حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
9یا 13نکاتی معاہدہ بالآخر ہو ہی گیا۔ بزرگ عالم دین مفتی منیب الرحمن نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی و دیگر حضرات کے ہمراہ پریس کانفرنس میں تن اہم باتیں کیں، اولاً یہ معاہدہ مذہبی تنظیم کے سربراہ سعد رضوی کی رضامندی سے ہوا ہے۔ ثانیاً معاہدہ پر عملدرآمد کی نگرانی کے لئے وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ ثالثاً معاہدہ کی تفصیلات مناسب وقت پر سامنے لائی جائیں گی۔
یہ بھی کہا گیا کہ ’’یہ ایسا معاہدہ نہیں کہ دوپہر کو ہوا اور شام کو ختم ہوگیا‘‘۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ مذہبی تنظیم کے تین بنیادی مطالبات ہیں (گو ان کا گزشتہ کالم میں ذکر کرچکا) اولاً سعد رضوی اور دیگر گرفتار شدگان کو رہا کیا جائے۔ ثانیاً تمام مقدمات واپس لئے جائیں۔ یاد رہے تمام مقدمات کی بات ہے۔ثالثاً فورتھ شیڈول میں شامل افراد کو فوراً اس فہرست سے نکالا جائے۔ تین، نو یا تیرہ نکات میں اس بنیادی مطالبے کا کہیں ذکر نہیں بلکہ اس پر اتفاق کرلیا گیا کہ اس حوالے سے پارلیمنٹ جو فیصلہ کرے گی وہ منظور ہوگا۔
بزرگ عالم دین مفتی منیب الرحمن اس امر کے ضامن ہیں کہ مذہبی تنظیم مستقبل میں تشدد، دھرنوں اور لانگ مارچ کی بجائے پرامن مذہبی سیاسی جماعت کے طور پر کام کرے گی۔
ظاہر ہے یہ گارنٹی بلاوجہ نہیں اب اس سوال پر غور کیجئے کہ حکومت نے تو وزیرداخلہ اور مٓذہبی امور کے وزیر پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی بنائی تھی۔ 31رکنی علما و مشائخ کے وفد نے انہی دو وزراء کی کوششوں سے وزیراعظم سے ملاقات کی اور اس میں 12رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل پائی لیکن معاہدہ میں وزیر داخلہ، وزیر مذہبی امور اور 12رکنی کمیٹی دور دور تک دیکھائی نہیں دیئے۔
جس کمیٹی نے مٓذاکرات کئے وہ مخدوم شاہ محمود قریشی، قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر، وزیر مملکت علی محمد خان پر مشتمل تھی۔ وزیر خارجہ کے بقول یہ ذمہ داری انہیں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سونپی گئی۔ ایسا ہی ہے تو پھر وزراء کی اس دو رکنی کمیٹی کی کیا حیثیت تھی؟
کیا وزراء کالعدم مذہبی تنظیم سے مذاکرات کرنے اور محفوظ راستہ فراہم کرنے پر دو حصوں میں تقسیم تھے۔ کیا خود علماء میں بھی سوچ اور طریقہ کار کا اختلاف تھا؟
دو حصوں پر مشتمل یہ سوال اہم ہے لیکن فی الوقت اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ لیجئے۔ معاہدہ ہوگیا، اس کے اعلان کے وقت بھی وزیر داخلہ اور مذہبی امور کے وزیر موجود نہیں تھے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی نے علماء کمیٹی میں شامل شخصیات کا ذکر ضرور کیا مگر مفتی منیب الرحمن کے ساتھ متعلقہ مذہبی تنظیم کی شوریٰ کے دو رکن براجمان تھے۔ ان کے پیچھے والی نشست پر مفتی بشیر فاروق بیٹھے تھے۔ سماجی خدمت کے ایک ادارہ کے سربراہ مفتی بشیر فاروق اس تین رکنی وفد میں شامل تھے جس نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہفتہ کو ہی ملاقات کی تھی۔
نئی مذاکراتی کمیٹی میں مخدوم شاہ محمود قریشی خانقاہی نظام میں اپنے مقام کی بدولت شامل تھے۔ اسد قیصر قومی اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے اور علی محمد خان پارلیمانی امور کے وزیر کے طور پر، یہ بظاہر زیادہ بااختیار اور بااعتماد افراد کی کمیٹی تھی۔ قائم کس نے کی، مینڈیٹ کس نے دیا؟
ہمیں معاہدہ کے آم کھانے میں دلچسپی رکھنی چاہیے پیڑ گننے میں نہیں۔
البتہ مفتی بشیر فاروق کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ آرمی چیف کی کوششوں سے ہوا ہے۔ بہرطور معاہدہ ہوگیا۔ تصادم سے بچ رہے لیکن معاہدہ کیا ہے۔ 9یا 13نکات کیا ہیں اس میں اہم بات یہ ہے کہ وزیرآباد کے مقام پر لانگ مارچ کے شرکا کا دھرنا محدود ہوگا لیکن رہے گا۔
علی محمد خان کی نگرانی میں بننے والی کمیٹی کو ایک ہفتہ کے اندر اندر معاہدہ پر عمل کروانا ہے۔ اس پر 50فیصد عمل میں سعد رضوی کی رہائی شامل ہے۔ وہ نظر بند ہیں۔ ذرائع کہہ رہے ہیں کہ ان کی کسی مقدمے میں باضابطہ گرفتاری نہیں ڈالی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ نظر بندی کے خلاف عدالتی سماعت کے کسی مرحلہ میں سرکاری وکیل نے ان مقدمات کی فہرست عدالت میں پیش نہیں کی جن میں ان کا نام شامل ہے۔ اب نئی سماعت (اس تحریک کی اشاعت تک ممکن ہے ہوچکی ہو) کے وقت حکومت ان کی نظربندی پر زور نہیں دے گی۔
مفتی منیب الرحمن لانگ مارچ کے شرکا کی یہ خواہش ’’حکام‘‘ تک پہنچاچکے ہیں کہ اگر سعد رضوی کو رہا کردیا جائے تو وہ وزیرآباد میں موجود اپنے حامیوں سے خطاب کے دوران "پالیسی بیان” دیں گے۔ وہ پالیسی بیان جس کے ضامن بزرگ عالم دین مفتی منیب الرحمن ہیں۔ مذہبی تنظیم کو کالعدم قرار دینے کا نوٹیفکیشن وزارت داخلہ نے جاری کیا تھا۔
اس حکم کے اگلے مراحل عدالتی ریفرنس کے تقاضے پورے نہیں ہوئے اس لئے یہ پابندی ایک نئے آرڈر سے ختم ہوسکتی ہے۔ فورتھ شیڈول کے معاملے کا پنجاب کے وزیر قانون اور ہوم سیکرٹری جائزہ لیں گے۔ مقدمات کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ د ہشت گردی کے مقدمات کا عدالتیں فیصلہ کریں گی جبکہ چھوٹے موٹے مقدمات ختم کردیئے جائیں گے۔
یہ بھی مان لیا گیاہے کہ حکومت لانگ کے شرکاکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔
وزیر آباد میں جی ٹی روڈ کی ایک سائیڈ کھول دی جائے گی۔ یہاں ذہن میں رکھیں کہ ٹریفک کا فوری طور پر بحال ہونا ممکن نہیں کیونکہ آگے کچھ مقامات پر خندقیں کھودی گئی ہیں اور دیواریں بھی بنائی گئی ہیں انہیں بھرنے اور دوسری رکاوٹیں ہٹانے میں وقت لگے گا۔ کم از کم 24گھنٹے تو لازمی ہیں۔ معاہدہ پر عمل کی نگرانی کرنے والی کمیٹی میں مذہبی تنظیم کے 2نمائندے شامل ہوں گے۔
مفتی منیب الرحمن کہتے ہیں یہ پاکستان اور اسلام کی فتح ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کے بقول علماء نے ملک کو بڑے امتحان سے بچالیا۔ اسی طرح لانگ مارچ اور تشدد کا رزق بنے پولیس اہلکاران (آج ان کی تعداد 6ہوگئی ہے ایک زخمی لاہور میں دم توڑ گیا ہے) بھی شہید ہیں اور وہ کارکن بھی جن کے بارے میں تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ شہید ہوئے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جوش خطابت میں ویڈیو پیغامات کے ذریعے افواہوں کو آگے بڑھانے والے جیئد علماء دور دور تک دیکھائی نہیں دیئے۔
کہا گیا ہے کہ مذاکرات سنجیدہ ماحول میں ہوئے ہیں یہ بھی کہ پاکستانی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں بننے والا اسلحہ قوم پر چلانے کے لئے نہیں بلکہ دشمن کے لئے بنتا ہے۔
اس پر کچھ سوالات اٹھے ہیں بالخصوص قوم کی تعریف اور حدود اربعہ کے حوالے سے لیکن ان پر پھر کسی وقت بات کرلیں گے۔
یہ ذہن میں رکھئے کہ رینجرز تعینات رہے گی۔ گیارہ دن جی ٹی روڈ کی ملکمل بندش (گوجرانوالہ سے راولپنڈی تک) کا حاصل وصول کیا ہے؟
میری دانست میں اب اس پر بھی بحث غیرضروری ہے البتہ اس ساےر معاملے میں کچھ چیزیں ایسی ہوئیں جو بدلتے ہوئے حالات کا سندیسہ دیتی ہیں۔ خصوصاً مذاکراتی کمیٹیوں کے حوالے سے جو صورتحال بنی اس کا پیغام کچھ اور ہے۔
بہرطور معاہدہ ہوگیا اب امتحان حکومت یا ریاست کا نہیں بلکہ مذہبی تنظیم کی قیادت کا ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو اس معاہدہ کے حوالے سے جو ابھی ’’پوشیدہ‘‘ ہے کیسے مطمئن کرتی ہے اور یہ کہ کیا وعدوں اور معاہدے پر پھر جذباتیت تو غالب نہیں آجائے گی۔
آخری بات یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس مذہبی سیاسی تنظیم کی کارکردگی جی ٹی روڈ کی دوسری پارٹیوں کے لئے بھی مسائل پیدا کرے گی حالانکہ ان پارٹیوں کے ہمدردوں نے حالیہ لانگ مارچ کے دوران ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے مذہبی جذبہ کے تحت آگے بڑھ کر حصہ لیا۔
پسِ نوشت //
بزرگ عالم دین اور معاہدہ کے گارنٹر مفتی منیب الرحمٰن نے اتوار کی شب دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر معاہدہ کی پاسداری نہ ہوئی تو ہم پھر بھر پور قوت سے واپس آئیں گے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ