نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صوفی اور سورما موت سے نہیں ڈرتے!! ||رانا محبوب اختر

ایک یکتائے روزگار شخص کارونجھر جبل کے دامن میں اپنے گھر کے بیرونی صحن میں گوندی ، بیری ، جال کے درختوں کے بیچ چارپائی پر تنہا بیٹھا تھا کہ جو یکتا ہے، وہ تنہا ہے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پاکستان کا سندھ حسین ہے۔ کارونجھر سندھ کو حسین تر بناتا ہے۔ جمادات ، نباتات، حیوانات، چرند پرند اور انسان ایک تسبیح میں پروئے دانوں کی طرح ہیں۔ قدرتی ماحول کے ربط سے زندگی قائم ہے۔ انسان کے بارے میں فرشتوں نے خالق سے کہا کہ یہ زمین میں فساد پھیلائے گا۔ آج فسادی آدمی کے پاس اپنے گولے کو تباہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کولونیل ازم کی چار صدیاں امریکہ کے ریڈ انڈینز، آسٹریلیا کے زمیں زادوں ، نیوزی لینڈ کے مااوریوں، افریقہ کے غلاموں اور ایشیائی مظلوم قوموں کی داستانوں سے بھری ہیں تو دوسری طرف ترقی کے ناقابل ِیقین سفر سے دنیا حیرت کدہ ہے ۔ڈاکٹر علی شریعتی انسان کو مارکسی لنگو میں dialectical being کہتے تھے۔ کارپوریٹ کیپیٹل ازم کے شکار پوسٹ ماڈرن انسان کو ، ماحول اور ترقی میں توازن برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ نوح ہراری، مستقبل میں ماحولیاتی تباہ کاریوں کو کرہ ارض کے لئے بڑا خطرہ بتاتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ قدرتی ماحول کی رنگا رنگی انسانیت کے بقا کی ضامن ہے جبکہ سرمایہ دارانہ سامراج منافع کی یک رنگی کا اسیر ہے۔ سامراجی گماشتے ریاستی قوانین کا چولا پہن کر ماحول کو تباہ کرتے ہیں ۔آزادی کے نام پر corporate slaveryقائم کرتے ہی ہیں ۔ضلع تھرپارکر کی تحصیل ننگر پارکر کا گلابی کارونجھر جبل، سندھ کا حسن اور پاکستان کا وہ دفاعی مورچہ ہے جسے 1988 سے توڑا جا رہا ہے!
ایک یکتائے روزگار شخص کارونجھر جبل کے دامن میں اپنے گھر کے بیرونی صحن میں گوندی ، بیری ، جال کے درختوں کے بیچ چارپائی پر تنہا بیٹھا تھا کہ جو یکتا ہے، وہ تنہا ہے۔ رانا رتن سنگھ اور روپلو کولہی کے دیس کا آدمی میٹھی اردو اور سندر سندھی میں بات کرتا تھا۔ کارونجھر جبل کا عاشق اور شاعر خلیل کمبھار سنتا تھا۔ شاعر رفعت عباس حیرتی تھا اور ایک یاتری ڈائری کے پنے پر اس کی باتیں لکھتا تھا۔اس کے موتیوں سے لفظ میرے قلم کی سیاہی سے میلے ہوئے جاتے تھے۔ 26 اکتوبر ، 2021کے سورج کی کرنیں کارونجھر کے گرینائیٹ کا گلابی چہرہ چوم کر آتی تھیں۔ سورج کے سامنے ایک "نگارِآتشیں” کا سر کھلا تھا۔گلے میں رومال روشنی کا ہالے کی طرح تھا۔ غیر معمولی آدمی نے معمولی شلوار قمیض پہنی تھی ۔ لگ بھگ پانچ فٹ نو انچ کے قد اور ساٹھ سال کی عمر کے آدم کی قامت میں کارونجھر کی قدامت تھی ۔ اسے کوئی خوف نہ تھا۔ یہ صوفی منش آدمی کارونجھر کا سورما ہے۔ صوفیوں اور سورماؤں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے۔وہ موت سے نہیں ڈرتے! صوفی کی موت، وصل ہے۔ سورما، موت سے امر ہے۔ خوف اور حزن خدا کے دوستوں سے دور رہتے ہیں۔ کل ایک صوفی سورما، شاہ عنایت نے فقراء کی فوج کے ساتھ مغلوں اور کلہوڑوں کو شکست دی تھی۔ پھر اسے دھوکے سے شہید کیا گیا تھا ۔آج ننگر پارکر میں ایک بے خوف فقیر ، اللہ رکھیو کھوسو پہاڑ کاٹنے والوں کے خلاف جبل کی زبان بولتا تھا۔
اس نے کہا کہ ننگر پارکر کا کارونجھر، پاکستان کے صوبہ سندھ اور انڈیا کی دو ریاستوں ، راجستھان اور گجرات کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ 19 کلومیٹر طویل اور کہیں 305 میٹر تک اونچا ہے۔ چوڑیو سے کارونجھر تک تمام مذاہب کے 108 تیرتھ اور مقدس مقامات ہیں۔ ساردھرو میں شِو راتڑی کے تہوار پر سالانہ دو لاکھ انسان جمع ہوتے ہیں۔ وہاں پانی کا تالاب ہے جہاں غریب ہندو اپنے پیاروں کی راکھ بہاتے ہیں۔ امیر، گنگا جاتے ہیں۔جن کے پاس گنگا میں راکھ بہانے کے وسائل نہیں ہوتے وہ ساردھرو آتے ہیں ۔ لفظ چوڑیو ، چوڑی سے ہے ۔ ممتا سے ممتاز تریمتائیت کے ہاتھ سفید چوڑے اور رنگین چوڑیوں کی قوسِ قزح سے یہاں روشن ہیں ۔چوڑیو میں ایک چٹان کے نیچے درگا دیوی ایک عورت کی صورت بیٹھی ہے۔ نو رتڑی کے روزے اور پوجا ہوتی ہے۔ چشمے زندگی کو سیراب کرتے اور موت کو غسل دیتے ہیں۔ نایاب جنگلی حیات کی نمو کرتے ہیں۔ کارونجھر میں چراغ یا جھرک نام کا ایک نایاب جانور ہے جو گدھے کا شکار کرتا ہے! حیرت ہے کہ سندھ کی حکومت بھی گدھے کا شکار کرنے والے چراغ کا گھر گراتی ہے۔ ہرن ، نیل گائے، بڑے چمگادڑ اورگِدھ ہیں ۔ وہاں بے شمار مور ہیں جن کو موہنے مقامی نہیں مارتے ۔ایسے درخت ہیں جو پاکستان میں اور کہیں نہیں پائے جاتے۔ کڑایو ، تیندور اور کئی قسم کی جڑی بوٹیاں ہیں جو مقامی لوگوں کے میڈیکل سٹورز ہیں۔کڑایو کا gum جوڑوں کے درد کے لئے اکسیر ہے ۔ پہاڑ میں ایسی گھپائیں ہیں جن میں ہزاروں لوگ بیٹھ سکتے ہیں۔ رانا سر اور چندن گڑھ ہیں ۔ اللہ رکھیو بولے جا رہا تھا جیسے اس کے نطق میں غیبی طاقت آگئی ہے پھر اس نے مستی میں سر سارنگ سے پارکر کے بارے میں شاہ بھٹائی کا بیت سنایا کہ ” ڈھٹ سے بارش سر اونچا کرکے پارکر کے میدان میں برسی، سارے تالاب بھر گئے اور پانی تالابوں سے باہر نکلتا تھا”۔ یاتری نے ایک بار پارکر میں اس بیت کی تفسیر دیکھی تھی۔
گلابی رنگ کا یہ پہاڑ مقامی لوگوں کی زندگی ہے۔ کارونجھر میں چھبیس ارب ٹن گلابی، سفید اور سرمئی پتھر کا ذخیرہ ہے۔ ان پتھروں کی قیمت اربوں ڈالرز میں ہے۔ جبل کی دولت مقامی آدمی کا عذاب بن گئی ہے کہ سرمایہ دار مقامی آدمی کی تاریخ، ثقافت ،تہذیب اور معیشت سے بے خبر پہاڑ کو توڑ کر بیچنا چاہتے ہیں۔ سرمائے کا ایمان منافع ہے ۔پہلی بار اس پہاڑ کو کاٹنے کی لیز 1988 میں پیار علی الانا کی کمپنی پاک راک کو دی گئی۔ الانا کا نام سن کر یاتری چونکا تھا۔ 1990 میں کوہ_ نور کمپنی پہاڑ توڑتی تھی۔ مقامی لوگ سرگوشیوں میں بتاتے ہیں کہ اب یہ کام ایف ڈبلیو او کے پاس ہے۔ اللہ رکھیو کھوسو کی پٹیشن سندھ ہائی کورٹ کے حیدر آباد بینچ میں زیر سماعت ہے۔ کچھ روز پہلے سندھ حکومت کی ایک کمیٹی ننگر کے لوگوں کے تحفظات سننے آئی تھی ۔ ایم پی اے، قاسم سراج سومرو سمیت یہ سب لوگ سندھ کے بیٹے تھے۔ سندھی میں میٹھی بات کرتے تھے۔ بے بسی مگر ان کی باتوں سے عیاں تھی۔ افسر کا آزار یہ کہ وہ طاقتور کا غلام اور غلام کا بادشاہ ہے۔ ظلی طاقت کا نشہ کرتا ہے ۔کارپوریٹ غلامی کی عالمی جکڑ بندی میں شعوری یا غیر شعوری طور پر طاقت کا ساتھ دیتا ہے اور قرنوں میں کہیں کلیم اللہ لاشاری کے روپ میں چمکتا ہے۔افسروں کے لئے پتھر اللہ رکھیو کھوسو اور ہم وطنوں سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔کھوسو کا کمیٹی کے ممبران سے خطاب شیکسپیئر کے مارک انتھنی کے خطاب سے موثر تھا۔اس نے کمیٹی کے ممبران کو سائیں یعنی آنر ایبل کہا تھا ۔ اس کی باتیں ہیملٹ کے خطاب سے بھی زیادہ دلگیرتھیں کہ وہ ہونے یا نہ ہونے کی الجھن سے ماورا "ہونے”، ” ہستی” اور ” being” کی بات کرتا تھا۔ اس نے کہا” میرے سائیں، کارونجھراور اس سے منسلک پہاڑیاں نہ ہوں تو کوئی جاندار تو کیا نباتات بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ کارونجھر رن آف کچھ کے گھیرے میں ہے۔ یہ ساڑھے پانچ یونین کونسلوں کا علاقہ ہے۔ نیچے کا پانی نمکین ہے۔ ہمیں پینے کا پانی پہاڑیوں سے ملتا ہے۔بیراج سے آنے والے پائپ کے پانی کا ایک قطرہ ہمیں نہیں ملتا۔ لوگ سڑکوں پر جنازے رکھ کر احتجاج کرتے ہیں۔ لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اور مویشی ہیں۔پچھلے سال یہاں پیاز کی فصل ایک ارب روپے کی ہوئی تھی (پھلکارو بیج والا سفید پیاز نایاب ہے)۔ آپ چند ارب ڈالرز کے لئے صدیوں تک لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم کر رہے ہیں”۔ اس نے پوری تقریر ایک مسافر اور دو شاعروں کو سنا دی تھی:
دو حرف تسلّی کے جس نے بھی کہے، اُس کو
افسانہ سُنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی
آدمی نے صدیوں دھرم میں لپٹے پتھروں کی پوجا کی ہے ۔ اب پتھروں کو بموں سے اڑاتا ہے، آرے سے چیرتا ہے ۔ دیوتاؤں سے بے زار آدمی کا کرودھ قابل ِدیدہے۔ اللہ رکھیو بتاتا ہے کہ پہاڑ خدا کی زمین کے ستون ہیں۔وہ زمین کو قائم اور ماحول کو متوازن رکھتے ہیں۔ہند اور سندھ کی سرحد پر کارونجھر جبل ایک قلعہ ہے۔ دفاعی ماہر اور ذہین جرنیل اپنے قلعے توڑ کر کیوں ہارا کیری کرنا چاہتے ہیں ! یہ کام حکومتِ سندھ کرے، سندھی الانا کرے یا کوئی ذیلی فوجی ادارہ ، ہمیں منظور نہیں ہے ۔ اللہ رکھیو کھوسو ، تکثیریت میں وحدت ، کلچرل فیڈرل ازم، انسانیت اور کارونجھر کے ایکو سسٹم کو بچانے والا فقیر ہے۔جیت اس کی یقینی ہے کہ کارپوریٹ غلامی کی موت کے خلاف وہ زندگی کی علامت ہے۔ وہ مقامیت کا روشن چہرہ ہے ۔ سندھ حسین ہے اور اللہ رکھیو کھوسو کو اللہ رکھے ، جو سندھ، پاکستان اور کائنات کے فطری حسن کی مقدس تثلیث کا استعارہ ہے!کارونجھر کا قصہ تشنہ اور ناتمام تھا کہ زمیں زادوں کی شاعر نسیم سید نے مایا اینجلو کی نظم بھیجی جو شاید روپلو ، رانا رتن سنگھ اور کھوسو جیسے عامی اور مقامی ہیروز کے لئے لکھی گئی تھی:
You may write me down in history
With your bitter, twisted lies,
You may tread me in the very dirt
But still, like dust, I’ll rise.

About The Author