گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
۔ ۔
سلطان باہوؒ نے اپنے کلام میں جھیڑے کا لفظ استعمال کیا تو بعض دوستوں نے اس کا مطلب پوچھا۔ سلطان باہو کا شعر ہے ؎
دل دریا سمندروں ڈوھنگے کون دلاں دیاں جانے ہُو۔۔۔
وچے بیڑے وچے جھیڑے وچے ونجھ مہانے ہو۔۔
جھیڑہ در اصل عورتوں کےدرمیان عام طور پر زبانی لڑائ کی جنگ ہوتی ہے جس میں زبان کے میزائیل سے دشمن کو مارا جاتا ہے۔گالیاں ۔طعنے ۔مینھڑیں۔ بڑائ اور کبھی مار کٹائ تک نوبت آ سکتی ہے۔
ہمارے ایک محترم بزرگ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بات اپنے ہندو دوستوں کو ملنے دلی انڈیا گیے۔ وہ ان کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہندو ڈیرہ والوں کے محلے پہنچے تو گلی کی دونوں جانب سے ڈیرہ وال ہندو عورتوں کے درمیان جھیڑہ شروع تھا۔یہ وہاں خاموش کھڑے سنتے رہے اور سرائیکی زبان کو کنفرم کر لیا ۔پھر زور سے عورتوں کو کہا ۔۔۔
مرو میں ڈیرہ اسماعیل خان اچوں تہاکوں ملنڑ آیا کھڑاں ۔تساں جھیڑا لئی کھڑیاں وے۔۔۔
بس جی پھر سب چپ ہو گیے اور مہمان کے اوپر الٹ پڑے جھیڑا ختم اور خوشی سے باغ باغ ہو گیے۔
ایک گاٶں میں دو عورتیں چھت پر جھیڑہ لگا کے کھڑی تھیں۔۔ ایک شخص گھر آیا تو اس کی بیوی چھت پر پڑوسن سے جھیڑے میں مشغول تھی۔اس نے عورت سے نیچے اترنے اور کھانا دینے کا کہا۔۔عورت نے کہا میں ایک شرط پر کھانا پکاتی ہوں تم چھت پر آجاو اور اس عورت سے جھیڑا جاری رکھو تاکہ جنگ کا تسلسل نہ ٹوٹے ۔خیر مرد کو بھوک لگی تھی وہ چھت پر گیا اور دیکھا تو دوسری عورت غایب ہو گئ کیونکہ مرد سے جھیڑا کیسے لگاتی۔
واپس بیوی کو آ کر بتایا دوسری عورت شکست کھا چکی ہے یوں کھانا ملا۔
اب یہ رسم تقریبا” ختم ہو چکی ہے۔یا شاید کہیں موجود ہو۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر