نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وسطی پنجاب میں ہو کیا رہا ہے؟||حیدر جاوید سید

ثالثاً اگر یہ مان لیا جائے کے ختم نبوت کے قوانین سے کوئی چھیڑچھاڑ ہورہی تھی تو پھر پہلے قومی اسمبلی کی اس قائمہ کمیٹی کے ارکان سے بات کی جائے اس کے اجلاسوں کے منٹس سامنے لائے جائیں تاکہ پورا سچ سامنے آسکے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی بھی فصل بوتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ضروری ہے یا غیرضروری۔ اس سے فائدہ کیا اور نقصان کتنا ہوگا۔
چلیں میں سادہ لفظوں میں عرض کئے دیتا ہوں، (ن) لیگ کے پچھلے دور میں ریاست اور تحریک انصاف دونوں پوری قوت اور ایمانی جذبہ کے ساتھ ایک مذہبی جماعت کے پیچھے کھڑے تھے۔ فیض آباد دھرنے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیجئے۔ ایک یہی کیوں کسی دن وقت نکال کر سول ہسپتال کوئٹہ والے سانحہ پر بھی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ پڑھ لیں۔ چودہ طبق روشن ہوتے چلے جائیں گے۔
خیر دور جانے کی ضرورت نہیں، یاد کیجئے (ن) لیگ کے دور میں جناب شیخ کی تقاریر ان کے نعرے للکارے اور آخری سانس تک پہرہ دینے کا اعلان، ذرا 2018ء کے عام انتخابات کی انتخابی مہم کے دنوں کے اخبارات نکال کر دیکھیں، (ن) لیگ پر تین الزام لگائے گئے اولاً کرپشن+پانامہ کیس کا فیصلہ، ثانیاً بھارت نوازی۔ ثالثاً ختم نبوتؐ کے قوانین میں ترمیم کی کوشش۔
یہ تیسرا الزام ہی اس فیض آباد دھرنے کی بنیاد بنا تھا جس نے پورے ملک کو عموماً اور صوبہ پنجاب و اسلام آباد کو خصوصاً معطل کرکے رکھ دیا۔
تحریر نویس نے ان دنوں بھی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ اولاً تو ترمیمی قوانین کے مندرجات دیکھے جانے چاہئیں تاکہ پتہ چلے ترمیم کے لئے جو تحریک قائمہ کمیٹی میں پیش ہوئی وہ کیا تھی۔
ثانیاً اکیلے وزیر قانون کو سزا وار قرار دینا جب تک بات واضح نہیں ہوجاتی درست عمل نہیں۔
ثالثاً اگر یہ مان لیا جائے کے ختم نبوت کے قوانین سے کوئی چھیڑچھاڑ ہورہی تھی تو پھر پہلے قومی اسمبلی کی اس قائمہ کمیٹی کے ارکان سے بات کی جائے اس کے اجلاسوں کے منٹس سامنے لائے جائیں تاکہ پورا سچ سامنے آسکے۔
نقارخانوں میں بس آوازیں گونجتی ہیں سنتا کوئی نہیں نہ کوئی جواب دیتا ہے۔
مکرر عرض ہے تب جذباتی فضا بنادی گئی اور اس جذباتی فضا کو 2018ء کے انتخابات میں استعمال کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے نوٹس نہیں لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پوری انتخابی مہم کے دوران پی ٹی آئی کی قیادت نے (ن) لیگ کو ایک گستاخ کے طور پر پیش کیا۔
باردیگر عرض ہے فیض آباد دھرنے کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ رپورٹ پڑھ لیجئے۔ چودہ نہیں سولہ بلکہ اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ چند حوالے اور ہیں مگر حب الوطنی مانع ہے۔ سمجھ تو آپ گئے ہوں گے۔
یہ ماضی تھا اب حال میں آیئے۔
وسطی پنجاب پچھلے 6دنوں سے یرغمال ہے۔ یرغمالی کے ان دنوں میں اب تک 4پولیس اہلکار موت کا رزق بن چکے، 253سے زیادہ زخمی ہیں۔ اس وقت جب یہ سطور لکھ رہا ہوں لاہور راولپنڈی جی ٹی روڈ پر لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکا کامونکی میں موجود ہیں اور آگے بڑھنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں وزیرداخلہ نے کل بتایاکہ قانون اپنا راستہ بنائے گا تشدد برداشت نہیں کریں گے۔ وزیر اطلاعات نے کہا لانگ مارچ پر مُصر مذہبی تنظیم سیاسی جماعت نہیں مسلح تنظیم ہے۔ اسے بھارت سے مدد مل رہی ہے،
کوئی مائی کا لعل ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کرسکتا۔ بدھ کو ہی وزیراعظم کی صدارت میں حکومتی اور فوجی حکام کا خصوصی اجلاس ہوا۔
اجلاس میں رینجرز کو پنجاب بھیجنے کی ’’منظوری‘‘ دی گئی۔ یہ نوبت کیوں آئی؟
اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اسی تنظیم سے قبل ازیں ایک معاہدہ کیا تھا تنظیم کے کارکنان اسی معاہدے پر عمل چاہتے ہیں۔ یہاں ساعت بھر کے لئے رک کر یہ جان لیجئے کہ وزیراعظم کے ایک دست راست اورسینیٹر فیصل واوڈا کہتے ہیں مذہبی تنظیم اور حکومتی وزراء کے درمیان قبل ازیں جو معاہدہ ہوا تھا اس کے مندرجات اور بالخصوص فرانسیسی سفیر کو نکالنے والی شق سے وزیراعظم آگاہ نہیں تھے۔
معاہدہ کرنے والے وزراء ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ حکومت اور مذہبی تنظیم کے درمیان پہلا معاہدہ جب ہوا تھا تب وزیر داخلہ اعجاز شاہ تھے۔ دوسرا معاہدہ اور معاہدوں پر عمل کی یقین دہانی ہر دو مرحلوں میں وزیر داخلہ شیخ رشید تھے بلکہ اب بھی ہیں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ معاہدے کیوں کئے گئے مسئلہ یہ ہے کہ اگر وزراء یہ سمجھتے تھے کہ معاہدے پر من و عن عمل ممکن نہیں تو ان معاہدوں کے وقت مزید بات چیت کرلی جاتی مثال کے طور پر، فرانسیسی سفیر والا معاملہ ہے اس پر وزراء کے بیانات اور یقین دہانیاں ریکارڈ پر ہیں۔
حکومت پہلے دن سے ہی غلط کھیل رہی ہے ایک ایسا معاملہ جس پر لوگ جذباتی ہوسکتے ہیں، سنبھالنے کے لئے جس تدبر، فراست اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہے بلکہ تھی بھی ہمارے معزز وزراء اس سے محروم ہیں۔
جناب شیخ کو تو بس بولنے کا موقع چاہیے اور وہ سوچے سمجھے بغیر بولتے چلے جاتے ہیں۔
اصولی طور پر جب حکومت مذہبی تنظیم سے معاہدہ کررہی تھی تو بھلے یہ ایک دو دن تاخیر سے ہوتا لیکن وزراء کا فرض تھا کہ وہ مذہبی تنظیم کے ذمہ داران کو دلائل سے قائل کرتے کہ سفارتی معاملات میں احتجاج کا طریقہ کار یکسر الگ ہوتا ہے۔
حکومت تحریری طور پر اپنا احتجاج فرانسیسی حکومت کو بھجواچکی ہے۔
یہی غلطی دوسرے معاہدے کے وقت دہرائی گئی۔ ستم بالائے ستم کچھ عرصہ قبل ہوئے احتجاج کو ختم کرانے کے لئے کرائی گئی یقین دہانیوں کے وقت پھر وقت گزارنے والا رویہ اپنایا گیا۔
ملکی قوانین دستور اور امن و امان کے مقدم ہونے پر دو آراء ہرگز نہیں مگر کل جو درست تھا آج غلط کیسے ہوا؟ کل اس حساس معاملے کو اپنی سیاست کا رزق بنانے والے آج مختلف باتیں کیوں کرتے ہیں۔
سیاپا فروش مجاہدین کی طرح میں یہ ہرگز نہیں کہوں گا کہ فلاں سے مذاکرات ہوسکتے ہیں تو فلاں سے کیوں نہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جن امور کی انجام دہی حکومت کے لئے ممکن ہی نہیں انہیں معاہدہ کا حصہ بناکر تسلیم کیوں کیا گیا؟
یہاں ایک اور بات دریافت کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ احتجاج اور لانگ مارچ پر مُصر تنظیم کے لوگ دو وزراء سے بات نہیں کرنا چاہتے۔( شیخ رشید اور قاری نورالحق قادری سے) کیا اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کمیٹی کے ارکان مختلف نہیں ہونے چاہئیں تھے۔
حکومت نے مذاکراتی کمیٹی میں (اخباری اطلاعات کے مطابق) ایک ایسے شخص( اوریا مقبول جان ) کو شامل کیا جو ماضی میں کالعدم تنظیموں کو اسلام کی نشاط ثانیہ کا علمبردار قرار دے کر حقائق کو مسخ کرتا رہا۔
کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ اس شخص کی بجائے مفتی منیب الرحمن اور دوسری شخصیات سے تعاون کی اپیل کی جاتی۔
ہمارے لئے یہ بات حیران کن ہے کہ ایک طرف لانگ مارچ کرنے والی تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا اور اب بھی کہا جارہا ہے کہ یہ تنظیم کالعدم ہے مگر دوسری طرف پنجاب اور سندھ کے ضمنی انتخابات کے علاوہ اس جماعت نے آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا۔
معاف کیجئے گا، خود حکومت کے قدموں کے نیچے بھی زمین نہیں ہے، اسے بھی معلوم نہیں کہ کرنا کیا ہے۔
وسطی پنجاب پچھلے 6دن سے یرغمال ہے۔ چلیئے احتراماً یوں کہہ لیتے ہیں لاہور سے راولپنڈی تک زندگی معطل ہوکر رہ گئی ہے۔ ہر شخص ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے ’’اب کیا ہوگا؟‘‘
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ حکومت سے مسلسل غلطیاں ہوئیں اب غلطیوں کو سدھارنے کی بجائے وہ مزید غلطیاں کرنے جارہی ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ معاملے کو اس طور سنبھالا جائے کہ ’’دھول‘‘ نہ اڑنے پائے۔ کیا حکومت سنبھال پائے گی معاملات کو؟
کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔ وجہ یہی ہے کہ یہاں سنجیدگی کے مظاہرے سے زیادہ نمبرٹنگ پروگرام جاری ہے، یہی نقصان کا باعث ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author