حسنین جمال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے وہ آدمی روز شام کو اپنے گیٹ کے باہر اکڑوں بیٹھا دونوں ہاتھ گھٹنوں پر باندھے سر جھکائے نظر آتا تھا۔
ایم ڈی اے کالونی ملتان کے قریب ایک گھر سے جب میں ٹیوشن پڑھا کے واپس جانے لگتا، اسی وقت شاید وہ بھی گیٹ پہ آ کر بیٹھتا تھا۔
اس کے سلیٹی رنگ کے سارے بال سامنے ماتھے پر آئے ہوتے تھے اور وہ ایک فرل کی صورت میں کٹے ہوئے ہوتے جنہیں انگریزی میں بے بی کٹ کہا جا سکتا ہے۔
تو وہ ایسے بیٹھا نظر آتا، جیسے چاچا حقو بیٹھتے تھے۔ چاچا حقو ملتان والے پہلے مکان میں ہمارے پڑوسی تھے۔ مہر صاحب کے یہاں رہتے تھے، بلکہ شاید ان کے بھائی تھے۔ انہیں کبھی بولتے نہیں دیکھا تھا۔ مسلسل خاموش، وہ بھی شام کو مکان کی چوکھٹ پر عین ایسے ہی اکڑوں بیٹھ جاتے تھے۔
اب یہ چاچا حقو نما شخص اگر کسی دن گردن اٹھائے نظر آتا تو ایک سلام آتے جاتے میں اسے بھی کر دیتا۔ شاید کبھی ایک آدھ بار جواب ملا ہو، ورنہ ہوتا بالکل گم سم تھا۔
2003 تک یہ سلسلہ چلا، پھر ایک دن اخبار میں بڑی سی تصویر لگی اور ساتھ انتقال کی خبر آئی تو معلوم ہوا کہ زوار حسین صاحب گزر گئے۔
ملتان کا ایک مصور، ادیب، شاعر، نقاد اور اعلیٰ پائے کا خطاط گزر گیا۔
یہ میں تھا، ملتان کا ایک عام نوجوان جو اس وقت 23 سال کا تھا۔ مجھے کیوں علم نہیں تھا کہ میں آتے جاتے جس شخص کے پاس سے گزرتا ہوں وہ علم و فن کا اتنا بڑا دریا ہے؟
سو فیصد میری اپنی کوتاہی ہے لیکن ملتان بھی مار دیتا ہے۔ ماحول ہی نہیں ہے۔ کوئی ہوا بن نہیں پاتی اور کیا کیا ہیرے لوگ گزر جاتے ہیں۔
ابن حنیف کتنے بڑے ریسرچر تھے، مقصود زاہدی کیسے کمال رباعی گو تھے، صادق علی شہزاد جیسے نازک مجسمے دوبارہ کوئی بنا سکتا ہے؟ ڈاکٹر مہر عبدالحق کسے یاد ہیں؟ ان سب کی طرح ایک مصور بھی مار دیا گیا۔
سب چھوڑیں، ملتان سے باہر کے جو بندے اوپر کی یہ دو تین لائنیں پڑھ چکے، ان میں سے کتنے ہیں جو ان چاروں گرامی ہستیوں کو جاننے کا دعویٰ کرسکتے ہیں؟
بڑی عجیب سائنس ہے، شہر میں رہیں تو لوگ مار دیتے ہیں، نکل جائیں تو مونجھ مارتی ہے۔
مونجھ سرائیکی زبان کا لفظ ہے جس کا ٹھیک مطلب اردو کیا کسی بھی زبان میں ادا نہیں ہو سکتا لیکن بس اتنا سمجھ لیں کہ جیسے غریب الوطنی اور ہوم سکنیس سمیت دو چار باریک کیفیات مل جائیں، جو کچھ بنے اسے مونجھ کہہ لیا جائے۔
زحی حواس ماہر آثار قدیمہ ہیں، مصر کے ہیں، انہیں متعلقہ منسٹری کا وزیر تک ان کی زندگی میں بنایا گیا۔ اپنے یہاں احمد حسن دانی تھے، تاریخ دان تھے، پرانے آثار کے ماہر تھے، جو تھوڑی بہت عزت انہیں ملی، ایک دو سرکاری تمغے ملے، میوزیم کمیٹی کی سربراہی ملی، اس میں آپ نہ مانیں اہم ہاتھ بڑے شہروں کے ایکسپوژر کا تھا۔ ملتان کے ابن حنیف کو ملا کچھ؟
صادق علی شہزاد کی طرح سندھ کا فقیرو بھی کہیں گمنام اندھیروں میں فوت ہو جاتا اگر سندھ یونیورسٹی، مہران یونیورسٹی کے چند قدردان نہ ملتے، کراچی، حیدر آباد میں اس کی نمائشیں نہ ہوتیں، سوشل میڈیا نہ ہوتا لیکن خیر، مجسمے بنانے کی ویسے بھی کتنی گنجائش ہے اپنے یہاں؟
صادقین پاکستان کا فخر ہیں لیکن اگر وہ کسی چھوٹے شہر میں پیدا ہو جاتے تو؟ ان کی رباعیاں بھی آپ نے پڑھی ہوں گی، اس فن کے امام مقصود زاہدی تھے لیکن وہ بھی ملتان آ کے بس گئے۔یہی سب کچھ بس اپنے زوار حسین کے ساتھ ہوا۔ ورلڈ کلاس مصور مٹی کے کھلونے بیچتا تھا ریلوے سٹیشن پہ، تصویریں بس شوق تھا، کمائی؟ نشتہ! قبول عام؟ کون سا! شہرت؟ پاگل ہیں کیا!
تو مصور مار دیا گیا۔ رضی الدین رضی صاحب نے ان کے جنازے پر لکھا:
’نشتر میڈیکل کالج گراؤنڈ کے ایک تاریک کونے میں مصور کا جنازہ رکھا تھا۔ جنازے کے سرہانے گیس لیمپ، اوپر آسمان پر چاند روشن تھا۔ لوگ سوگوار کھڑے تھے۔ اندھیرے میں کوئی شناسا آواز سنائی دیتی تو سب اس کی جانب لپکتے، تعزیت کے چند کلمے کہتے اور پھر خاموش ہوجاتے۔
گراؤنڈ کے ایک کونے میں واحد ٹیوب لائٹ جل رہی تھی جس کی روشنی تاریکی کو چیرنے کی کوشش کرتی اور پھر معدوم ہوجاتی۔
جنازے سے کچھ فاصلے پر دو درخت تھے ایک کی شاخیں بانہوں کی طرح پھیلی ہوئی اور دوسرے کی آسماں کی جانب جیسے ایک درخت مرنے والے کو اپنی جانب بلا رہا ہو اور دوسرا آسمان کی جانب ہاتھ اٹھائے اس کے لیے دعا مانگ رہا ہو۔
زوار حسین اگر زندہ ہوتے اور آج ان کا جنازہ تیارنہ ہوتا تو وہ اس منظر کو اپنے کینوس پر ضرور منتقل کرتے اور ان کی اس تصویر میں سیاہ رنگ نمایاں ہوتا۔ زندگی کی تصویر کا آخری رنگ، موت کا رنگ۔‘
’زوار حسین کی آخری تصویر میں تین رنگ بہت نمایاں تھے، سفید، زرد اور سرخ۔ سفید رنگ جو ان کے کفن کا تھا اور پوری تصویر پر حاوی تھا۔ زرد رنگ ان کے چہرے کا، جو کفن سے باہر جھانکتا اور بتاتا تھا کہ ایک بے خواب شخص جب ابدی نیند سوتا ہے تو اس کے چہرے پر کتنا سکون ہوتا ہے۔
’پھر نماز جنازہ کے بعد تدفین کا مرحلہ آیا کہ جب زوار حسین نے مٹیالا رنگ اوڑھ لیا۔ وہ مخروطی ہاتھ اسی مٹی میں چلے گئے جسے گوندھ کر وہ مجسمے بنایا کرتے تھے۔ مجسمے جو ان کے فن کی ایک اور پہچان تھے۔ وہ ہاتھ کہ جن کی ایک جنبش سے کینوس پر زندگی کے رنگ بکھر جاتے، اس مٹی میں چلے گئے جسے دیکھ کر زوار نے پہلے پہل سوچا تھا کہ اس بے رنگی سے اتنے بہت سے رنگوں والے پھول کیسے نکل آتے ہیں اور پھر انہوں نے وہ سب رنگ پہن کر ان کا بھید جاننے کی کوشش کی۔ عمر بھر وہ یہی بھید جاننے کی کوشش میں رہے اور اب شاید یہی معلوم کرنے خود اس مٹی کو اوڑھ چکے تھے۔‘
یہ جو اوپر میں نے رونے روئے ہیں چھوٹے شہر کے اور ان سے تعلق رکھنے والے عظیم فنکاروں کے، اس سب کے بارے میں خود زوار حسین کیا کہتے تھے یہ دیکھ لیں: ’میں اگر لاہور، کراچی، پیرس یا لندن میں ہوتا تو کروڑپتی ہوتا مگر میں نے ملتان میں رہنے کو ترجیح دی۔‘
26 جون 2003 کو جنگ اخبار کے لیے رضی صاحب نے زوار حسین کا یہ انٹرویو کیا، وہ نہ کرتے انٹرویو تو آج خدا جانے میں کہاں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا۔ پڑھیں، پہلے اسی انٹرویو میں سے چند باتیں پڑھیں۔
’مجھے یاد ہے کہ بچپن میں مکان کا جو صحن تھا، اس میں بہت سے پودے تھے۔ پودا خاک سے نکلتا تو میں بڑے غور سے اس کو دیکھتا، حیران ہوتا کہ اس بے رنگ مٹی سے یہ سرخ رنگ کا پھول کیسے نکلا؟ میں اکثر پھولوں کو توڑ کر سرخ رنگ نکالنے کی کوشش کرتا۔ میں چڑیا کو بھی بہت غور سے دیکھا کرتا، خصوصاً اس کی چھاتی کا، چونچ کا رنگ۔ اکثر میرے شوق کی انتہا اس قدر ہوتی کہ میں چڑیا کا شکار کر لیتا، جب وہ مر کے گر جاتی تو میں اس کا بڑی تسلی کے ساتھ مشاہدہ کرتا۔ ایک دفعہ میں نے لاہور سے رنگ منگوائے، انہیں ٹیسٹ کرنے کے لیے مری ہوئی چڑیا کو ماڈل بنایا۔ میں نے فطرت سے متاثر ہو کر مصوری شروع کی، یہی وجہ ہے کہ قدرتی مناظر میری مصوری کی علامت بن گئے۔ درختوں کا وجود اور ان کی صفات مجھے متاثر کرتی ہیں۔‘
’درختوں کا تعلق دنیا بھر کی شاعری اور دیو مالا سے ہے۔ میرے لیے جو چیز زیادہ دلچسپی کا باعث بنی وہ یہ کہ ان کی مختلف شکلیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور شاخیں جیسے اشارہ کرتی ہیں۔ ان میں جھکنے، اٹھنے اور سفر کرنے کی کیفیت موجود ہے۔ ایک جاپانی نقاد نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ جب درخت کی شاخ بل کھاتی ہے تو اس میں جو خم آتا ہے یہ اس کا اپنا نہیں بلکہ فطرت کا پیچ و خم ہوتا ہے۔ یہ فطرت کی اپنی حرکات ہیں۔ اگر ہم اس کے ساتھ چلیں تو ہم شاخ کا نہیں فطرت کا تعاقب کر رہے ہوتے ہیں۔ درخت خود بھی تو ایک شعر ہے، شاعر بالذات ہے، یہ ایک صوفی بھی ہے۔‘
زوار حسین نے باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی لیکن زیادہ کام انہوں نے اپنی ذاتی کوشش سے سیکھا۔
’میں نے 24 گھنٹے دن رات کام کیا ہے۔ اکثر آرٹسٹ علم کے قریب بھی نہیں جاتے، اس سے دور بھاگتے ہیں، میرا معاملہ بالکل الٹ رہا، میں نے پہلے کتاب کو اہمیت دی۔‘
زوار حسین مصور تھے، مجسمہ ساز تھے، انہی فنون کے نقاد تھے، شاعر تھے، فلسفی تھے ۔۔۔ اور جو کچھ مزید تھے اس کے بارے میں ان کی زیر نظر کتاب پڑھ کے آپ کو بہتر اندازہ ہو سکتا ہے۔
1930، زوار حسین قادر پور راں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نور محمد کربلائی ریلوے میں ملازم تھے۔ وہ علامہ عنایت اللہ مشرقی کے بعد خاکسار تحریک کے سیکنڈ ان کمان بھی تھے۔ علامہ مشرقی جب کبھی ملتان آتے تو کربلائی صاحب کے یہاں ہی ٹھہرتے، ن.م.راشد بھی اکثر ان کے یہاں آتے۔ تو فن سمجھ لیں بچپن سے زوار حسین کے آس پاس بکھرا ہوا تھا۔
بڑے ہوئے تو رنگوں سے محبت انہیں ٹیکسٹائل ڈیزائننگ سیکھنے کے لیے شاہدرہ میں ایک سرکاری ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ لے گئی۔ 1950 کی دہائی کے اوائل میں پینٹنگز کا کورس کرنے کے لیے انہوں نے میو سکول آف آرٹ (موجودہ این سی اے) میں داخلہ لیا، بعد میں سرجے جے سکول آف آرٹ کے بھی طالب علم رہے۔
جب زوار حسین نے میو کالج آف آرٹس میں داخلہ لیا تو احمد شیخ اس وقت کالج کے پرنسپل تھے، ان کی اہلیہ اینا مولکا احمد پنجاب یونیورسٹی، شعبہ فنون لطیفہ کی سربراہ تھیں۔ استاد اللہ بخش جب بھی کالج آتے، زوار حسین اپنے کام پر ان سے تفصیلی گفتگو کرتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ استاد کی طرح زوار حسین نے بھی آس پاس کی تحریکوں سے اوپر اٹھ کے فطری مناظر کی تصویر بنانا اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ درخت ان کا مرکزی موضوع تھے۔
اب یہاں رضی صاحب کے انٹرویو کا اقتباس دیکھیے: ’ان دنوں میو سکول آف آرٹ اہم ادارہ تھا، ایک سر جے جے سکول آف آرٹ تھا، ان اداروں میں بڑے بڑے استاد تھے جیسے عبدالرحمٰن چغتائی، استاد اللہ بخش، ماسٹر میراں بخش، یہ ان دنوں زندہ تھے اور باقاعدہ ان اداروں کا دورہ کیا کرتے تھے۔ ماسٹر اللہ بخش میری پینٹنگ سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی جیب خاص سے مجھے رقم بھی دی۔ پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس میں سب سے پہلی جو نمائش ہوئی وہاں میری پینٹنگز عبدالرحمٰن چغتائی اور ماسٹر اللہ بخش کی پینٹنگز کے ساتھ رکھی گئیں جنہیں دیکھ کر انہوں نے بہت تعریف کی اور میری حوصلہ افزائی بھی کی۔‘
تو اسی عرصے کے دوران ایسا ہوا کہ ان کے اندر کا جو شاعر تھا اس نے انہیں اقبال کی شاعری کو تصویروں میں ڈھالنے پر مجبور کر دیا۔
ڈان انگریزی میں ان پر ایک مختصر تعزیتی مضمون چھپا تھا، اس میں ندیم سعید نے ایک ایسا واقعہ بیان کیا جس پر آج تک کبھی بات نہیں ہوئی، نہ ہی شاید کوئی کرے، لیکن اسے کم از کم رد ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال پڑھیے۔
’اقبال کی شاعری پر کل ملا کے وہ چودہ تصویریں تھیں، اینا مولکا احمد کے شعبے میں ان کی نمائش ہوئی۔ ان کی تصویروں کو آرٹ ناقدین نے بھی سراہا۔ وہ اکثر کامل یقین سے دعویٰ کرتے تھے کہ عبدالرحمن چغتائی نے ان کی پینٹنگز دیکھ کر اقبال کی شاعری پر مشتمل تصاویر بنانی شروع کیں۔‘
دیکھیے ’عمل چغتائی‘ جو ہے، وہ 1969 میں شائع ہوئی تھی۔ اسی میں چغتائی صاحب نے علامہ اقبال کی شاعری پہ تصاویر بنائیں۔ اس کتاب کے دیباچے میں چغتائی صاحب نے بہت زور دے کے لکھا کہ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ ان کی زندگی میں چغتائی صاحب ان کی شاعری کو تصاویر کی شکل مجسم کر دیں۔
اب زوار حسین کا یہ دعویٰ کہ چغتائی صاحب نے ان کی تصاویر سے متاثر ہو کے علامہ کی شاعری پہ کام کرنا شروع کیا ۔۔۔ کیوں رد نہیں کیا جا سکتا؟
کیونکہ علامہ اقبال کی وفات کے ٹھیک 30 سال بعد عمل چغتائی چھپتی ہے۔ آخر پہلے کیوں یہ تحریک کبھی مصور کو نہیں مل سکی، حالانکہ ان کی علامہ اقبال سے کافی ملاقات بھی رہی اور غالب کو جب مصور کیا تو اس کتاب کا دیباچہ تک علامہ اقبال نے لکھا تھا۔
اس معاملے پر مزید چھان پھٹک کی تو اسلم انصاری صاحب کا ایک تفصیلی مضمون نظر آیا: ’شاعر مشرق اور عبدالرحمٰن چغتائی‘
علامہ کی زندگی میں چغتائی انہیں مصور کیوں نہیں کر سکے، یہ بتاتے ہوئے اسلم انصاری نے لکھا کہ چغتائی صاحب کا چونکہ اپنا ایک سٹائل تھا اس لیے وہ اس سے ہٹ کے کام کر نہیں سکتے تھے۔ ان کا اسلوب علامہ اقبال کے ذہنی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تھا۔
اب اسی مضمون میں عبداللہ چغتائی کی گواہی بھی شامل ہوتی ہے۔ ’علامہ نے بہت کوشش کی کہ چغتائی جاوید نامہ کے اشعار کو ان کی مرضی کے مطابق مصور کریں، مگر یہ حقیقت ہے کہ چغتائی علامہ کی تسلی نہیں کرسکے تھے۔ علامہ دراصل ان تصویروں کو بھی اپنے تخیل کے مطابق دیکھنا چاہتے تھے۔ اس کے برعکس جب علامہ نے اپنے انہی خیالات کی مصوری کے لیے استاد اللہ بخش سے کہا تو انہوں نے بعض خیالات کو زیادہ تسلی بخش طریقے سے پیش کیا۔‘
اب دیکھیں یہاں ایک بڑی اہم شخصیت مشترک ہیں، استاد اللہ بخش ۔۔۔ پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ جو تصویریں انہوں نے علامہ اقبال کی زندگی میں ان کی شاعری پہ بنائیں وہ کدھر گئیں؟ کوئی ذکر نہیں دور تک، کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا ۔۔۔ دوسرا سوال نہیں ہے، وہ جواب ہے ۔۔۔ یہ کہ استاد اللہ بخش نسبتاً بہتر سمجھتے تھے کہ علامہ اقبال اصل میں اپنے اشعار کی مصوری کیسی چاہتے ہیں۔ زوار حسین سے ملاقاتوں میں انہوں نے لازماً انہیں کچھ نہ کچھ قیمتی چیزیں سمجھائی ہوں گی۔ وہی سب چیزیں اپنے برش میں سمیٹ کر جو کچھ زوار حسین نے بنایا ہو گا اس سے عین ممکن ہے کہ عمر اور فن میں سینیئر چغتائی صاحب کو تحریک ملی ہو، نئے آئیڈیے آئے ہوں اور انہوں نے عمل چغتائی پہ کام شروع کیا ہو۔ کیوں کہ پچاس کی دہائی میں زوار حسین کی نمائش ہوئی اور ساٹھ کی دہائی کے بھی آخر میں جا کے چار سو صفحوں کی ’عمل چغتائی‘ آئی تو زوار حسین کا یہ دعویٰ کہ چغتائی صاحب نے ان کی تصاویر سے متاثر ہو کے علامہ کی شاعری پہ کام کرنا شروع کیا ۔۔۔ رد نہیں کیا جا سکتا!
بعد میں خیر زوار حسین نے صرف اپنے خیالات اور اپنی ہی شاعری کو تصویروں میں ڈھالا۔ معلوم ذرائع کے مطابق یہ سلسلہ اس نمائش کے بعد انہوں نے ختم کر دیا اور وہ سب تصاویر وقت کے ساتھ منظر عام پر نہ رہیں۔
ندیم سعید نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ ’کچھ ناگزیر حالات کی وجہ سے زوار حسین میو سکول میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے اور انہیں اپنے کنبے کے ساتھ ملتان میں ہی رہنا پڑا تھا۔ تاہم، ان کی علم پسندی نے انہیں ہمیشہ کتابوں کی صحبت میں رکھا، حالانکہ انہیں دونوں کاموں کو پورا کرنے کے لیے عجیب و غریب ملازمتیں کرنا پڑیں۔‘
زوار حسین کے زمانے میں اور ان سے پہلے بھی مصوری کی جو تحریکیں چل رہی تھیں یہ نہ صرف ان کے بارے میں اچھی طرح آگاہ تھے بلکہ اس حوالے سے کافی کچھ لکھتے بھی رہے۔
اس دور کے سب اہم رسالے ان کی تحریریں بغیر قطع برید چھاپتے تھے۔ تبھی کی چند چیزیں ’جدید فن مصوری‘ میں شامل کی گئی ہیں۔
زوار حسین کی تصاویر لاہور عجائب گھر سمیت پاکستان، فرانس اور امریکہ کی مختلف آرٹ گیلریوں میں بھی موجود ہیں۔ رضی صاحب کے مطابق وہ مجسمہ سازی کے ساتھ ساتھ لکڑی کی جیولری بنانے میں بھی بے پناہ مہارت رکھتے تھے۔
’ان کا ڈیزائن کیا ہوا ایک ثقافتی سٹال 21 برس تک ملتان ریلوے سٹیشن سے گزرنے والے مسافروں کو ملتان کی دستکاری اور آرٹ سے متعارف کراتا رہا، بالآخر ریلوے سٹیشن کو ’خوبصورت‘ بنانے کے لیے ملتان کی اس ثقافتی علامت کو وہاں سے ختم کردیا گیا۔‘
زوار حسین مست الست آدمی تھے۔ نفع نقصان کا اتنا کوئی خیال نہیں تھا۔ اپنی کتنی ہی شاہکار تصویریں انہوں نے آرٹ جمع کرنے والوں کو سستے داموں بیچ دیں، دوستوں کو، مداحوں کو، تحفے میں دے دیں۔ مرتے وقت چالیس پچاس کے قریب تصویریں ان کے پاس تھیں جن میں سے شاید پانچ چھ اب ان کی فیملی کے پاس باقی ہیں۔
ندیم سعید کے مطابق زوار حسین نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں سیاسی فلسفے میں بھی دلچسپی لینا شروع کی اور سیکولرازم پر ان کی ایک کتاب اس وقت زیر تکمیل تھی جب انہوں نے آخری سانس لی۔
دو دسمبر 2003 کو زوارحسین کا انتقال ہوا تو نو دسمبر کو اخبار میں ڈان انگریزی میں یہ خبر چھپی:
’ملتان آرٹس کونسل کی آرٹ گیلری زوار حسین کے نام سے منسوب کر دی گئی۔‘
’زوار حسین علم و فن کے حوالے سے ملتان کی ایک معروف شخصیت تھے جن کا انتقال حال ہی میں ہوا۔ مصوری کے استاد زوار حسین کی یاد میں آرٹس کونسل نے گذشتہ روز ایک نشست کا انعقاد کیا جس میں ضلعی ناظم ریاض حسین قریشی سمیت ملتان شہر کے دانشور، ادیب، صحافی اور زوار حسین کے پرستاروں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔‘
خطبہ صدارت میں زوار حسین مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ریاض حسین قریشی نے کہا: ’ایک زمانے میں جب پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی چیئرمین شپ میرے پاس تھی تو مشہور فنکار گل جی مجھے ملے، انہوں نے زوار حسین کا حال چال دریافت کیا اور کہنے لگے، یہ بندہ ملتان میں اپنا آرٹ دفن کیے جا رہا ہے، یہ اگر لاہور یا کراچی میں ہوتا، اب تک ملک کا سب سے نامور مصور بن چکا ہوتا۔‘
کئی بار انہیں ملتان سے باہر بڑے شہروں میں رہنے اور باقاعدہ طریقے سے اپنے فن کو دنیا کے سامنے لانے کی آفرز آئیں لیکن انہوں نے ٹھکرا دیں۔ اب مونجھ نے مصور کو مارا یا ملتان نے، فیصلہ آپ کا ہے۔
یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر