مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو اس سے مغرب کے اسلامو فوبیا کے جواز کو تقویت ملی ہے۔
جمہوری ملک میں پرامن احتجاج بلاشبہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن جب احتجاج آئین و قانون کو زک پہنچانے لگے تو پھر قانون کو اپنا راستہ خود بنانا چاہیے تاکہ ان عناصر کو آئندہ ایسا کرنے کی جرات نہ ہوسکے۔ دنیا کو ایک بڑا واضح پیغام جائے گا کہ پاکستان میں قانون کی عملداری ہے اور وہاں قانون ہاتھ میں لینے والوں کا سر کچل دیا جاتا ہے۔ دراصل یہی وہ کمزوری ہے جس کی بنا پر دنیا میں ریاست پاکستان کے کمزور ہونے بارے تاثر تقویت پکڑ رہا ہے۔ مریم نواز کی جانب سے کبھی کشمیر کے حوالے سے تو ایسا ٹوئٹ نہ کیا گیا بلکہ ان کی وقتاً فوقتاً بھارت سے ہمدردی اور دوستیاں سامنے آتی رہتی ہیں لیکن بلوچستان جہاں کوئی خاص بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے لیکن مریم ناوز جان بوجھ کر بلوچستان کو ایک مسئلے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا مقصد یقیناً پاکستان کو دبائو میں لانا ہے۔
 یہ حقیقت ہے کہ چھوٹے بڑے مسئلے ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ آزادی کا نعرہ بلند کیا جائے۔ بلوچستان کی محرومیوں کی ایک طویل داستان ہے جس کی طرف حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی چاہیے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ اگر ایسے عناصر کا قلع قمع ابھی سے نہ کیا گیا تو خدا نخواستہ حالات انتہائی رخ اختیار کرسکتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ باور کروایا جائے کہ ریاست ہر چیز سے مقدم ہے اور پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اس لئے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ریاست کو دبائو میں لاکر من چاہے فیصلے کروالے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔
پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور ہر مسئلے کا احسن انداز میں حل چاہتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ توجہ طلب اور غور طلب مسائل کو فی الفور ایڈریس کیا جائے تاکہ ملک دشمن طاقتوں کو انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی جرات نہ ہوسکے۔ بہتر فیصلوں کے نتیجے میں انتشار اور تشدد سے بچا جاسکتا ہے لیکن بہتر فیصلوں کے لئے حکومت کو ہسٹری سوچ رکھنے والے محب وطن اور بڑی سوچ کے حامل افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ملک و قوم میں امن و استحکام کی ضرورت کو سمجھا جائے اور بحیثیت قوم ہمیں بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے فیصلوں سے ملک و قوم کو کیا نقصان ہورہا ہے۔
 مریم نواز ہو،محسن داوڑ یا کالعدم جماعت، کوئی بھی آئین و قانون سے بالاتر نہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہر صورت قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے۔ اگر ایک فریق معاملات کو فراست اورتدبیر کے ساتھ حل کرنے کی توقع کررہاہے تودوسرے سے بھی اسی سلوک کی توقع کرتا ہے کیونکہ وطن عزیز تو پہلے ہی لہولہو ہے۔ آج ہم جس آزاد ملک میں تمام حقوق اور مراعات کے ساتھ سانس لے رہے ہیں تو یہ پاکستان کا ہم پر احسان عظیم ہے ہم مر کر بھی اس کا یہ احسان بھی اتار نہیں پائیں گے اس لئے ضروری ہے کہ وہ لوگ جو پاکستان اور اس کے اداروں سے خوش نہیں اور ملک دشمن طاقتوں کو رام کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں ان کو چاہیے کہ وہ اپنے انہی ’’دوستوں‘‘ کے پاس چلے جائیں اور ہمارے ملک کا امن و امان خراب نہ کریں۔
وزیراعظم عمران خان جو ہر وقت قانون اور قانون کی عملداری کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے، کو بھی اب صحیح معنوں میں ریاست کی سلامتی کے لئے بولڈ فیصلے کرنے میں اب لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں کرنی چاہیے اور ان ملک دشمن عناصر کو پوری قوم کے سامنے شواہد کے ساتھ بے نقاب کرنا چاہیے۔ وقت آگیا ہے کہ پانامہ کیس کے والیم 10کو اب کھول دیا جائے تاکہ عوام صحیح اور غلط کا خود فیصلہ کرسکیں، یہی وقت کی پکار ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author