حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان میں ’’اسٹوڈنٹس‘‘ کی واپسی پر جتنے شادیانے ہمارے ہاں بجائے گئے اور غلبہ اسلام کے نعرے بلند ہوئے اتنا سب کچھ خود افغانستان میں نہیں ہوا۔
امریکی انخلاء کے عمل کے آغاز کے ساتھ ہی جو کچھ افغانستان میں ہوا کیا اس پر ہمیشہ پردہ پڑا رہے گا؟ کچھ باتیں لوگ اب بھی جانتے ہیں۔ سازشی تیھوریوں کی ’’کاک ٹیل‘‘ سے ایک گھونٹ نہ بھی بھرا جائے تو بھی یہ حقیقت ہے کہ ہمارے مین سٹریم ذرائع ابلاغ نے تصویر کا صرف ایک رخ دیکھایا غالباً حب الوطنی کا تقاضہ یہی تھا۔
افغانستان میں ہوا کیا ہو کیا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں بہتری کس حد تک کی توقع ہے؟ اس بنیادی سوال پر بات کرتے ہوئے کھبمیوں کی طرح اُگ آئے ماہرین افغان امور ’’دڑوٹ‘‘ جاتے ہیں۔
خود ہماری ریاست کا معاملہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ساری دنیا کچھ کہہ رہی ہے ا ور ہم کچھ اور کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ’’ہم پھر کوئی کردار” مانگ رہے ہیں۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ہم ضرورت (یہاں ہم سے مراد حکومت اور ماتحتین ہیں) ضرورت سے زیادہ جذباتی ہیں۔
جس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری افغان پالیسی آج بھی پسندوناپسند پر استوار ہے۔ ہماری پسند ’’اسٹوڈنٹس‘‘ ہیں۔ سادہ لفظوں میں اگر یوں کہہ لیں کہ ’’منی بدنام ہوئی تیرے لئے‘‘ تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔
خود افغانستان کے اندر کیا ہورہا ہے، کیا ویسا ہی ہے جو بیان کیا جارہا ہے اور ہم تالیاں پیٹ رہے ہیں؟
جن لوگوں کو ماڈریٹ بناکر پیش کیا جارہا ہے (بقول ہمارے ملتانی مخدوم ’’وہ‘‘ اب بدل گئے ہیں پہلے والے نہیں رہے) وہ کب ماڈریٹ ہوئے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں خود ان کو بھی جنہیں ’’تبدیل شدہ‘‘ کہا جارہا ہے۔
ہمارے وزیراعظم کچھ دن قبل یہ کہتے دیکھائی دیئے
’’دنیا نے افغانستان کو تنہا چھوڑا تو پرانے طالبان پھر آجائیں گے‘‘۔
بندہ پرور وہ گئے کہاں ہیں، نیا کون ہے؟ سب پرانے ہیں۔ ملا برادر، حقانی گروپ، دری لہجے میں بھیگی انگریزی بولنے والے ذبیح اللہ مجاہد اور سہیل شاہین یہ سبھی پرانے لوگ ہیں۔ خیر چونکہ ’’ہمارا‘‘ موقف ہے کہ وہ بدل چکے ہیں تو مان لینے میں ہرج کوئی نہیں البتہ اس حقیقت کو نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے کہ عبوری افغان انتظامیہ کی ابھی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔
ہم پشتون و غیرپشتون کی بحث میں نہیں پڑتے لیکن یہ بحث ہے حقیقت۔ عبوری انتظامیہ پر کن قبائل کی گرفت ہے، کیا یہ گرفت اسلامی اخوت کا شاہکار ہے یا کچھ اور؟ اس پر ہم کیوں سر کھپائیں۔ ستمبر کے اوائل میں بھی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ خود طالبان کے اندر بعض امور پر اختلافات موجود ہیں۔
پھر ہمیں بتایا گیا کہ اختلافات بالکل نہیں بلکہ جسے آپ ’’تصادم‘‘ لکھ رہے ہیں وہ اصل میں فتح مبین کا "جشن” تھا۔ یقیناً فتح مبین کا جشن ہوگا۔ ایک تحریر نویس جو اطلاعات کا محدود ذریعہ رکھتا ہو ظاہر ہے کہ منظم ریاست کی اطلاعات پر پھڈہ مول کیوں لے۔
پھر طورخم واقعہ ہوا، امدادی سامان لیجانے والے ٹرکوں پر لگے پاکستانی پرچم کو زبردستی اتارا گیا۔ پرچم اتارنے والے جو ’’فضائل‘‘ بیان کررہے تھے اس کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔ تین دن بعد کابل سے کہا گیا متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہوگی، نہیں ہوئی۔ ہوگی بھی نہیں۔ وجہ یہی ہے کہ آج بھی ہمارے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ ہم بااعتماد ’’دوست‘‘ نہیں ہیں۔
جان کی امان ہو تو عرض کروں امدادی سامان وصول کرنے والوں نے تجارتی سہولتیں 20ستمبر سے معطل کررکھی ہیں۔ کابل میں اشیائے خوردونوش کے بڑے تاجروں سے کہا گیا کہ متبادل ذرائع تلاش کریں، حکومت تعاون کرے گی۔ 28ستمبر سے اشیائے خوردونوش ہمارے یہاں سے منگوانے پر غیراعلانیہ پابندی لگادی گئی۔
یہ صورتحال ابھی تک برقرار ہے۔ ہمارے ذرائع ابلاغ اب یہ بتارہے ہیں کہ ’’پاکستان کے ساتھ سرحدوں کی بندش کی وجہ سے افغان تاجر وسط ایشیائی ریاستوں سے روزمرہ ضرورت کی اشیاء خصوصاً آٹا، دالیں، گھی اور چینی وغیرہ خریدنے کے سودے کررہے ہیں اور اس کے لئے کابل انتظامیہ نے ان سے کہا ہے
اب خودساختہ ترجمانوں سے سوال کیجئے سرحدوں کی بندش کا معاملہ کیا ہے یہ بھی کہ 28ستمبر کے بعد سے ضروریات زندگی کی اشیا کی پاکستان سے افغانستان ترسیل رک کیوں گئی؟
وجہ میں عرض کئے دیتا ہوں۔ کابل میں بھلے ’’ہمارے ہمدرد اور بعض "زیربار” لوگ بیٹھے ہیں لیکن افغانستان کے طول و عرض میں نظام جن کے ہاتھوں میں ہے ان کی سوچ کو آپ قندھار کے گورنر کی چند دن قبل والی تلخ گفتگو سے سمجھ سکتے ہیں۔
معاف کیجئے گا افغان پالیسی میں سب اچھا نہیں ہے، رخنے ہیں، فہم و نظر کا اختلاف ہے۔ ایک موثرطبقہ ہمارے بارے میں وہی رائے رکھتا ہے جو امریکہ کی ہے اور اس رائے کی بازگشت امریکی سینیٹ اور کانگریس میں پچھلے دنوں سنائی بھی دی۔
دوسری باتیں چھوڑیں حال ہی میں امریکہ کی نائب وزیر خارجہ دو روزہ دورہ پر آئی تھیں۔ وینڈی شرمن نے کیا کہا اور کس سے کہا؟ اس کی کوئی تفصیل؟ جانے دیجئے حب الوطنی بھرشٹ ہوجاتی ہے ایسی باتوں سے۔
ہمارے سیانے سمجھتے ہیں کہ ہم لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم خوشی سے استعمال ہوئے۔ اسے قومی مفاد کا نام دیا گیا۔
اس قومی مفاد کے چکر میں ایک طرح کی تنہائی کا سامنا ہمیں بھی ہے۔
مکرر عرض کرتا ہوں۔ افغان وزارت خزانہ اور تاجکستان و ازبکستان کے ذمہ داروں کے درمیان وسط ستمبر سے بات چیت چیت ہو رہی تھی یہ بات چیت روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی فراہمی کے حوالے سے تھی۔ یہاں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی کہ کروڑوں ڈالر کے سودے منسوخ ہوئے وجہ کیا ہے۔ بارڈر بند کیوں ہوا، قندھار کے گورنر نے کیوں کہا کہ اشیائے ضروریہ لانے والے پاکستانی ٹرکوں کو افغان حدود میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
افغان پالیسی اور قومی مفادات، گزشتہ 40برسوں سے ہم یہی سن رہے ہیں پھر ایک سے زائد بار یہ اعتراف بھی سنا کہ ہماری افغان پالیسی درست نہیں تھی، ازسرنو غور کریں گے۔ غور کرنے کی بجائے ہمارے دانا و بینا لوگوں نے جو حکمت عملی اپنائی اس سے مسائل پیدا ہوئے اور یہ آنے والے دنوں میں بڑھیں گے کم نہیں ہوں گے۔
ایک طالبعلم کے طور پر میری رائے یہی ہے کہ ہمیں بڑبولے پن کی بیماری میں مبتلا ’’لوگوں‘‘ کو سمجھانا چاہیے کہ جو منہ میں آئے کہنے سے گریز کیجئے۔
ہمارے وزیراعظم کو بھی اب اپنے ملک اور اپنے مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ بہت ہوگئی افغانستان کی ترجمانی۔ اس ترجمانی کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ ہماری ریاست اب سارے جہاں کے دکھوں کو ایک طرف رکھے اور اپنے لوگوں کے لئے سوچے۔
ہاں اگر ہوسکتا ہے تو ایک کام کیجئے، افغانستان سمگل ہونے والی پٹرولیم مصنوعات اور آٹا، گھی، چینی، دالوں سمیت دیگر اشیاء کی سمگلنگ کو روکنے میں اپنا فرض ادا کیجئے تاکہ ہمیں بھی تو یقین آئے کہ قومی مفادات آپ کے پیش نظر ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ