مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اللہ حافظ ”کراچی ڈیلٹا “||عزیز سنگھور

ان جنگلات کی مزید کٹائی سے کراچی میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ جائےگی۔ جس کی وجہ سے کلائمیٹ چینج سے ’’موسمیاتی تبدیلیاں‘‘ رونما ہونگی۔ شہر میں ہیٹ وے میں اضافہ ہوگا۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دریائے لیاری سے پیدا ہونے والا کراچی ڈیلٹا کمرشل سرگرمیوں کے بعد ہمیشہ کے لئے رحلت کرجائےگا۔ یہ ڈیلٹا پچیس سے تیس کلومیٹر پٹی تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں مینگروز کے جنگلات ہیں۔ اس کی موت اس وقت ہوگی، جب دریائے لیاری کے بیک واٹر میں موجود مینگروز کے جنگلات تک کراچی پورٹ توسیع دی جائےگی۔ جہاں نئے برتھ بنائے جائیں گے۔ بیک واٹر کے کنارے پر نئے تجارتی زونز کا قیام عمل میں لایا جائےگا۔ چین کراچی بندر گاہ پر 3.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس نئی سرمایہ کاری میں کراچی بندرگاہ میں مختلف تعمیرات سمیت ماہی گیری بندرگاہ اور مغربی بیک واٹر پر 640 ایکٹر تجارتی زون شامل کرنا شامل ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اس منصوبے میں بندرگاہ کو قریبی منوڑہ جزیروں سے ملانے والا ایک بندرگاہ پل بنانے کا بھی منصوبہ شامل ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت ہوا۔ جب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) کے مرکز کوگوادر سے کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے۔ یہ فیصلہ بلوچستان میں جاری انسرجنسی اور امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر میں کیاگیا۔
دریائے لیاری جس کو عام زبان میں لیاری ندی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی ندی ہے۔ یہ ندی کھیرتر کے پہاڑی سلسلہ سے منسلک بارانی ندی نالوں سے جڑی ہوئی ایک قدیم ندی ہے۔ یہ ندی سہراب گوٹھ سے ہوتی ہوئی منوڑہ چینل پر بحیرہ عرب میں بہتی ہے۔ جہاں ڈیلٹا کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ڈیلٹا نے مینگروز کے جنگلات کو جنم دیا ہے۔ کراچی ڈیلٹا 25 سے 30 کلومیٹر پٹی تک پھیلا ہوا ہے۔ ندی سمندر میں داخل ہونے سے قبل مختلف کریکس میں پھیل جاتی ہے۔ جب لیاری ندی، سید علی سرمست مزار سے بیک واٹر میں بہنے لگتی ہے۔ جو ہاکس بے ٹرک اسٹینڈ، گریکس ولیج، ماری پور ولیج کے عقب سے ہوتی ہوئی سینڈز پٹ میں مینگروز کے جنگلات کو آباد کرتی ہے۔ جبکہ اس کی دوسری جانب کھکا ولیج، یونس آباد، شمس پیر، بھٹ اور بابا ہے۔ بیک واٹر کا یہ سلسلہ کراچی فش ہاربر، کراچی پورٹ سمیت مائی کلانچی سڑک سے ہوتی ہوئی سلطان آباد تک جڑا ہوا ہے۔ جبکہ اس پٹی کا دوسرا حصہ شیریں جناح کالونی سے ہوتا ہوا بلاول چورنگی (کلفٹن) تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پٹی کو چائنا کریک کہا جاتا ہے۔
کسی زمانے میں لیاری ندی کاپانی صاف ستھرا ہوا کرتا تھا۔اور اس میں مچھلیاں پائی جاتی تھیں۔ لیکن کراچی کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ اسے گندے پانی کی نکاسی کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ اور اب یہ صرف ایک نالے کا منظر پیش کرتی ہے۔
ڈیلٹا تکونی جگہ ہے،جو دریا کے دہانے کے پاس دریا کی سست رفتاری کے باعث بن جاتی ہے۔ یہ دریا درمیان میں چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی شاخوں میں بہتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے۔ سست رو دریا جو میدانوں سے اپنے ساتھ مٹی لاتے ہیں ڈیلٹا بناتے ہیں۔ ڈیلٹا کی زمین بڑی زرخیز ہوتی ہے۔ دریائے سندھ، دریائے نیل، اوری نیکو، دریائے ڈینیوب، دریائے والگا، دریائے فرات اور دریائے گنگا ڈیلٹا بناتے ہیں۔
کراچی ڈیلٹا میں ہزاروں ایکٹر پر محیط مینگروز کے جنگلات ہیں۔ مینگرووز کے پودے دیگر پودوں کے مقابلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی 18 فیصد زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ نہایت ماحول دوست ہوتے ہیں۔ خاص طور پر کراچی جیسے شہر کے لیے جہاں پہلے ہی فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے۔ ماضی میں ہم نے یہ دیکھا کہ کراچی میں جنگلات کا رقبہ اس لئے بھی کم ہو رہا ہے کہ یہاں پر جنگلات کو بے رحمی سے کاٹاگیا۔ نیٹی جیٹی برج کے آس پاس مینگرووز کے جنگلات کو کاٹ کرفائیو اسٹار ہوٹل اور بڑی بڑی عمارتیں بنائی گئیں۔ جبکہ مائی کلانچی روڈ کے اردگرد مینگرووز کے جنگلات پرگھر بنانے کا منصوبہ جاری ہے۔
سی پیک کے نام پر کراچی بندرگاہ کو توسیع دینے کے کراچی ڈیلٹا میں موجود مینگروز کے جنگلات کو مزید نقصانات ہونگے۔ ان کو کاٹ کرپورٹ کی توسیع کی جائےگی۔ ویسے بھی پاکستان میں گلوبل وارمنگ، دہشتگردی جیسے چیلنج سے زیادہ گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا باعث بننے والی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ملک میں ہر سال ہتھیاروں سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی سے اموات ہوتی ہیں۔ ایک غیر ملکی تحقیقی ادارے ’انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلوایشن‘ کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ 25 ہزارافراد آلودگی سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جب کہ دہشتگردی کے خلاف برسوں سے جاری جنگ میں اب تک 60 ہزار افراد مارے گئے ہیں۔ پاکستان آلودگی سے ہلاکتوں میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے ۔
گلوبل وارمنگ سے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ جس سے ان کا سارا پانی سمندروں میں آجائے گا۔ جو شہر سطح سمندر سے نیچے ہیں وہ ڈوب جائیں گے۔ اس فہرست میں کراچی کا نام بھی شامل ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050 ء تک کراچی کے مکمل طور پر ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ کیونکہ کراچی سطح سمندر سے نیچے واقع ہے۔
بالخصوص ملک خصوصاً کراچی میں گلوبل وارمنگ سے حرارت میں دھیرے دھیرے اضافہ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ مثلاَ حال میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جبکہ کچھ سال قبل ہیٹ وے سے بے شمار لوگ جان سے گئے۔ ہیٹ وے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ جنگلات کی حفاظت اور شجرکاری (یعنی نئے پودوں کو لگانا )ہے۔ درخت اور پودے کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کردیتے ہیں اور ماحول میں اس کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔جنگلات کسی بھی ملک یا شہر کی معیشت کا لازمی جز ہیں۔ ملک کی متوازن معیشت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے 25٪ فیصد رقبے پر جنگلات پھیلے ہوں۔ جنگلات قدرتی وسائل کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ کراچی میں صرف 5% فیصد رقبے پرجنگلات ہیں۔ جن میں مینگرووز (تیمر) کے جنگلات اور ملیر سمیت گڈاپ کے باغات اور زرعی اراضی شامل ہیں۔ کراچی کے ساحلی پٹی سینڈزپٹ سے لیکر قاسم پورٹ تک مینگرووز کے جنگلات موجود ہیں۔
ان جنگلات کی مزید کٹائی سے کراچی میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ جائےگی۔ جس کی وجہ سے کلائمیٹ چینج سے ’’موسمیاتی تبدیلیاں‘‘ رونما ہونگی۔ شہر میں ہیٹ وے میں اضافہ ہوگا۔ جس سےصحت کے سنگین مسائل پیدا ہوگئے ہیں اور سائنسی ریسرچ کے مطابق انہی بنیادی وجوہات کے تحت اب کراچی میں قدرتی آفات اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، سونامی، سمندری طوفان اور سیلابوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔ ماحولیاتی ماہرین نے اب انسانی ہاتھوں کے تحت تباہ ہوتے قدرتی ماحول کو کرہ ارض میں ہر جگہ ہر مقام پر دوبارہ بہتر کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں اور اس عمل میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن ہماری حکومتیں ماحول دشمن اور پیسہ دوست پالیسیاں مرتب کررہی ہیں۔ ان کو عوام سے کی صحت اور قدرت کی حفاظت سے کوئی سرورکار نہیں ہے۔ جبکہ حکمرانوں کو موسمی مسائل کو اولین ترجیح دیتے ہوئے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ملکی سلامتی کو قدرتی آفاتوں کے درپیش خطرات سے بچایا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: