نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فرق بڑھ چکا ہے!||رسول بخش رئیس

یہ سمجھ کر کہ ''ہنوز دلی دور است‘‘ آپ کو شہرِ اقتدار میں لے آتا ہوں، جہاں پوش مارکیٹوں میں امیروں کے چائے خانے کھلتے ہی جا رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ جس علاقے میں یہ فقیر رہتا ہے عام سا ہے،

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک طرف بہت امیر و کبیر، دوسری طرف غریب عوام کا سمندر اور درمیان میں مہنگائی کی ماری سکڑتی مڈل کلاس۔ ہمارا زیادہ تر طبقہ امیر مغربی ممالک کی طرح کا نہیں کہ زر و دولت محنت سے بنائی ہوئی ہو۔ موروثیوں کی خاصی تعداد ہے‘ جن کی دولت اور شان و شوکت کی بنیاد آبائی زمینیں ہیں۔ اگرچہ آہستہ آہستہ خاندانوں میں بٹ کر کم ہو چکی ہیں، مگر اب بھی بڑے زمین داروں کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ ان میں اکثر زراعت کو جدید خطوط پر استوار کر کے یا باغات لگا کر آمدنی بڑھانے میں کسی حد کامیاب ہوئے ہیں۔ بڑے ٹھاٹ باٹ والی بات اب کہیں بھی نہیں رہی۔ ان کے مقابلے میں شہری علاقوں کے سرمایہ دار، تجارت اور کاروبار والے‘ بہت آسودہ ہیں بلکہ اب تو ہمارے ہاں بھی معاشی طاقت کا توازن ان کے حق میں ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جو ریئل سٹیٹ سیکٹر والے ہیں، ان کا کوئی مقابلہ زمین داروں میں سے کوئی کرنے کے قابل نہیں رہا۔ شہر پھیلے ہیں تو ان نودولتیوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ مشاہدے میں ہے کہ اس کاروبار سے وابستہ ہر کوئی کہاں سے کہاں دولت کی چھلانگیں لگا چکا ہے، اور یہ عمل جاری و ساری ہے۔ بہت کچھ غیر قانونی ہے‘ مگر ان کی جیبیں بھاری اور ہاتھ لمبے ہو چکے ہیں۔ ہمارے جیسے معاشرے میں دولت اپنا راستہ ہر طرف‘ ہر جگہ اور ہر سیاسی موسم میں خود بناتی ہے۔ سنا ہے سیاسیوں کے لیے خزانوں کا کام دیتے ہیں اور پھر جو لگاتا ہے، وہ کماتا بھی تو ہے۔ جس معاشرے میں ناجائز دولت کے ہر طرف، ہر شعبہ اور ہر طاقت ور انبار لگا رہا ہو، وہاں قانون ڈھیلا، حکمرانی نرم اور ریاست پر ضعف طاری ہو جاتا ہے۔ آپ ملکی حالات حاضرہ اور گزری ہوئی باریوں پر نظر دوڑائیں، دل میں ہلکا سا تجزیہ کریں تو بات آپ کو سمجھ میں آ جائے گی۔
غریبوں کو دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دکھ بڑھ رہے ہیں۔ ہم کہتے تو ہیں کہ وہ خود ذمہ دار ہیں، بچوں کی قطاریں لگائی ہوئی ہیں، محدود آمدنی میں وہ کیسے بڑے کنبے کی کفالت کر سکتے ہیں؟ خود بھی تو کورے ان پڑھ، بے ہنر ہیں‘ جسمانی مشقت کا روزانہ کی بنیاد پر سودا کرتے ہیں۔ بیمار پڑ جائیں تو فاقے، عورتیں بچوں کی تعداد کے پیشِ نظر گھر کا خیال رکھتی ہیں۔ سوچتا ہوں‘ ہم انہیں الزام کیسے دے سکتے ہیں۔ یہ تو ہمارے حکمرانوں کی ذمہ داری تھی کہ ان غریبوں کو سکولوں میں لے آتے، کالجوں اور یونی ورسٹیوں تک انہیں رسائی دیتے۔ یہ جو ہمارے اوپر نسل در نسل آسمان سے اتر رہے ہیں اور حکومتیں کر کے سب کچھ باہر لے جاتے ہیں، ان سے غریب کیا سوال کر سکتا ہے کہ انہیں تعلیم اور ہنر مندی سے کیوں محروم رکھا گیا؟ یہ بے چارے ہر دفعہ دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ ایک اچھے مستقبل کی امید میں جھنڈے اٹھا کر ان کی خاک اڑاتی بڑی گاڑیوں کے آگے پیچھے دوڑتے ہیں۔ پاکستان کی آزادی سے لے کر آج تک حکمران یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ غربت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے اور اس مسئلے کی شدت کو کم کرنے کے لیے انہوں نے کیا کیا ہے؟ محض دعوے کرنے سے تو مسائل حل نہیں ہوتے۔ ان سے بات کر کے دیکھ لیں‘ سب کا دعویٰ ہو گا کہ ان کی حکومت کے دوران غریب کی حالت بہتر تھی۔ ہو گی، مگر ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے اسے غربت کی لکیر سے اتنا اوپر کر دیا ہے کہ وہ پھر نیچے نہ آ سکے‘ پھر مالی مسائل کا شکار نہ ہو سکے؟ ایسا ممکن ہی نہیں‘ جب تک آپ اسے ہنر مند نہ بنائیں، جب تک سرمایہ کاری میں اضافہ نہ ہو اور جب تک سیاسی استحکام پیدا نہ ہو۔ امن و امان، سکون اور چین ہو گا تو اندر اور باہر کے لوگ کاروبار میں پیسہ لگائیں گے‘ جس سے سب کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور غریب طبقے کی قوت خرید کچھ بڑھ سکے گی۔ اقتدار میں نہ ہوں، تو وہی کرتے ہیں جو آج کل ہو رہا ہے۔ پھر غریب کی حالت کیسے سدھرے گی؟ سیاسیوں کی بات ہم اس لئے کر لیتے ہیں کہ وہ کم از کم سن کر توجہ کسی اور طرف کر دیتے ہیں۔ اب جو ہمارے سیاسی افق پر نئے نمودار ہوئے ہیں‘ ان کے بارے میں بات کرنے سے بھی خوف آتا ہے۔ نہ جانے ہم کہاں جا رہے ہیں، کیا ہو گا اس ملک کا؟ بہتر یہی ہے کہ ہم اپنے کام سے کام رکھیں، جب ہم کچھ کر ہی نہیں سکتے تو کسی کو کیا سمجھانا، کسی سے کیا گلہ کرنا، وعظ و نصیحت والے جانیں یا وہ جن کے پاس ان کا سوفٹ ویئر درست کرنے کا ٹھیکہ ہے۔
یہ بھی تو ایک فرق ہے کہ ہمارے شہری اپنے اپنے شہروں میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اعلان سنتے ہی کہ کوئی گروہ کسی شہر سے اسلام آباد کی طرف گامزن ہے، اور شہری اپنے اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب ہمارے محافظوں پر حملے ہوں، دن دیہاڑے قتل کر دئیے جائیں، کوئی گرفتار ہو نہ کوئی مقدمہ چلے، تو عام شہری تو منہ سے کچھ کہنے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا ہے۔ نئے دھڑے پیدا ہو رہے ہیں جن کا راستہ نہ روکا گیا تو نہ رہے گی سیاست اور نہ کہیں نام ہو گا ہماری بگڑی ہوئی جمہوریت کا۔ ذہن میں خیال سا ابھرتا ہے کہ کون انہیں قانون کے دائرے میں رکھنے اور ان پر وہی قانون نافذ کرنے کی ذمہ داریاں نبھائے گا، جس قانون کے عام شہری پابند ہیں۔
یہ سمجھ کر کہ ”ہنوز دلی دور است‘‘ آپ کو شہرِ اقتدار میں لے آتا ہوں، جہاں پوش مارکیٹوں میں امیروں کے چائے خانے کھلتے ہی جا رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ جس علاقے میں یہ فقیر رہتا ہے عام سا ہے، مرکز میں عرصہ بعد گیا تو آنکھیں کھل گئیں۔ ایک ہی جگہ تقریباً تیرہ چائے خانے دیکھے۔ میزیں باہر سجی ہوئیں، بڑی گاڑیوں والے خواتین و حضرات کی آمد و رفت اور یونی فارم میں ملبوس ویٹرز گردش کرتے ہوئے۔ مینو دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ کافی اور چائے کا فقط ایک کپ پانچ سو روپے سے بھی زیادہ میں‘ کھانا تو ہزاروں میں۔ ہم دال روٹی والے ایسی جگہوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے کہ جیب اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ایسی جگہوں پر عام آدمی کی کہاں گنجائش بنتی ہے؟ وہ بس یہاں چکر لگا سکتا ہے‘ ہلا گلہ دیکھ سکتا ہے‘ اس سے زیادہ نہیں۔ ان چائے خانوں کے بالکل مخالف سمت میں تازہ چائے اور کھانے پینے کی اتنی ہی تعداد میں جگہیں ہیں۔ یہاں عام آدمی ، غریب، مزدور، دیسی قسم کے لوگ آتے ہیں۔ یہاں تعداد چائے خانوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ معیار بھی عوامی ہے۔ لوگ آتے ہیں‘ کھاتے پیتے ہیں‘ بات چیت کرتے‘ گپیں لگاتے ہیں اور پھر اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ ایک ہی جگہ پر واقع دو مختلف جگہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ایک جگہ چائے یا کافی کا فقط ایک کپ پانچ سو روپے کا اور دوسری طرف تیس چالیس روپے کا۔ مغرب میں یا ترقی یافتہ مشرق میں یہ فرق آپ کو نمایاں نظر نہیں آئے گا۔ پتا نہیں ہم پر ایلیٹ کلچر اتنا کیوں مسلط ہے کہ عام مارکیٹوں میں بھی خور و نوش کی جگہیں عوام سے الگ کر رکھی ہیں۔ چالیس سال قبل ایسا نہ تھا۔ جن شہروں میں ہم رہے ہیں، عوامی جگہیں صاف ستھری اور جاذب نظر ہوا کرتی تھیں۔ بڑے لوگ کہیں اور چلے گئے، تو وہ بھی معیار کھو بیٹھیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author