نومبر 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فطری توازن نہ ہو تو …||رسول بخش رئیس

ہم جہاں کھڑے ہیں اور جو کچھ ہو سکتا ہے اور نہیں ہو سکتا، ہمارے دیرینہ مسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ فیصلہ خان صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ دیکھیں کب قلم جنبش میں آتا ہے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موسم تو خوش گوار ہو چکا ہے، پوٹھوہار کی ہلکی ہلکی سردی اور خزاں کے نکھرتے رنگوں میں مایوس ہونا، کچھ بات بنتی تو نہیں لیکن کیا کریں سیاست کی اڑتی باریک خاک اور ثقافت ہمارے ذہنوں میں لاہور کی سموگ کی طرح بند دریچوں سے چھن کر در آتی ہے۔ جب سے پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ دیکھا ہے اور پھر تین مسلسل کامیابیاں، دل کھیل میں ہی لگا تو ضرور مگر پھر اسی سکرین پر پولیس اہل کاروں کو جن ظالمانہ طریقوں سے لاہور اور دیگر شہروں میں شہید کر ڈالا گیا، دل میں پرانے اندیشے، وسوسے اور آنے والے دنوں کا خوف بیٹھنے لگا۔ مایوسی کی باتیں کرنے سے یہ فقیر دانستہ طور پر گریز کرتا ہے۔ حالات جو بھی ہوں‘ ظلم اور نا انصافیوں نے گھیرے میں لیا ہو، نظر خوش رنگ گلابوں پر رکھنی چاہیے۔ کچھ مرجھا جائیں گے، تو پھر نئے شگوفے پھوٹیں گے‘ شاخوں پہ تازہ کلیاں نکل آئیں گی‘ اور جلد ہی نئے پھول کھلنے لگیں گے‘ خوش رنگ‘ خوش بُو دار۔ فطرت نے ہر چیز میں توازن رکھا ہوا ہے۔ وہی توازن اگر ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگی میں آ جائے تو سب کچھ خوش گوار، پُر سکون ہو جائے۔ ہماری زندگیاں ایسے ابدی دریا کا حصہ بن جائیں جو صدیوں سے اپنے راستے پہ رواں ہے۔ لیکن کیا کریں کہ ہماری ذاتی زندگیاں بھی تو کسی ماحول میں گزرتی ہیں۔ اگر وہ وہی ہو، جو آج کل سڑکوں پر دیکھ رہے ہیں تو پھر سوچ بھی ویسی ہی پیدا ہو گی۔ کیا لبادوں کا رنگ ہے اور عوام اور پولیس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ ملکی سیاست سے جی بہت اکتا چکا ہے۔ ہمت نہیں رہی کچھ سننے کی یا کہنے کی، لیکن کیا کریں کوشش کے باوجود سیاسی موسموں کے نفسیاتی اور سماجی اثرات سے بچ نہیں سکتے۔ یہاں گھر ہو‘ بازار ہو یا کوئی ادارہ‘ سب سیاست میں لپٹے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ اوڑھنا، بچھونا اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی وجہ ہے، یہ ہماری فطرت میں نہیں تھا۔
جب راستے بند ہوں، لاٹھیاں اور بندوقیں لیے گروہ مختلف سیاسی اور نظریاتی لبادے پہنے کروڑوں عوام کو یرغمال بنا لیں، پولیس اہلکار شہید ہو رہے ہوں اور حکومت کسی کو گرفتار نہ کر سکے، تو مایوسی اور بد دلی سے ہم کیسے بچ سکتے ہیں؟ اگر یہ بار بار ہوتا رہے اور ہر سیاسی اور ”غیر‘‘ سیاسی اپنا اپنا ایجنڈا لے کر اسلام آباد پر حملہ کرتا رہے تو ریاست کی استعداد پر شہری کیسے اعتماد کر سکتے ہیں؟ ریاست کی رٹ کو کمزور کرنے والوں میں کون سی سیاسی جماعت ہے، بشمول تحریک انصاف‘ جس نے اپنا حصہ نہیں ڈالا۔ ان سب کا مقصد کبھی بھی یہ نہیں تھا کہ قانون اور ریاستی اداروں کا احترام ہو، بلکہ اپنا ذاتی مفاد سامنے تھا۔ حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو سب دھرنے والوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ تاجر حساب کتاب رکھنے اور ٹیکس کے نظام میں آنے کے خلاف سڑکوں پر قبضے کریں، تو ان کے ساتھ۔ کچھ گروہوں کے معلوم اور نا معلوم وجوہات کی بنیاد پر جذبات مجروح ہوں اور وہ سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کریں، اور شہر اور بازار بند کرا دیں، تو ان کی بھی حمایت۔ اور جو ہماری سیاسی جماعتیں ہیں، ان کا تو پیدائشی حق ہے کہ جب چاہیں لانگ مارچ کریں، جہاں چاہیں جلسہ کریں‘ جلوس نکالیں اور جب چاہے نعرے بازی کریں۔ قوانین‘ ضابطوں اور اجازت ناموں کی پروا نہ کی جائے تو جس قانون کی حکمرانی کے یہ نعرے لگاتے ہیں‘ انہی کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ہماری ریاست بھی کتنی سخت جان ہے کہ ابھی تک سب کچھ برداشت کرتی آئی ہے، مگر سچ بات تو یہ ہے کہ جو تماشا آج کل لگا ہوا ہے‘ اور کئی سالوں سے جاری ہے، اس کے باعث جوہری طاقت کی حامل، ریاستِ پاکستان کی رٹ برائے نام رہ گئی ہے۔
رٹ ختم ہو جائے تو اس کا فوری نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ اقتدار پر کوئی گروہ قبضہ کر لے، لیکن اس کے لیے راستے ہموار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو کئی ریاستیں، اکثریت ان میں پس ماندہ ممالک کی ہے، خانہ جنگی کا شکار ہو کر تباہ ہو چکی ہیں۔ حکومتوں کو چلانے کے لیے قانون کی عمل داری سب کے لیے ضروری ہے، کسی کے لیے استثنا نہیں ہو سکتا۔ اگر تشدد پسند گروہوں کا دبائو‘ دھونس اور دھاندلی بڑھتی رہے تو پھر نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ پولیس اہلکاروں کو بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔ ان میں خوف نہیں رہتا کہ حکومت ان کے خلاف کچھ کر سکے گی۔ ایسے حالات اور کئی واقعات آپ کے سامنے ہیں، کوئی مفروضوں پہ بات نہیں ہو رہی۔ یہ کوئی اکیلے بھی نہیں، ملک رشوت ستانی کی عالمی فہرستوں میں پہلے نمبروں پر ہے۔ باہر کے ملکوں میں ہمارے مقتدر طبقات کے خزانے چھپے ہوئے ہیں، اور کبھی کبھار نام سینکڑوں میں نکلتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جن کو سزا ہو چکی، اربوں کھربوں کے دھندے ہوں تو بڑے قانون دان کام پر اپنا حصہ وصول کرتے رہتے ہیں، انہیں کیا فرق پڑتا ہے، اور اگر وہ بھی کسی اور کے لگائے ہوئے ہوں تو بس سمجھ لیں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو گا۔ انصاف اور قانون صرف کمزور کے لیے رہ جائے گا۔ عام آدمی سے بھی کبھی موقع ملے تو اس موضوع پر گفتگو کر کے دیکھ لیں، ہر طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آئے گی آپ کو۔
ماضی کی مایوسیوں، نعرے بازیوں اور لوٹ کھسوٹ سے لوگ تنگ آ چکے تھے۔ عمران خان نے اس مایوسی کو‘ معلوم ہوتا تھا کہ‘ سمجھ لیا ہے اور ان کا ہاتھ ملکی مسائل کی نبض پہ ہے۔ بیانیہ جو انہوں نے تراشا خوب تھا اور نئی نسل کے علاوہ روایتی سیاسی گھرانے بھی ان کی کشتی میں سوار ہونے لگے۔ ہر طرف ‘تبدیلی تبدیلی‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ ابھی تک مایوسی کو وہ دور نہیں کر سکے۔ اب تو یہ کہنا بھی چھوڑ دیا ہے کہ ”گھبرانا نہیں‘‘۔ یہ فقیر ابھی تک گھبرانے والوں کی طرح گھبرایا تو نہیں، لیکن جو حالات بن رہے ہیں، ان کے پیش نظر انہیں کچھ کرنا پڑے گا، کچھ دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ اندر اندر تو سب کو معلوم ہے کہ جو تماشا سڑکوں پہ ہو رہا ہے، کن باتوں کی علامت ہے۔ سیاست کی خبر رکھنے والوں کو محرکات کا علم ہے، اور سیاست دانوں کو بھی ان باتوں کا ادراک ہے۔ ان کے لیے تو سیاست اور جمہوریت کی افادیت اپنے مفادات تک محدود ہے۔ اگر ان کے پاس اقتدار نہیں تو جو کچھ بھی ہوتا ہے، ہوتا رہے، ان کے پُر رونق اور پُر آسائش ٹھکانوں اور مشغلوں میں کوئی فرق نہیں آتا۔
کچھ باتیں ابھی کھل کر نہیں لکھی جا سکتیں۔ اشارہ کر دیا ہے، بس کافی ہے۔ ریاست میں طاقت کا مرکز ایک ہوتا ہے، آئین دو تین یا اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر ایسا ہو تو ریاست کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ کئی مراکز اس لئے بنتے ہیں کہ شخصی مفادات ملکی اور ریاستی مفادات پہ مقدم ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اس کے نتائج ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک اور بات کہ جمہوری سیاست کا جو بھی رنگ ہو، اگر فطری طور پر چلے تو اس میں توازن خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم جہاں کھڑے ہیں اور جو کچھ ہو سکتا ہے اور نہیں ہو سکتا، ہمارے دیرینہ مسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ فیصلہ خان صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ دیکھیں کب قلم جنبش میں آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author