حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسِ پردہ کیا ’’چل‘‘ رہا ہے زیادہ بہتر کوئی جوتشی بتاسکتا ہے البتہ جو سمجھ میں آرہا ہے وہ یہ ہے کہ آستانہ عالیہ آبپارہ شریف اور مرکزِ "تجلیاتِ سول سپر میسی” جاتی امرا شریف کے مجاہدین لنگر لنگوٹ کس کر پیپلزپارٹی کے خلاف میدان میں کودچکے۔
ایک مجاہد اعظم وائسرائے نے مرحوم جنرل نصیراللہ بابر کے حوالے سے انکشاف کیا کہ
’’انہوں نے مجھ سے ایک ملاقات میں کہا تھا میں محترمہ بینظیر بھٹو کےقتل پر تعزیت کے لئے کس کے پاس جاتا، قاتل تو وہیں اندر بیٹھے تھے اس لئے میں خاموشی سے گڑھی خدا بخش گیا اور قبر پر فاتحہ پڑھ کر واپس آگیا‘‘۔
یہ کہانی جو اب جنرل نصیراللہ بابر مرحوم سے منسوب کرکے روایت کی گئی نئی بالکل نہیں۔ اس کے خالق جنرل پرویز مشرف ہیں۔
مشرف نے یہ کیوں کہا، اس کا جواب یا یوں کہہ لیجئے کہ اس کے پس منظر میں افغان صدر (اب سابق) حامد کرزئی اور محترمہ بینظیر بھٹو کی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات 27دسمبر 2007ء کی صبح راولپنڈی میں ہوئی تھی۔ اسی شام محترمہ راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر قتل کردی گئیں۔
حامد کرزئی نے محترمہ سے کہا
’’آپ آج شام کے جلسہ میں شرکت نہ کریں ہماری اطلاع کے مطابق آپ کی جان لینے والا شارپ شوٹر پاکستان پہنچ چکا ہے۔ کرزئی کہتے ہیں ہماری اطلاع مستند ہے۔ شوٹر افغانستان کے راستے پاکستان داخل ہوا ہے۔ پشاور میں اسے موقع نہیں مل سکا‘‘۔
محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقات اور کرزئی کا انتباہ ریکارڈ پر ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد جائے وقوعہ کی صفائی ستھرائی میں جس جلد بازی سے کام لیا گیا اور فوری طور پر دیوان گانِ پرویز مشرف نے جوکہانیاں آگے بڑھائیں اس پر سوالات اٹھے۔
مارک سیگل کے نام محترمہ کی ای میل سامنے آئی اور چند دوسرے سوالات نے جنرل پرویز مشرف کو ملزم بناکر کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ بجائے اس کے کہ مشرف ان سوالات کاجواب دیتے انہوں نے اشاروں کنایوں سے آصف علی زرداری کو اس قتل کے سہولت کار کے طور پر پیش کیا۔
کہا گیا زرداری نے فون پر بی بی سے گاڑی سے باہر نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کو کہا۔ پھر کہا گیا زرداری نے آصفہ سے کہا ماں کو فون کرو کہ گاڑی سے باہر نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے۔
دونوں باتوں کو پَر لگ چکے تو خود مشرف بولے بینظیر کے قاتل وہی ہیں جو بینفشری ہیں۔ کالم کے دامن میں گنجائش کم ہوتی ہے اس لئے اُن دنوں کی ساری بحثوں کو یہاں سمیٹنا مشکل ہے۔ اخبارات و جرائد کے ریکارڈ موجود ہیں جس کا جی چاہے ان کہانیوں کی تصدیق کرلے۔
فی الوقت سوال یہ ہے کہ جناب پرویز مشرف کے اس دعویٰ کو ایک مخصوص گروپ پچھلے 14برسوں سے آسمانی صحیفے کے طور پر کیوں پیش کررہا ہے؟۔
اب ایسا کیا ہوگیا کہ مشرف کی پیش کردہ کہانی مرحوم نصیراللہ بابر کے منہ میں ڈال دی گئی؟
ویسے اگر بینفشری والا اصول درست ہے تو لیاقت علی خان کے قتل کا فائدہ کس کو ہوا۔ ضیاء الحق کے قتل کا میاں نوازشریف کو ہوا تو کیا نوازشریف ضیاء الحق کے قاتل ہیں؟
پچھلے 14برسوں سے منظم انداز میں یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں زرداری ملوث ہے۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے 8، 9ماہ بعد تک مشرف اقتدار میں رہے تحیقات کروالیتے۔
انہوں نے تو بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ کے ذریعے کرائم سین (جائے وقوعہ) دھلوانے کا بندوبست کیا تھا۔ پچھلے 14برسوں میں 5برس (ن) لیگ اقتدار میں رہی تین سال سے تحریک انصاف اقتدار میں ہے، پی پی پی سے ہجرت کرکے انصافی بننے والے پیپلزپارٹی اور زرداری کے بارے میں مشرف والی زبان استعمال کرتے ہیں۔ اگر مشرف کی کہانی درست ہے تو اس کی تحقیقات کا مطالبہ کوئی کیوں نہیں کرتا۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مشرفی کہانی تقریباً ہر اس صحافی نے آگے بڑھائی جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ ایجنسیوں کی فراہم کردہ دستاویزات پر تحقیقاتی صحافت کی "دکان” چلاتا ہے۔
مشرف کی کہانی مرحوم نصیراللہ بابر کے منہ میں ڈال کر پیش کرنے والے آبپاروی مجاہد کی آصف علی زرداری سے ذاتی رنجش ہے۔ اس رنجش کی کہانی چار صحافیوں کی ایوان صدر میں آصف علی زرداری سے ملاقات کے باقی تین شرکا بھی سنا اور لکھ چکے۔
سو یہاں اسے پھر سے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ تصویر کاایک رخ تھا، دوسرا رخ یہ ہے کہ پچھلے سال ایک موصوف ایک مذہبی برادری کے خلاف سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلانے کے جرم میں گرفتار ہوئے تو انہیں مجاہد سول سپر میسی کے طور پر پیش کیاگیا۔
اس وقت بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھاکہ کیا مسلم لیگ (ن) جماعتی طور پر اس نفرت انگیز مہم کو اون کرتی ہے جو ایک مذہبی برادری کے خلاف گرفتار ہونے والے مجاہد نے چلائی؟
تب فقط (ن) لیگ میں سے رانا ثناء اللہ نے کہا ہماری جماعت کسی مذہبی برادری کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے کی حامی نہیں۔ گرفتار ہونے والے صحافی کا اصل جرم اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنا ہے۔
پچھلے چند دنوں سے یہی مجاہد سول سپر میسی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے خلاف ٹیوٹر پر ایک غلیظ مہم شروع کئے ہوئے ہیں اس مہم میں جاتی امرا نیوز کے ملازمین اور مددگار سیاسی عقیدت اور سول سپر میسی انقلاب کے جذبہ سے شریک ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ مشرف کی کہانی نصیراللہ بابر کے منہ میں ڈال کر پیش کرنے اور محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی کردار کشی کا سلسلہ ایک ہی وقت میں شروع ہوا ؟
یقیناً اتفاق ہی ہوگا کیونکہ کل تک جو سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو مجموعی طور پر 2018ء کے انتخابی نتائج چرانے کا ذمہ دار قرار دیتے تھے
(تسلی کے لئے پی ڈی ایم کے پچھلے سال گوجرانوالہ میں منعقد ہونوالے جلسہ میں میاں نوازشریف کے ویڈیو لنک خطاب کو یوٹیوب پر سنا جاسکتا ہے)
اب انہوں نے ایک فرد کو ساری صورتحال کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔
فیصل آباد کے جلسہ کی تقریر بدلی ہوئی سوچ کا زندہ ثبوت ہے۔
پیپلزپارٹی کے خلاف دو محاذ اچانک کھلے نہ اتفاق سے کھلے۔ یہ طے شدہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔
سیاسی جماعتوں میں اختلافات ہوتے ہیں یہ اختلافات ان کے ملازموں، حامیوں، ہمدردوں اور محب قسم کے اہل صحافت میں بھی پائے جاتے ہیں لیکن پچھلے چند دنوں سے ’’اونٹ‘‘ نے جو کروٹ لی ہے یہ عادتاً نہیں ضرورتاً ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کسی کو محفوظ راستہ دینا مقصود ہے۔ ’’وہ کسی‘‘ کون ہے؟ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ’’مہم جوئی‘‘ کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ کوئی چاہتا ہے کہ سیاست ایک بار پھر پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں والی بند گلی میں پھنس جائے۔
لیکن ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔ ہم سے مراد سیاستدانوں سیاسی جماعتوں اور عوام ہیں۔
ہمارے دوست استاد مشتاق احمد کہتے ہیں شاہ جی پیپلزپارٹی بے نظیر کے قتل والے الزام کا جواب دے۔ وہ درست کہتے ہیں پیپلزپارٹی اس تحقیقاتی صحافت کے خوانچہ فروش کو عدالت لے جائے اور ثبوت مانگے اس سے
لیکن اس میں یہ بات ضرور مدنظر رکھنا ہوگی کہ یہ مشرفی کہانی درحقیقت 27دسمبر 2007ء کی صبح محترمہ بینظیر بھٹو اور افغان صدر حامد کرزئی کی ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے منظرعام پر آنے کے بعد گھڑی گئی تھی
ورنہ 27اور 28 دسمبر 2007ء کی درمیانی رات میں وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال چیمہ نے تو کہا تھا
’’ہمیں لیاقت آباد کے سٹیج کے عقب سے ایک غیرملکی کی لاش ملی ہے”۔
جناب چیمہ نے جس وقت یہ بات کہی درجنوں صحافی پریس بریفنگ کے لئے موجود تھے۔ چیمہ صاحب 28دسمبر کو سہ پہر تین بجے والی بریفنگ میں رات والی بات سے مکر گئے اور انہوں نے طالبان کی ٹیلیفون کال والی کہانی آگے بڑھائی۔
29دسمبر کو مشرف نے بینفشری والی بات کہی۔
اب حساب کتاب خود کیجئے اور فیصلہ بھی کہ سچ کیا ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ