مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمریست کہ آواز منصور کہن شد (میرا منصور میرانی)|| حسن مجتبیٰ

“سپاہی لوٹ کر آجا، میں نے تو پریت لگائی نکلا تو ہرجائی” مالا کی آواز میں گانا بیگمانجی کےکھجور کے باغوں کے بیچ برستی بارش میں مٹی والے راستے پر چلتی کھٹارہ بس کے ٹیپ پر بج رہا ہے۔

حسن مجتبیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتہ نہیں کیوں منصور میرانی مجھے ایک آم کے درخت کی مانند لگا۔ جب جب بھی میں اسے گلے ملا مجھے یہی لگا۔ درخت بھی ایسا جو تمام باغ کی زینت ہوا کرتا ہے ( یہ کوئی کلیشے نہیں) ۔ آم کا وہ درخت جو اپنے موسم کے عروج پر ہوتا ہے۔ لہلہاتا، خوشبو دیتا، میوہ دار، کھٹا، میٹھا، جس پر کوئلیں چھپ کر برستی بارشوں میں کسے پکارتی ہیں، طوطے چہچہاتے ہیں، کوے انپر بیٹھ کر ساجن کے سندیسےلاتے ہیں، شاعر انکو چٹھیاں کیا اپنی آنکھیں پیا کو بھیجنے کی پیشکش کرتے ہیں۔ُ ہاں واقعی وہ ایسا ہی تھا۔ شاہ،لطیف بھٹائی نے ایسی ماحولیات کو “تاڑے کی تنوار’ کہا تھا۔
باغوں میں پڑے جھولے
تم ہم کو بھول گئے
ہم تم کو نہیں بھولے۔
وہ اس لیے کہ دوستوں نے مجھے بتایا تھا منصور میرانی جب اپنی بھرپور جوانی کے دنوں میں سکھر جیل میں قید تھا تو وہ اپنی اسیری کے دن آموں کے درختوں کی سنگت میں گذارتا تھا۔ وہ آموں کے درخت جو شیخ ایاز سمیت نہ جانے کیسے کیسے عظیم لوگوں نے لگائے ہونگے۔ حیدر بخش جتوئی سے لیکر میرے دوست زاہد مخدوم تک اسی جیل میں رہے تھے۔ اس کے ایک وارڈ کو قیدی کہتے ہی “جام ساقی وارڈ” تھے۔
منصور میرانی سے پہلی مرتبہ میں تب ملا جب وہ سکھر جیل سے چھوٹ کر آیا تھا اور امر لال اسے میرے گھر لے آیا تھا۔ اس دن میں اسکول سے گولی ہوا تھا۔ ریاضی کے پرچے کی جوابی کاپی پر میرے استاد نے طنزن سرخ رنگ کے پین سے بڑے حروف میں لکھا تھا “انقلاب”۔ اور۔ یہ بھٹل یعنی قائدعوام ذولفقعار علی بھٹو کا بھرپور دور تھا۔ مجھے اور میرے دوست مظفر ڈہر کو قومپرستی کا سستا اور سخت ڈوز آیا ہوا تھا ۔سندھی ٹوپی اور اجرک پہن کر ہم اسکول اسمبلی سے قومی ترانے کا بائیکاٹ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے اور ہیڈ ماسٹر ہمیں رسٹیکیشن کی وارننگ دے چکا تھا۔ سلیس اردو کی کلاس کا ہم بائیکاٹ کر چکے تھے۔ اردو ہمیں پڑہنی نہیں تھی اور قلندر “غیر ملکی جاسوس”تھا۔ جیسا کہ سائیں گویا قلندر سے الیکشنز میں کھڑا ہوا تھا۔ امر جلیل کی کہانی تک قلندر کے خلاف لکھی ہوئی تھی۔ “سر مار ٹیمروھیلر اور قلندر”۔ ایسے خناس بچپنے میں میری ملاقات منصور میرانی سے ہوئی۔ منصور کچھ کاپیاں جام ساقی کی تب تازہ شایع کتاب “سندہ جی شاگرد تحریک” (سندہ کی طلبہ تحریک) بھی اپنے ساتھ لے آیا تھا۔
کل میرا ایک معشوق من دوست مجھ سے کہہ رہا تھا ہر محبت اپنے ساتھ ایک گانا لے آتی ہے۔ تو جب منصور میرانی سے میری ملاقات ہوئی تب مکیش کا نیا گانا “ آ لوٹ کے آجا میرے میت تجھے میرے گیت بلاتے ہیں” آیا تھا۔ یہ استاد منظور علی خان، محمد یوسف کا دور اور غلام علی کے عروج کا دور تھا اور عابدہ پروین کی نوخیز جوانی۔ رونا لیلا کے طالب المولا کے گائے ہوئے توا ریکارڈ ہوٹلوں پر بجتے تھے۔ عابدہ پروین درگاہوں اور زنانہ مجلسوں سے اب کالجوں میں یوم لطیف اور سندھی شاموں میں آنے لگی تھی “ صاحب ساری سندہ تے بادل برسائینس مصری ملائینس کھںڈ وانگر کھیر ساں” سندھی کافیوں کا امام مصری شاہ ٹنڈو الہہ یار میں مزار رکھتا ہے جہاں سے وتایو فقیر اور نذیر عباسی اور خورشید قائم خانی آئے ہیں۔ رازق ڈنو سنارہ، فضل احمد بچا ی اور ایاز پاٹولی تھے۔
منصور کیساتھ ایک ساون میں تمام سندہ پھرا بھٹکا اور چھانا تھا۔ ایک امریکی جینز اور ایک میرے دوست الیاس شاہ سے ادھار لی ہوئی ٹی شرٹ میں۔ اور اس جینز کے پچھلی جیبوں میں پا کیٹ سائیز کتاب مختار با چہ کی “مزدور کسان پارٹی کا اصلی چہرہ”، بھگت سنگھ اور اسکے ساتھی” اور “چٹ گائوں کے انقلابی” ۔شکارپور، گڑہی یاسین، مدئجی۔ جی ٹی ایس کی بس اور مسافر اتر واکر کر پیدل پل پار کرتے ہوئے۔ روہڑی سکھر
“سپاہی لوٹ کر آجا، میں نے تو پریت لگائی نکلا تو ہرجائی” مالا کی آواز میں گانا بیگمانجی کےکھجور کے باغوں کے بیچ برستی بارش میں مٹی والے راستے پر چلتی کھٹارہ بس کے ٹیپ پر بج رہا ہے۔
منصور نے ہی مجھے خیرپور میرس سے ملوایا۔ بچل شاہ محلے سے، کربلا سے، خیرپور اور کوٹ ڈجی کے محرموں سے،شاندار پبلک لائبریری سے
علی مطاہر جعفری اور علی اسلم جعفری ، غلام عباس بنبھرو ، سرمد کے گھر ڈاکٹر تنویر عباسی سے، خود کو دروازہ باہر سے بند کروائے ہوئے شطرنج کھیلتے اور پائیپ پیتے ولی صدیقی سے، فرید بھٹو اور قیوم شیخ سے، لالا اسد شیخ اور نذر گاہو سے، سکھر میں حسن حمیدی اور انکی بیگم نکہت حمیدی سے، اور سید شاکر شاہ سے- سکھر میں ہی مرغوب راحت اور رحیم بخش جعفری سے۔ پیر گوٹھ درگاہ۔ صادق گھر و، خان گھمرو
لالا شاہ محمد درانی، مختیار ملک اور رمیش ناگرانی سے، غوث بخش خاصخیلی سے، خیرپور ریلوے اسٹیشن پر چائے کے اسٹال،چلانے والے ساتھی حمید سے ،نیشنل بوک اسٹال
کے شکور بھائی سے۔ کٹ!
اور میرے محبوب دوست امداد چانڈیو سے
۔ (سین بدلتا ہے)
“یونہی سنگ سب سمیٹ لو” شاید یہ انقلابی فلمی گانا تھا جسکی طرز پر منصور اپنی شاعری گا رہا ہے “ یہ جنگ جو تم نے فتح کی یہ جنگ گو تو میری ہے” یہ جو لاش ہے گری ہوئی یہ،الش گو کہ میری ہے”۔ کمبوڈیا اور وییٹنام۔ بلوچستان تک آگ لگی ہوئی تھی۔ سکھر بھی گرمی کی آگ برسا رہا تھا، ایسی اپریل کی ایک تپتی دوپہر میں اس معصوم شاہ کے منارہ کے سامنے والی سڑک کے اس پار گورنمنٹ ہائی اسکول سے زیادہ دور نہیں ایک نالے پر بنے ڈی ٹائیپ مفلوک حال ایک کمرہ کے کوارٹروں میں سے ایک میں زاہد مخدوم کی آواز گونجتی ہے ٹیبل کو طبلہ کرتے ہوئے “ دل میں اب یوں تیرے بھولے ہوئے غم آتے ہیں، جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں”۔ اور پھر شیخ یاز کا امر گیت “ مانڈوہی ہاں ماں ڈوہی ہاں”۔
کوئی جرم نہیں اس دھرتی پر
میں نے دل کا گرجا جوڑا ہے
تونے نفرت کی دیوار اٹھائی
میں نے بنیاد اسی کی اکھوڑی ہے
ابھی زاہد مخدوم اپنے گاتے گیت کی ان سطروں پر پہنچتا ہے تو کمرے کے دروازے پر کھٹ کھٹ کے بعد دروازے کے پردے سے کسی ڈرامے کے سین کی طرح ایک پولیس انسپیکٹر اور سپاہی کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ انسپیکٹر سیدھا زاہد سے نام پوچھتا ہے اور دیوار پر ٹنگے ہوئے کپڑوں کے جوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے یہ تمہارا جوڑا ہے نہ! پہنو۔ اور وہ پھر وہ ہم سب کو کوارٹروں کے احاطے میں کھڑی پولیس جیپ ایران شہباز (یہ جیپیں بھٹو حکومت کو شہنشاہ ایران نے دی ہوئی تھیں۔ پولیس جیپیں، قلندر کے مزار پر سونا دروازہ اور بلوچستان میں فوجی کوبرا ہیلیکاپٹر) میں سوار کراتے ہیں، منصور میرانی، زاہد مخدوم، ، پہلوان مہیسر، امر لال، عنایت لانگاہ(کڑیل جوان جسے بعد میں قبائلی دشمنی میں باگڑجی کے پاس قتل کردیا گیا) ۔
رقصِ مے تیز کرو ، ساز کی لے تیز کرو
سوئے مے خانہ سفیرانِ حرم آتے ہیں۔
اے سیکشن پولیس اسٹیشن پر ضروری کاغذی کاروائی کے بعد وہ زاہد مخدوم کو لاکپ کر کر ہم دیگران کو جانے دیتے ہیں۔ زاہد مخدوم کیساتھ لاکپ کے سلاخوں کے پار ہماری اسے پہنی ہوئی جھپی ادھوری رہی تبتک جبتک اٹھارہ ماہ بعد کراچی کے شیرشاہ مہاجر کیمپ کے جلسے میں ہم پھر نہ ملے ملے۔ سلسلہ وہیں سے جڑا جہاں سے ٹوٹا تھا جہاں زاہد مخدوم انگریزی ترجمے کیساتھ پڑہ رہا تھا” ہی سنگرام سامھوں نارائن شیام”۔ کراچی کی وہ رات جب میں اور منصور میرانی گل بائی کے پاس میر منور تالپور کے فلیٹ پر رکے تھے۔ جہاں امر لال خادم علی شاہ سومرو بن کر ٹھہرا ہوا تھا۔

%d bloggers like this: