اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کہانی میں آئیٹم سونگ ہونا چاہیے||ملک سراج احمد

اگر دنیا کی بات کریں تو صاحبو زرا غور کرو کہ ن لیگ کی حکومت کو سیاسی مذہبی جماعت کی طرف سے دباو کا سامنا تھا کپتان کی سربراہی میں اپوزیشن سڑکوں پر ہورہی تھی

ملک سراج احمد

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یکسانیت ہمیشہ بور کردیتی ہے زندگی میں جب تک کچھ نیا نا ہو تب تک زندگی جینےکا بھی مزہ نہیں آتا۔اسی طرح سیاست میں بھی اگر یکسانیت کا تاثر آنے لگے تو سیاست سے بھی دل اچاٹ ہوجاتا ہے ۔یہی کچھ ان دنوں ہمارے ساتھ ہورہا ہے ۔ملکی سیاسی سطح پر جو کچھ ہورہا ہے سب کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے ۔کسی وقت تو سیاسی حالات دیکھ کر دل کرتا ہے کہ یہ تو وہی جگہ ہے گذرے تھے ہم جہاں سے گنگنایا جائے۔مطلب یہ کہ کچھ بھی نیا نہیں ہے سب کچھ وہی ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا ہے ۔کپتان ہے کہ کنٹینر سے اترنے کا نام نہیں لے رہا ۔پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ حکومت کے خلاف احتجاجی ویڈیوز بھی کپتان کی چلائی جارہی ہیں۔کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ کپتان بمقابلہ کپتان چل رہا ہے۔
مہنگائی ، بے روزگاری ، امن وامان کی ناقص صورتحال ، کرپشن کا عروج اور ہر جائز کام کے لیئے سرعام رشوت کی طلبی ، بنیادی ضروریات زندگی کو ترستی ہوئی عوام کے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے اور آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے پرجوش نعروں سے ماحول پر یکسانیت چھائی ہوئی ہے ۔حد ہوگئی ہے گزشتہ کئی سالوں سے ایک ہی نعرے لگائے جارہے ہیں اگر بالفرض حکمرانوں کو شرم نہیں آئی تو عوام ہی کچھ خیال کرئے اور کم سے کم مطالبے تو نئے کرئے ایک ہی بوسیدہ نعرے کہ روٹی دو ، روزگار دو۔یہ ستم ظریف مانگتے اتنے ناز سے ہیں جیسے ان کو مانگنے سے مل جائے گا۔
کون دیتا ہے اور کیوں دے گا ان کروڑوں سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے بدنصیبوں کو۔کیا ملکی خزانہ انہی عیاشیوں کے لیئے بھرا جاتا ہے کہ جب کوئی ضرورت مند چیخ و پکار کرئے تو اس کی ضرورتیں اور حاجتیں پوری کردی جائیں۔ ۔ہرگز ملکی خزانہ ان کاموں کے لیئے نہیں ہوتا ۔راہ چلتے لوگوں کو کیا علم کہ ملک کیسے چلائے جاتے ہیں اور کس طرح کے اخراجات کرنے پڑتے ہیں ۔اگر عوام کو ہی فائدہ پہنچانا ہے تو پھر حکومت کرنے کا کیا فائدہ لہذا خاطر جمع رکھیں اور اچھے وقت کا انتظار کریں فی الوقت تو حاکم زاتی مصروفیات کے سبب ننگے پاوں فوٹو سیشن کرانے میں مصروف ہیں۔
مقام حیرت ہے کہ مسیحا کروڑوں لوگوں کو پریشان حال چھوڑ کر زاتی معاملات کے سدھار کے لیئے چکر لگانے میں مصروف ہیں ۔خدا جانے کیا سوچ کر کس چکر میں ہیں کیا اس طرح جان خلاصی ہوجائے گی ۔پچھلی بار بھی کالعدم تحریک کا لاہور چوک یتیم خانہ پر دھرنا شروع ہوا تو بات چیت کی بجائے طاقت کا استعمال کیا گیا کئی بے گناہ مارے گئے اور اسکے فوری بعد کپتان حجاز مقدس کی طرف روانہ ہوگئے اور اس بار بھی جب وہی جماعت کیئے گئے تحریری وعدے پر عمل درامد کے لیے احتجاج کررہی ہے تو بجائے معاملات کو سنبھالنے کے ایک بار پھر رخ حجاز مقدس کی طرف ہے ۔
کتنی یکسانیت ہے کہ ن لیگ کے دورمیں بھی اسی طرح سیاسی مذہبی جماعتیں سراپا احتجاج تھیں جس کے نتیجے میں ماڈل ٹاون کا سانحہ رونما ہوا۔اس وقت موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کپتان بھی احتجاج میں شامل ہوگیا۔یہ توکپتان شکر کرئے کہ موجودہ سیاسی بحران میں کسی سیاسی جماعت نے پختہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے کالعدم ٹی ایل پی کے مارچ میں شرکت کی حامی نہیں بھری وگرنہ جو کام دوسال بعد ہوناہے وہ اسی ماہ میں ہوجاتا ۔یہ شائد اس لیئے بھی ہے کہ ملکی سیاسی جماعتیں کپتان کو پورا موقع دے رہی ہیں کہ کپتان اپنی کارکردگی دکھا سکے اور اس کو مظلوم بننےکا موقع نہیں ملنا چاہیے۔اور کپتان ہے کہ مظلوم بننے کے لیئے ہر حربہ آزما رہا ہے۔
سول سپریمیسی کے نام پر نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا کہ شائد کوئی راہ نکل آئے مگر کچھ نہیں ہوا اور نا ہی ہوگا ۔پانی پلوں کے نیچے سے گذرنا ہے آج نہیں تو کل ہوگا وہی جو چوہدری چاہے گا اور اس گاوں کے چوہدری کو کون نہیں جانتا۔جبکہ چھ بلین ڈالر کے ترقیاتی پیکج کی خاطر نہ بکنے والے نہ جھکنے والے کپتان کی معاشی ٹیم آئی ایم ایف کے سامنے لیٹی ہوئی ہے مگر وہ نہیں مان رہے ۔بدمعاش ساہو کاروں کو علم نہیں کہ کپتان کتنا مقبول لیڈر ہے اب تو فواد چوہدری بھی مان گیا ہے اور کہتا ہے کہ اگر کپتان دہلی میں جلسہ کرئے تو مودی سے زیادہ بڑا جلسہ کرئے گا۔خیر ہو فواد چوہدری کی کہ اس بیان کے بعد تو یہ جنت سے بھی آگے نکل گیا۔
اگر دنیا کی بات کریں تو صاحبو زرا غور کرو کہ ن لیگ کی حکومت کو سیاسی مذہبی جماعت کی طرف سے دباو کا سامنا تھا کپتان کی سربراہی میں اپوزیشن سڑکوں پر ہورہی تھی ، ابتر حالات کے سبب عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا تھا۔بالکل یہی کچھ کپتان کے ساتھ ہورہا ہے ۔گویا ایک ہی کہانی کو دوبارہ دہرایا جارہا ہے بس کرداروں کے نام مختلف ہیں وگرنہ حالات اور کم وبیش انجام ایک ہی جیسا ہے۔اب ایک ہی جیسی کہانی کی فلم کو کوئی کب تک دیکھے ۔وہ فلم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس کے اگلے منظر کا شائقین کو اندازہ ہو ایسی فلم سے بوریت پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔ستم در ستم یہ کہ فلم کے کرداروں کی ناقص اداکاری سےبھی شائقین کا غصہ آسمان کو چھونے لگتا ہے کہ ٹکٹ کے پیسے ضائع ہوگئے وقت کا ضیاع ہوا۔اب اس ضمن میں گلہ تو نہیں کرسکتے بس کہانی لکھنے والوں سےاپیل کرنی ہے کہ قبلہ ابتدا ہی میں بتا دیا تھا کہ یہ فلم اپنےاسکرپٹ اور کاسٹ کے سبب باکس آفس پر بری طرح فلاپ ہوگی لہذا اگر فلم چلانی ہے تو روایتی کہانی کی بجائے کچھ مصالحہ ڈالیں تاکہ شائقین کی دلچسپی بڑھ سکے اور اسی بہانے فلم کچھ دن مزید پردہ سکرین پر موجود رہے ، تاکہ کچھ نا کچھ بزنس کرجائے ۔اگر زیادہ کچھ نہیں کرسکتے تو کہانی میں ایک آدھا آئیٹم سونگ ہی ڈال دیں۔اور اگر آئیٹم سونگ بارش میں فلمایا گیا تو ہُل ہُل پئے جائے گی ۔

مصنف سے رابطہ کیلئے 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

ملک سراج احمد کے مزید کالم پڑھیے

%d bloggers like this: