مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہنگا خدا
مبشر علی زیدی
“میں ایک ملحد ہوں۔ لیکن میری شادی ہوگئی ہے۔ بیوی کہتی ہے کہ سب لوگوں کے گھر میں خدا ہے، ہمارے گھر میں کیوں نہیں؟
تو بھائی کوئی اچھا سا خدا دکھا دو۔۔” میں نے دکاندار سے فرمائش کی۔ “
کون سے مذہب کا خدا چاہیے؟ ۔۔یہودیت، مسیحیت، ہندومت، اسلام؟” دکاندار نے سوال کیا۔ “
کیا ان سب کا خدا الگ الگ ہے؟” میں نے سر کھجا کے پوچھا۔
“ہاں، ہر مذہب کا، بلکہ ہر فرقے کا، ہر قوم کا، ہر زبان کا، ہر نسل کا، ہر برادری کا، ہر علاقے کا خدا الگ ہے۔” دکاندار نے معلومات فراہم کیں۔
مجھے الجھن میں پڑا دیکھ کر اس نے کہا، “تم رہتے کہاں ہو؟ اپنا پوسٹ کوڈ بتاؤ۔”
میں نے پوسٹ کوڈ بتایا۔ اس نے اپنے کمپیوٹر میں ڈال کر دیکھا۔ پھر مطلع کیا، “تمھیں مسلمانوں کا خدا لینا پڑے گا۔ شیعوں کا خدا شارٹ ہے۔ تم سنیوں کا خدا لے سکتے ہو۔” میں نے کندھے اچکائے۔ وہ ایک ڈبا پیک خدا لے آیا۔ “یہ غریبوں کا خدا ہے۔ ہر وقت غصے میں رہتا ہے۔ آتے جاتے ڈانٹتا رہتا ہے۔ اسے مطمئن کرنے کے لیے دن میں پانچ بار نماز اور ایک سپارہ پڑھنا پڑتا ہے۔ رمضان کے تیس روزے لازمی ہیں۔ اپنے سر پر ٹوپی اور بیوی کے سر پر ٹوپی والا برقعہ رکھنا پڑتا ہے۔ اس کی جنت چھوٹی ہے، جہنم بہت بڑا ہے۔ اس کے ساتھ دو چار مولوی لے جانا پڑیں گے۔” دکاندار نے رٹے رٹائے جملے بولے۔ “
او بھائی! مجھے اتنے زیادہ فنکشنز والا خدا نہیں چاہیے۔ تھوڑا مہنگا خدا دکھاؤ۔” میں نے فرمائش کی۔
دکاندار غریبوں کا خدا اٹھا کر لے گیا۔ دوسرا خدا لے آیا۔ “یہ مڈل کلاسیوں کا خدا ہے۔ اسے تھوڑا کم غصہ آتا ہے۔ دن میں ایک آدھ بار ڈانٹتا ہے۔ صرف جمعہ کی نماز اور فاتحہ سے مطمئن ہوجاتا ہے۔ روزوں کے بجائے خالی افطاری پر ثواب دے دیتا ہے۔ لیکن بقرعید پر جانور کی قربانی مانگتا ہے۔ ٹوپی اور برقعے کی شرط نہیں لگاتا۔ بیوی کے دوپٹّے کو کافی سمجھتا ہے۔ اس کی جنت اور جہنم ایک سائز کی ہیں۔ اسے خریدو گے تو ایک مولوی ساتھ لے جانا پڑے گا۔” اس نے ڈبے پر درج عبارت پڑھی۔ “
نہیں بھائی ‘بھئی، میں بزنس مین ہوں۔ سب سے بہتر کوالٹی والا خدا خریدنا چاہتا ہوں۔” میں نے جھنجلا کر کہا۔
دکاندار نے وہ ڈبا کاؤنٹر کے نیچے رکھا اور اسٹور سے بڑا ڈبا اٹھا لایا۔ “یہ پوش علاقوں کا خدا ہے۔ اسے بالکل غصہ نہیں آتا۔ عید کی نماز پر خوشی سے نہال ہوجاتا ہے۔ عید کی شاپنگ پر روزوں کا ثواب دے دیتا ہے۔ لیکن بقرعید پر سیلیبرٹی جانور مانگتا ہے۔ ٹوپی اور دوپٹّے سے اسے کوئی غرض نہیں۔ یہ ساتھ بیٹھ کر شراب بھی پی لیتا ہے۔ اس کے پاس صرف جنت ہے، جہنم بجھا بیٹھا ہے۔ اس خدا کو خریدنے پر مولوی ساتھ نہیں آتا۔” دکاندار نے تفصیل بیان کی۔ “
ہاں ٹھیک ہے۔ یہ مناسب لگ رہا ہے۔ ایسے دو خدا پیک کردو۔” میں نے کریڈٹ کارڈ دے کر کہا۔ “
میاں بیوی کے لیے ایک خدا کافی ہے۔ دو کا کیا کرو گے؟” دکاندار نے حیران ہوکر پوچھا۔ “
میں ایک چینی کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ میرا باس اپنی پاکستانی سیکریٹری سے شادی کررہا ہے۔ میں یہ خدا اسے تحفے میں دینا چاہتا ہوں۔” میں نے مسکرا کے کہا۔
دکاندار نے آواز لگائی، “او چھوٹے! دونوں ڈبے صاحب کی گاڑی میں رکھوا دو۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ