حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخر ملک کی دفاعی لائن "جی ٹی روڈ” گیارہ دن اور نو گھنٹے بعد کھول دی گئی۔ دھرنا کم لانگ مارچ کے کچھ شرکاء مفتی منیب الرحمان کے خطاب کے بعد واپس لوٹ گئے باقی ماندہ نے وزیرآباد میں جی ٹی روڈ کے قریب واقع ایک پارک میں ڈیرے ڈال لئے ہیں یہ معاہدہ پر پچاس فیصد عمل ہونے تک وہیں مقیم رہیں گے ۔
ریاست اور کالعدم ٹی ایل پی کے درمیان ہوئے معاہدہ پر پچاس فیصد عمل درآمد ایک ہفتہ میں ہونا ہے ۔ ابتداء ہو چکی گزشتہ شب لانگ مارچ والوں کے ترجمان نے تصدیق کی کہ ان کے ایک ہزار سے زائد کارکنان کو رہا کردیا گیا ہے ۔ سوموار کو معاہدہ کی نگران کمیٹی کا لاہور میں اجلاس منعقد ہوا۔ کمیٹی کے سربراہ علی محمد خان کہتے ہیں معاہدہ پر عملدرآمد کا طریقہ کار وضع کر لیا گیا ہے ، لانگ مارچ والوں نے جی ٹی روڈ خالی کردی ہے لیکن اس جرنیلی سڑک کی حالت پتلی ہے ۔
وزیر آباد سے آگے کئی جگہ پر خندقیں کھودی گئی تھیں پلوں کی سائٹس توڑ کر کنٹینر پھنسانے کے علاوہ بعض مقامات پر دیواریں اٹھا کر ان میں مٹی بھری گئی ۔ نرم سے نرم الفاظ میں یوں کہہ لیجئے جی ٹی روڈ کے لگ بھگ تین سو کلو میٹر کے علاقے میں جنگی بنیادوں پر دفاعی انتظامات تھے ۔ اسلامی دنیا کی اولین ایٹمی طاقت چند ہزار مظاہرین کے سامنے بے بس رہی۔
آپ حکومت کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اس نے وزیر داخلہ اور وزیر مذہبی امور پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی بنائی لیکن مذاکرات وزیر خارجہ ‘ سپیکر قومی اسمبلی اور پارلیمانی امور کے وزیر مملکت نے کئے ۔ معاہدہ بھی اسی کمیٹی نے کیا جو اچانک بنی۔
معاہدہ کے وقت حکومت کہاں کھڑی تھی؟ فقیر راحموں کہتے ہیں ”اسپغول تے کج نہ پھرول” کالعدم مذہبی تنظیم کی طرف سے ضامن بننے والے مفتی منیب الرحمان کی تین گفتگوئیں بہت اہم ہیں پہلی انہوں نے وزیر خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کی۔ دوسری لانگ مارچ کے شرکاء سے وزیر آباد میں خطاب کے دوران۔ اور تیسری کراچی ایئرپورٹ پر ان تینوں گفتگوئوں کا نچوڑ یہ ہے کہ حکومت جھوٹی تھی اور ہے ۔ میڈیا فساد پھیلاتا ہے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا ہمارا تو مطالبہ ہی نہیں تھا۔
معاہدہ کیا ہے ؟
اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ سیلانی ٹرسٹ والے بشیر احمد فاروقی کے پاس تو معاہدہ کی تصدیق شدہ کاپی ہے لیکن وزیر داخلہ اور وزیر مذہبی امور کے پاس نہیں ہے ۔ خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
گیارہ دن اور نوگھنٹے کے دھرنا کم لانگ مارچ کے دوران پانچ پولیس اہلکار جان سے گئے ۔ مجموعی طور پر 310 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ۔ تین سے چار کارکنوں کی اموات کا دعویٰ لانگ مارچ والے بھی کر رہے ہیں۔
جوسوال اہم ہے اور اس کا جواب دینے سے پچھلے دو دن سے متعدد وفاقی وزراء کترا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے قانون کے تحت کالعدم قرار دی گئی جماعت کی عمومی حیثیت کیامحض ایک نوٹیفییکشن سے بحال ہوجائے گی۔
ضمنی سوال یہ ہے کہ تنظیم کے سربراہ کے خلاف 90 سے زائد مقدمات ہیں ان کا کیا ہو گا؟ یہ مقدمات قتل ‘ اقدام قتل ‘ بلوہ ‘ جلائو گھیرائو اور دہشت گردی کی دفعات پر درج ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کی گرفتاری کسی مقدمہ میں نہیں ڈالی گئی نظر بندی کے احکام تھے لوگ جس بات پر حیران ہیں اور انہیں اپنے سوال کاجواب نہیں مل رہا وہ یہ ہے کہ وزیر خارجہ والی کمیٹی کس نے قائم کی؟
ویسے اس کا جواب مفتی منیب الرحمان اور مولانا بشیر احمد فاروقی کی گفتگوئوں میں موجود ہے ۔ اس کمیٹی کے پس منظر میں معروف سرمایہ کار عقیل کریمی ڈھیڈی ‘ مفتی منیب الرحمان اور بشیر احمد فاروقی کی آرمی چیف سے ملاقات کارفرما ہے ۔
ایک عامل صحافی کے طور پر میں اس اطلاع پرقائم ہوں کہ حکومت کو چلیں یوں کہہ لیں کہ وزیر اعظم اور ان کی مذاکراتی کمیٹی کے دو وزراء کو معاہدہ کا علم پریس کانفرنس نشر ہونے سے ہوا ‘ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والے علماء و مشائخ میں سے جو بارہ رکنی کمیٹی مذاکراتی کمیٹی بنی تھی اس کا دور دور تک پتہ نہیں وہ کہاں تھی اور کہاں ہے ۔
مفتی منیب الرحمان اچانک میدان میں اترے اور اگلے 29گھنٹوں میں معاملات طے پا گئے ۔
اب ذرا ماضی میں چلئے کالعدم مذہبی تنظیم کا یہ چھٹا دھرنا کم لانگ مارچ تھا ‘ بنیادی مطالبہ ہمیشہ یہی رہا کہ فرانس کے سفیر کو نکالا جائے ۔ 2018ء سے اپریل 2021ء کے درمیان کل چار معاہدے ہوئے ان چاروں میں یہ مطالبہ درج ہے اور اپریل میں حکومت نے اس معاملے کو پارلیمان میں لیجانے کا وعدہ کیا ۔
قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے میانوالی سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر امجد نیازی کی اس ضمن میں تحریک موجود ہے ۔ پہلے پی ٹی آئی نے بطور حکومت اس کی حیثیت تسلیم کی بعد ازاں کیا کہا یہ ایک رکن قومی اسمبلی کی نجی تحریک ہے ۔
سوال یہ ہے کہ مفتی منیب الرحمان نے کیسے کہہ دیا کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبہ کے حوالے سے وزراء اور میڈیا جھوٹ بول رہا ہے۔ سعد رضوی اور ان کے مرحوم والد مولانا خادم حسین رضوی کی تقاریر کے درجنوں کلپس موجود ہیں اچھا اگرحکومت اور میڈیا جھوٹ ہی بول رہے ہیں تو کالعدم تنظیم نے تب تردید کی کہ جو بات یعنی مطالبہ ہم سے منسوب کیا جارہا ہے وہ ہم نے کیا ہی نہیں؟
انہوں نے تو باقاعدہ فرانسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی تھی پچھلے پانچ دھرنوں اور لانگ مارچوں کو چھوڑیئے یہ گیارہ دن اور نو گھنٹے وسطی پنجاب کس خوشی میں یرغمال رہا ؟
کیا اس بار مطالبہ فقط تنظیم کے سربراہ اور کارکنوں کی رہائی ‘ مقدمات کا خاتمہ اور کالعدم والی پابندی اٹھانے کا تھا؟
لاہور عید میلاد النبیۖ والے دن جب یہ لانگ مارچ شروع ہوا اور اس سے قبل کے مقامی سطح کے دھرنے کے دوران کی تقاریر اور مفتی منیب الرحمان کے الزام میں مطابقت نہیں ہے ۔ یہ درست ہے کہ طاقت کا استعمال کوئی حل نہیں۔ لیکن طاقت کے استعمال میں پہل کس نے کی؟ ۔
معاف کیجئے گا بات تلخ ہے لیکن ریاست اور کالعدم تنظیم کے درمیان مفتی منیب الرحمان کی ضمانت سے ہوا معاہدہ اس نظام اور قانون کی بے توقیری کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس سے زیادہ بے توقیری کیا ہوگی کہ معاہدہ کی کاپیاں بشیر فاروقی ‘ کالعدم تنظیم اور ریاستی کمیٹی کے پاس تو ہیں وزیراعظم ہائوس ‘ وزیر داخلہ اور مذہبی امور کی وزارت اس کے مندرجہ جات سے لاعلم ہیں۔
یہ دعویٰ سنی سنائی نہیں مستند ہے اس وقت جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں یہی صورتحال ہے اور تحریر نویس اس وقت تک کے لئے اپنی بات پر قائم ہے ۔
مفتی صاحب اور بشیر فاروقی کہہ رہے ہیں معاہدہ ریاست کی کوششوں سے ہوا آرمی چیف کا اس میں سو فیصد کردار ہے ۔ ہم دس دن تک معاہدہ کے مندرجات پر بات نہ کرنے کے پابند ہیں۔ یہ کیسی باتیں ہیں۔ مکرر عرض ہے تصادم کا حامی کوئی بھی نہیں تھا مگر جس طرح معاہدہ ہوا اور جو کچھ معاہدہ کے بعد سے کیا جارہا ہے اس پر دو سوال ہیں۔
اولاً یہ کہ حکومت وقت کی حیثیت کیا ہے ‘ محض ڈاکخانہ کی اور اس منشی کی جس نے مالک کا حکم بجا لانا ہوتا ہے ؟
ثانیاً یہ کہ اگر احتجاج فرانسیسی سفیر نکلوانے کے لئے نہیں تھا تو کس لئے تھا اور پھر کیوں جانی اور مالی نقصان کروایا گیا؟
حرف آخر یہ ہے کہ عوام گو کہ یہ 74 برسوں سے رعایا ہی ہیں لیکن یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ معاہدہ کے 9 یا 13 نکات کیا ہیں اور یہ کہ اس کی پردہ پوشی کیوں کی جارہی ہے؟۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر