مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محمد رفیع کو ازسرنو دریافت کیا جارہا ہے||رضاعلی عابدی

سوشل میڈیا پر رفیع کے گائے ہوئے نئے پرانے گانے گائے جا رہے ہیں اور ایک دنیا ان گانوں کا دم بھر رہی ہے۔ان گلوکاروں میں لڑکیاں بھی ہیں جن کی تانیں اُتنی اونچی ہیں جن کی بلندیوں نے محمد رفیع کو شہرت اور عزت عطا کی تھی۔ پہلی بات جو ہر اچھے برے علاقے پر صادق آتی ہے،یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی معلوم تاریخ میں کورونا نام کی جان لیوا وبا نے کبھی اور کہیں سر نہیں اٹھایا۔ وبائیں بہت پھیلیں ، بارہا پھیلیں اور مزید پھیلیں گی لیکن انسان کے ہزاروں سال کے تجربے میں کورونا جیسی وبا کا کہیں حوالہ نہیں ملتا جس سے انسان نے کچھ سیکھا ہو اور جس کا اُسے تجربہ رہا ہو۔وبا تو بس کہیں سے نکلی اور اس نے ساری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا۔ اس نے انسان کو مارا ، سمجھ میں آتا ہے مگر اس نے جینے کے ڈھنگ کی صورت بگاڑ کر رکھ دی۔ وہ جو روز مرہ کا نظام چلا کرتا تھا اس کی چال بے ڈھب ہوگئی، اس کے قدم لڑکھڑانے لگے اور بارہا یوں لگا کہ نظام زندگی کی دیوار اب گری اور اب گری۔یہ سب سمجھ سے باہر ہے۔ برطانیہ کا معاملہ پاکستان سے جد انہیں۔ بجلی کے نرخ بڑھنے کو ہیں، گیس کی قلّت سر پر کھڑی ہے، ہر شے مہنگی ہور ہی ہے۔ اشیا بنانے والوں نے پرانی قیمت برقرار رکھنے کیلئے مال کے پیکٹ، ڈبّے اور بوتلیں چھوٹی کردی ہیں۔پٹرول میں تو عملاً آگ لگی ہے، فی بیرل کا حساب رکھنے والے حیران ہیں کہ تیل کی قیمتیں کہاں رکیں گی۔ گیس کے بارے میں تو لوگوں کو خبر دار کردیا گیا ہے کہ آنے والے جاڑوں کی خیر منائیں۔ان تمام علتوں کے بعد قدرت بھی اپنی چال بدلنے کو ہے،دنیا کا موسم اپنے تیور بدل رہا ہے۔ اس سال درختوں پر کچھ پھل آئے ہی نہیں۔ ٹھنڈے علاقوں میں موسم گرما کی فصلیں اُگ رہی ہیں، قطبین میں لاکھوں برسوں سے جمی ہوئی برف پگھل رہی ہے۔شہزادہ چارلس پچھلے دنوں یہ کہتے سنے گئے کہ لوگوں کو اپنی زمین سے زیادہ خلا کی فکر ہے کہ لوگ بھاری خرچ اٹھا کر تفریح کی غرض سے خلا کے سفر پر جانے لگے ہیں ۔تصور کیجئے کہ برطانیہ میں چھ سال سے زیادہ پرانی کاریں وسطی لندن میں داخل نہیں ہو سکیں گی یا بھاری رقم ادا کرنی پڑے گی۔بدلتے حالات اپنے ساتھ ایسے ایسے کتنے ہی عذاب لے کر آرہے ہیں۔ دشواریاں بڑھتی جارہی ہیں، ایک اور غضب یہ ہوا ہے کہ اس پڑھے لکھے معاشرے میں جہاں ہر ذی شعور نے سارے ٹیکے لگوالئے ہیں اس کے باوجود کورونا پھر سے پھوٹ پڑا ہے۔کہاں تو ہر روز مرنے والوں کی تعداد چھ سات رہ گئی تھی ، کہاں کورونا کا لقمہ بننے والوں کی تعداد دو سو یومیہ ہوجائے تو تعجب نہیں ہوگا۔ کہتے ہیں کہ جاڑے اس بارخدا جانے کب کا حساب چکائیں گے اور خاص طور پر کتنے معمر مریض لقمہ اجل بنیں گے۔کیا ان تمام آفتوں کا الزام حکومت کے سر پر دھریں؟ کیا لیبر پارٹی کو چاہئے کہ آپے سے باہر ہوجائے اور ٹوری پارٹی کی حکومت کی بنیادوں میں بارود لگائے۔کیا حکومت کو تبدیل کرنا ہی ہر مسئلے کا حل ہے، کیا ہر وہ حکومت نالائق، نا اہل، جاہل اورخدا جانے کیا کیا ہے جو آپ کی نہیں؟یہ رویہ سمجھ میں آتا ہے مگر اس میں حد سے بڑھی ہوئی شدّت سمجھ میں نہیں آتی۔چلئے مانا کہ موجودہ حکومت جو کچھ بھی کر رہی ہے غلط ہے تو کوئی بتائے کہ پھر صحیح کیا ہے۔ متبادل کیا ہے، علاج کیا ہے، دوا کیا ہے؟ اس پر یاد آیا کہ دوا کے معاملے میں منافع خوروں نے سارے نئے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ مریضوں، معذوروں اور لاچاروں کی بےبسی سے منافع نچوڑنا یقیناً بھاری جرم ہے اور اس کی معافی نہیں مگر اس کا یہ علاج بھی نہیں کہ حکومت کو کان پکڑ کر مسند اقتدار سے اتار دیا جائے اور کسی دوسرے کو بٹھا دیا جائے کہ وہ جو کچھ کرے گا، وہ تاریخ بارہا دکھا چکی ہے۔اس کی سند تاریخ سے ملتی ہے۔سب کہتے ہیں کہ ہمارا زمانہ اچھا تھا۔ اگر اچھا ہوتا تو ،خلقت آپ کو سر پر بٹھاتی، چومتی اور آنکھوں سے لگاتی۔ایسا دوسرو ں کے ہاں ہوتا ہوگا، ہمارے ہاں تو ایسی نہ کوئی ریت ہے نہ روایت۔سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آئین میں پابندی نہ ہوتی تو کلنٹن عمر بھر صدر رہتے۔ ہنسی آتی ہے ایسی باتیں سن کر، اور رونا بھی۔

رضاعلی عابدی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعجب ہے کہ ایک شخص کو دنیا سے سدھارے چالیس برس ہورہے ہیں تو دنیا کو یہ احساس ہور ہا ہے کہ وہ عام قیاس سے بھی کہیں زیاد ہ با کمال گلوکار تھا۔

آج پورے ملک میں جگہ جگہ پرانے گانو ں کی محفلیں آراستہ ہیں اور خدا جانے کہاں کہاں سے کتنے ہی نوجوان نمودار ہوئے ہیں جن کو قدرت نے رفیع جیسا گلا اور ان ہی جیسی آواز عطا کی ہے۔

سوشل میڈیا پر رفیع کے گائے ہوئے نئے پرانے گانے گائے جا رہے ہیں اور ایک دنیا ان گانوں کا دم بھر رہی ہے۔ان گلوکاروں میں لڑکیاں بھی ہیں جن کی تانیں اُتنی اونچی ہیں جن کی بلندیوں نے محمد رفیع کو شہرت اور عزت عطا کی تھی۔

ہم نے انٹرنیٹ پر موسیقی کی ایک محفل دیکھی جس میں رفیع کے گائے ہوئے نغمے گائے جارہے تھے اور پیچھے دیوار پر لکھا تھا:اَلٹی میٹ سنگر، یعنی گویّا جس پر گلوکاری تمام ہوئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فلمی صنعت میں کندن لال سہگل کا بڑا نام ہے لیکن اس میدان میں جیسے جیسے ہنر رفیع نے دکھائے ان کی مثال نہیں ملتی۔

عام چلتے ہوئے گانوں سے لے کر کلاسیکی رنگ میں ڈوبے ہوئے گانے جس مہارت سے رفیع صاحب نے گائے اس کی قدر آج چالیس سال بعد ہی سہی مگر شکر ہے کہ زمانے کی چال بدل جانے کے باوجود نئی نسل بھی رفیع کی گائیکی کی قدر کر رہی ہے۔

ان کی سادگی، بھول پن، خاموشی اور کم گو ہونے کی اداسے باقی دنیا واقف نہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ کتنے سادہ لوح تھے۔ ان سے سوال کرو تو جواب نہیں دے پاتے تھے اور گانے کو کہوتو گھبرا جاتے تھے۔ بھولے اتنے تھے کہ کسی کمپنی کے لئے گانا ریکارڈ کرایا اس سے پہلے ہر گانے کامعاوضہ فرض کیجئے آٹھ سو روپے تھا۔

گھر آکر نوٹ گنے تو وہ ایک ہزار تھے(کمپنی نے خود ہی نرخ بڑھا دیا تھا)فوراً ہی اپنے بیٹے کو دوڑایا کہ دو سو روپے واپس کرکے آؤ۔ کمپنی والوں نے بہت کہا کہ ریٹ بڑھ گیا ہے مگر بضد رہے کہ مجھ سے آٹھ سوروپے طے ہوئے تھے۔

پھر اسی معاوضے کے معاملے پر وہ واقعہ ہوا جو ہندوستان کی فلمی صنعت کے دامن پر سیاہ داغ بن کر رہے گا۔رائلٹی کے سوال پر لتا منگیشکر نے اصرار کیا کہ ریکارڈ جتنی بار نشر ہو، اتنی ہی بار رائلٹی ادا کی جائے۔ ہمارے بھولے بھالے محمد رفیع صاحب اختلاف کرنا کیا جانیں لیکن اُس روزضد کرنے لگے کہ جب معاوضہ کی رقم مل گئی تو اس کے بعد اور بار بار پیسے طلب کرنا مناسب نہیں۔

روایت یہ ہے کہ لتا منگیشکر اس پر برہم ہوئیں اور اتنی برہم ہوئیںکہ رفیع صاحب کا سوشل بائیکاٹ کردیا ، ایسا کہ معاشرہ تعلق توڑ لے اور انسان بھوکا مرے۔لتا نے اعلان کردیا کہ جو سازندہ رفیع کے ساتھ ساز بجائے گا اسے پھر لتا کے ساتھ بجانے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اس وقت تو ہر گانا لتا ہی گارہی تھیں۔سازندوں نے ہاتھ جوڑ لئے اور رفیع کے ساتھ ساز بجانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ان کے گھرمیں فاقے ہوجائیں گے۔وہ بہت بُرا وقت تھا ۔ لتا جی نے دوسرے گلوکاروں کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔

مثال کے طور پر مکیش کے بیٹے کو بڑھاوا دیا۔ وہ بے چارہ ناکام رہا، کشور کمار کو اوپر اٹھایا گیا۔ بات اتنی بڑھی کہ نوشاد علی صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک روز رفیع ان کے گھر اس طرح پہنچے کہ ان کے آنسو رواں تھے۔ نوشاد نے انہیں پیار سے بٹھایا اور آہستگی سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔

رفیع نے کہا کہ یہ اناڑی میوزک ڈائریکٹر مجھ سے کتوں اور بلیوں کی آوازیں نکلوا رہے ہیں اور یہ کہ میں بہت ہی معمولی گویّا ہوں۔نوشاد کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور رفیع کے ریکارڈ لگا کر کہاکہ یہ آپ گا رہے ہیں۔دھیان سے سنئے کہ یہ آپ کی گائیکی ہے۔

اس کے بعد کیا ہوا، میںقیاس کر سکتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر کچھ ایسے عنوان دیکھنے میں آئے: ڈارک سائیڈ آف لتامنگیشکر، لتا کی شخصیت کا تاریک پہلو۔سنا ہے اس واقعے کا لتا کو پچھتاوا رہا اور جس روز رفیع کا انتقال ہوا، لتا بارش میں بھیگتی ہوئی جیسے تیسے رفیع کے گھر تعزیت کے لئے پہنچیں اور دیر تک وہاں خاموش بیٹھی رہیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ یہ بات طے ہے کہ رفیع کی زندگی میں جتنی قدر ہوئی سو ہوئی لیکن اپ چالیس سال بعد وہ قدر دو چند ہوگئی اور گلوکاری کو سمجھنے والے رفیع کی خوبیوں کو اب پہلے سے زیادہ پرکھنے لگے ہیں۔

آئیے ان کے گائے ہو ئے کچھ ایسے نغموں پر نگا ہ ڈالیں جو پچاس سال بعد ایک بار پھر گونجے ہیں اور وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔:ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ہم کو یہ سکھایا ہے، دل نے جسے پایا تھا، آنکھوں نے گنوایا ہے۔

تیرے بن سونے نین ہمارے۔یاد نہ جائے بیتے دنوں کی۔ مجھے درد دل کا پتا نہ تھا ،مجھے آپ کس لئے مل گئے۔جاگ دل دیوانہ رت جاگی وصل یار کی۔ مجھے تیری محبت کا سہارا مل گیا ہوتا۔

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا۔ ہم بے خودی میں تم کو پکارے چلے گئے۔ کھویا کھویا چاند، کھلا آسمان ۔ ساتھی نہ کوئی منزل۔ اپنی تو ہر آہ ایک طوفان ہے۔ کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا۔ تیرے میرے سپنے اب ایک رنگ ہیں۔جانے کیادھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں۔

سہانی رات ڈھل چکی، نا جانے تم کب آؤ گے۔ نگاہیں نہ پھیرو، چلے جائیں گے ہم۔ میں نے چاند اور ستاروں کی تمنّا کی تھی۔مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے۔ہم اور تم اور یہ سماں کیا نشہ نشہ سا ہے، بولئے نہ بولئے، سب سنا سنا سا ہے۔یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے۔

رفیع کے بارے میں کہتے ہیں کہ حج کا فریضہ ادا کرنے کے بعد ان کا دل موسیقی کی طرف سے اچاٹ ہوگیا تھا۔ وہی دل جو پہلے ہی ملائم تھا، اور زیادہ نرم ہوگیا۔ کچھ نئے فلم ساز ان سے کہتے تھے کہ بجٹ کم ہے وہ پورا معاوضہ نہیں دے سکتے تو رفیع ان کے لئے بلا معاوضہ گاتے تھے۔

ان کے بارے میں مشہور ہے کہ جب انہیں دلی کے لال قلعے میں ملک کا بڑاصدارتی ایوارڈ دیا گیا تو ان سے کہا گیا کہ آپ کی کوئی خواہش ہو تو بتائیے۔ اپنی مخصوص لجاجت کے ساتھ بولے : بس جی میں چاہتا ہو ں کہ لوگ مجھے رفیع صاحب کی بجائے محمد رفیع کہا کریں۔

ایسے لوگ بار بار پیدا نہیں ہوتے۔

بشکریہ جنگ

مولانا مجھے نہ کہا جائے۔۔۔رضاعلی عابدی

کچھ لوگ ٹیکہ لگائیں گے۔۔۔رضاعلی عابدی

جمہوریت کا تجربہ بھی ناکام ہو رہا ہے؟۔۔۔رضاعلی عابدی

رضا علی عابدی کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: