مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شیشے کے گھر میں بیٹھے "مجاہدین” سول سپرمیسی||حیدر جاوید سید

یاد کیجئے 1988ء کے انتخابات کے دوران آئی جے آئی کے لاہور سے امیدوار حافظ سلمان بٹ کی علی پارک میں کی گئی تقریر اس سے غلیظ تقریرشاید ہی اس ملک کی سیاسی تاریخ میں کبھی کی گئی ہو

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجاہدین سول سپر میسی کا بس نہیں چلتا ورنہ وہ ’’ثابت‘‘ کردیتے کہ منٹو پارک لاہور میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے وقت سٹیج پر محمدعلی جناح صاحب اور دیگر قائدین کے ساتھ میاں محمد رمضان (میاں نوازشریف کے دادا) بھی تشریف فرما تھے اور آپ جاتی امراء امرتسر سے 207گاڑیوں کے قافلے کے ہمراہ اس اجتماع میں شریک ہوئے ۔
ان کا بس چل رہا ہے تو فقط اس حوالے سے کہ آجکل وہ جناب نوازشریف کو سقراط، حلاج، چی گویرا اور کبھی کبھی جمال عبدالناصر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ممدوح کی شان بڑھانا یا مالک کو نیلے آسمان کے نیچے سب سے اہم شخص کے طور پر پیش کرنا محبوں اور ملازموں کا حق ہے اس حق پر اعتراض درست نہیں۔
مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب پاکستانی سیاست میں مذہب کو ہتھیار بنانے کے حوالے سے تاریخ فروشی میں مصروف مجاہدین بھونڈی غلطیاں کرتے ہیں۔
مثال کے طورپر آجکل مجاہدین سول سپر میسی یہ ثابت کررہے ہیں کہ سیاست میں مذہب کو منافع بخش کاروبار ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا۔
یہ کہتے لکھتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ 1970ء کے عام انتخابات سے قبل پاکستان (مغربی و مشرقی پاکستان) کے 27 بڑے علماء نے فتویٰ دیا تھا کہ "پیپلزپارٹی کفریہ نظریات” پر سیاست کررہی ہے اس لئے اسے ووٹ دینا حرام ہے۔ ’’حرام‘‘ کی وضاحت بھی فتوے میں موجود تھی۔
ہوا کیا اس فتوے کے پڑخچے اڑاکر رکھ دیئے مغربی پاکستان کے لوگوں نے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے، 1906ء میں ڈھاکہ میں بننے والی آل انڈیا مسلم لیگ مسلم فرقے کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے دو قومی نظریہ (مذہب کی بنیاد پر) پیش ہوا حالانکہ اگر مذہبی قومیت بنیادی اصول تھا تو پھر اس وقت برصغیر میں تین بڑی مذہبی قومیں تھیں۔ اولاً ہندو ثانیاً مسلمان اور ثالثاً سکھ۔
لیکن مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ نے سکھوں کو ہندوئوں کے پلڑے میں ڈال دیا۔
یہ درست ہے کہ انتہا پسند ہندووں نے بھی اَت اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ’’شدھی تحریک‘‘ اس کی ایک مثال ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مذہبی قومیت کا تصور پیش کرکے مسلم لیگ نے مسلمانوں کو برصغیر کی تاریخ، تہذیب و تمدن، کلچر اور دیگر مقامی شناختوں سے کاٹ دیا۔
آفاقی مسلم قومیت کے تصور نے ہی برصغیر کے بٹوارے کی بنیاد رکھی۔ یقیناً تالی دونوں ہاتھوں سے بجائی گئی۔ بٹوارے کے دوران ہوئے قتل عام کے حوالے سے دونوں طرف اپنی اپنی داستانیں لکھی گئیں۔
ہم اس حقیقت سے آنکھ چراتے ہیں کہ فسادات کی ابتداء شاہ عالمی لاہور اور لال کرتی راولپنڈی سے ہوئی۔ مہاجرین کی ٹرینوں کو کاٹنے کا آغاز اس ٹرین سے ہوا جو ہندووں اور سکھوں کو پشاور سے کلکتہ لے جارہی تھی۔ جواب میں جو کچھ ہوا ہم اس پر چوہتر سالرں سے رودھورہے ہیں۔ یہی حال مہاجرین کے چھوڑے اثاثوں کی مالیت کے حوالے سے ہے۔
معاف کیجئے گا موضوع سے کچھ دور نکل کر تاریخ کے اوراق الٹنے پڑے ہم اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔ مسلم لیگ کی ساری جدوجہد فرقہ وارانہ بنیادوں پر تھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ کانگریس نے سیکولر کردار ادا کیا۔ سیکولر کہلانے والی کانگریس نے بھی اچھل اچھل کر ہندو توا کھیلا۔
محمدعلی جناح صاحب نے ’’قیام پاکستان‘‘ کی جدوجہد کے دوران جتنی تقاریر کیں انہیں سامنے رکھ کر 11اگست 1947ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے کیئے گئے ان کے خطاب کا تجزیہ کیجئے، مجھے ایسے طالب علم کے نزدیک جناح صاحب کا دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے 11اگست والا خطاب ہی اصل میں نوتشکیل شدہ ریاست کا اصل بیانیہ تھا اور ہے۔

یعنی وہ یہ سمجھ گئے تھے کہ بٹوارے کے دوران ہوئے خون خرابے کی دوسری قسط کو روکنے کے لئے ضروری ہے ریاست اس بات کی ضمانت دے کہ ریاست کی جغرافیائی حدود میں آباد تمام لوگ بلاامتیاز مذاہب و عقیدہ اور رنگ و نسل ریاست کے لئے یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔
جناح صاحب کی وفات کے بعد قرارداد مقاصد منظور ہوئی یہ قرارداد 11اگست 1947ء والی تقریر پر خودکش حملہ تھا۔ لیاقت علی خان نے اس قرارداد مقاصد کو ’’اون‘‘ کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ وہ مذہبی قومیت پر یقین رکھتے تھے اور یہ بھی سمجھتے تھے کہ قرارداد مقاصد سے ہی مقامی قومیتی سوال کو دفن کیا جاسکتا ہے۔
1956ء کے دستور میں قرارداد مقاصد شامل تھی۔ جناح صاحب کی وفات کے بعد سے ایوبی مارشل لاء کے نفاذ کے درمیانی دس برسوں کی تاریخ الٹ کر دیکھ لیجئے مسلم لیگ نے قدم قدم پر ان قوتوں کی حوصلہ افزائی کی جو مذہبی شدت پسندی کو سیاست کا رزق بنائے ہوئے تھیں۔

اس صورتحال کو تفصیل سے جاننے سمجھنے کے لئے جسٹس منیر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیجئے یہ کتابی شکل میں دستیاب ہے۔
مجاہدین سول سپر میسی کہتے ہیں کہ مذہب کو سیاسی ہتھیار بھٹو نے بنایا۔ بھٹو کی حالت یہ تھی کہ سیاست کے آغاز پر ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری ہوا اور پھانسی کے وقت کنفرم کیا گیا کہ ” وہ مسلمان بھی کے نہیں "۔
یہاں تک کہا گیا کہ جس نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا اس کا نکاح فسخ ہوجائے گا۔
بھٹو صاحب کے دور کے چند اقدامات کو ان کی مذہب پرستی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ان اقدامات میں پوری قومی اسمبلی شامل تھی۔ کیا نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) جیسی سیکولر جماعت نے ان اقدامات کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا؟
یہ درست ہے کہ ریاست کو اجتہاد کا حق نہیں لیکن قادیانی مسئلہ پر قومی اسمبلی میں ہوئی طویل بحث کے دوران یحییٰ بختیار (اس وقت کے اٹارنی جنرل) کے سوال کے جواب میں مرزا ناصر احمد نے یہ نہیں کہا تھا کہ ’’ہم غیراحمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے؟‘‘ اس جواب کے بعد قومی اسمبلی کیا کرتی؟
بھٹو کو مطعون کرنے والے اس سوال کا جواب بھی تو دیں۔
آگے چلتے ہیں گیارہ سال جنرل ضیاء الحق اس ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قابض رہے ان کے دور میں صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے جو مذہبی قانون سازی ہوئی اسے غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب ہونے والی قومی اسمبلی نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے دستوری تحفظ عطا نہیں کیا۔
پھر فکر ضیاء الحق کے وارث کے طور پر میدان عمل میں میاں نواز شریف کے سوا کون اترا۔
اسلامی جمہوری اتحاد، یہودوہنود کی ایجنٹ پی پی پی اور خواتین کی کفریہ حکمرانی کا راستہ روکنے کے لئے قائم نہیں ہوا تھا؟۔
مجاہدین سول سپر میسی کسی دن جناب نوازشریف کے اولین دو ادوار میں خواہش قانون سازی کے اوراق تو الٹ کر دیکھیں ان کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
سیاست آگے بڑھتی ہے، وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک وقت تھا نوازشریف کا خون کھول اٹھتا تھا پیپلزپارٹی اور بھٹو کا نام سن کر،وہ اسے سمندرمیں غرق کرنے کی خواہش کا جلسوں میں اعلان کرتے تھے ان کے دور میں محترمہ بینظیر بھٹو کو قومی اسمبلی کے ایوان میں ننگی گالیاں دی گئیں۔
پھر وہ دن بھی آیا جب اسی نوازشریف نے کہا بینظیر بھٹو میری بہن ہیں۔
طے ہوا کہ سیاست میں دوستیاں، دشمنیاں، الزامات اور فتوے مستقل نہیں ہوتے۔ اسی طرح یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ سلمان تاثیر والے معاملے میں لوگوں کے مذہبی جذبات بھڑکانے میں (ن) لیگ اور اس کے حامی صحافی و اینکرز پیش پیش تھے۔
کیا کبھی جواباً پیپلزپارٹی نے (ن) لیگ کے خلاف مذہبی کارڈ استعمال کیا یا مریم نواز کے لئے وہ زبان برتی جو شریف خاندان بینظیر بھٹو کے لیئے استعمال کرتا تھا؟
یاد کیجئے 1988ء کے انتخابات کے دوران آئی جے آئی کے لاہور سے امیدوار حافظ سلمان بٹ کی علی پارک میں کی گئی تقریر اس سے غلیظ تقریرشاید ہی اس ملک کی سیاسی تاریخ میں کبھی کی گئی ہو
تب اس تقریر سے خوش ہوکر نوازشریف نے حافظ سلمان بٹ کو اپنامجاہد قرار دیا تھا۔
حرف آخر یہ ہے کہ ماضی میں جو ہوا جس نے کیا غلط کیا اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
مجاہدین سول سپر میسی نوکری پکی کرنے کے لئے تاریخ کو مسخ نہ کریں ویسے ان میں سے اکثر ایک ایسے ادارے کے ملازم ہیں جس کے مالک کے لئے بھٹو صاحب کے الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں اس کا نرم سے نرم ترجمہ یہ ہے کہ تم نے صحافت میں” بیسوا گیری” کی بنیاد رکھی ،
اس لئے پیارے مجاہدین سول سپر میسی شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر نہیں اچھالتے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: