نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

معاشی بحران اور اخلاقیات کے بھاشن ||عامر حسینی

پاکستان ایک روشن خیال سوشل ڈیموکریٹک فلاحی ریاست کی بجائے ایک علاقائی عسکری و جہادی ملک بننے کے جنون میں مبتلا ہوگیا -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کوئی حکومت مُلک کو معاشی بحران سے نکالنے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر وہ اخلاقیات کے بھاشن دیتی ہے – اور خود سب سے زیادہ اخلاقی دیوالیہ پَن کا شکار ہوتی ہے –
مثال لے لیجیے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُسے کمزور طبقات کی زیادہ فکر ہے لیکن اسے جب کبھی کمزور اور طاقتور کے درمیان معاشی سبسڈی دینے کے لیے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو یہ زیادہ طاقتور طبقے کو معاشی رعایت دیتی ہے
اخلاقیات کا بھاشن دینے والی طالبان خان کی حکومت نے پاکستان کی سب سے طاقتور انڈسٹری ٹیکسٹائل کو گزشتہ تین سالوں میں تین سینٹ فی یونٹ بجلی فراہم کی اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو تین سال میں 1050 ارب روپے (350 ارب روپے سالانہ) سبسڈی دی، اور یہ رعایت اُس نے عام گھریلو صارفین چھوٹے تاجر کو بجلی مہنگی فراہم کرکے دی – تین سالوں میں اس نے 200 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو 7 روپے سے بڑھا کر 12 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی، 300 یونٹ کے صارف کو 12 روپے فی یونٹ سے بڑھاکر 22 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی – یعنی سب سے طاقتور اور بڑے سرمایہ داروں کو تین سال سے کم اور یکساں ریٹ پہ بجلی فراہم کی جارہی ہے اور عام صارف کو تین سال میں 200 سلیب پہ ہر ماہ 12000 روپے اضافی دینے پڑے اور یہ رقم تین سالوں میں فی صارف 36ہزار روپے بنتی ہے –
ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے تین سالوں کے دوران بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے اپنے ایسے صارفین جو 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے تھے انھیں ہر ماہ 450 سے 800 روپے اضافی لگائے – میپکو کے 2018ء میں 200 یونٹ سے کم استعمال کرنے والے 30 ہزار صارفین پر 50 لاکھ روپے کا فالتو بوجھ ڈالا اور کہا کہ یہ لائن لاسز کی مد میں وصول کی جانے والی رقم ہے – اور اگر ہم صرف میپکو کے تین سال میں اس قدم کو دیکھیں تو اس نے تین سالوں میں اپنے صرف 30 ہزار صارفین پہ ہی ڈیڑھ کروڑ روپے کا فالتو بوجھ ڈالا……. میپکو کے مطابق اس کے کُل ڈومیسٹک صارفین کی تعداد 64 لاکھ 71 ہزار 7 سو 28 ہے جس میں 200 سے کم یونٹ خرچ کرنے والے صارفین محض 32 ہزار ہیں اور 200 اور 300 سلیب والے صارفین کی تعداد 50 لاکھ کے قریب ہے – جن میں 200 یونٹ والے صارفین 20 لاکھ ہیں – اگر 20 لاکھ صارفین ہوں تو حکومت نے صرف میپکو سے گزشتہ سال 200 یونٹ خرچ کرنے والے 20 لاکھ صارفین سے 24 ارب روپے فالتو وصول کیے جبکہ اس نے 300 یونٹ سلیب والے میپکو کے 30 لاکھ صارفین سے ایک کھرب 8 ارب روپے زیادہ وصول کیے-
اب یہ زائد رقم صرف میپکو کے لائف لائن کے بعد کے دو سلیب کی ایک کھرب 32 ارب روپے بنتی ہے جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو اس نے ایک کھرب 50 ارب روپے کی سبسڈی دی-
یہ صرف میپکو کے اعداد و شمار ہیں اگر آپ پورے ملک کی 8 بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 200 اور 300 سلیب کے ڈومیسٹک صارفین کی زائد رقم کا تخمینہ لگائیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ کس طرح صرف بجلی کی قیمت کی مد میں عام صارف کی جیب پہ ڈاکہ ڈال کر بڑے سرمایہ داروں کی جیب میں ڈالا گیا ہے –
وزیراعظم کس منہ سے لوگوں کو اخلاقیات کے بھاشن دیتے ہیں جبکہ خود وہ اور ان کی حکومت جھوٹ بول کر، عام آدمی کو دھوکہ دے کر اُن کی جیبیں خالی کررہی ہے اور سرمایہ داروں کی جیبیں بھر رہی ہو
جب مشرقی بنگال نے آزادی حاصل کرلی تو پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے مغربی پاکستان کو زیادہ جمہوری، ترقی پسند، انسانی حقوق کے لیے کشادگی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو ممکن بنانے، مغربی پاکستان کی جملہ نسلی و لسانی و مذھبی شناختوں اور ثقافتوں کو مساوی احترام دینے پہ مبنی پالیسیاں بنانے کی بجائے پاکستان کو مزید ڈیپ اور سیکورٹی اسٹیٹ بنانے کا فیصلہ کرلیا –
پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے پاکستان ٹوٹ جانے کی زمہ داری کے لیے قربانی کی بھیڑ تلاش کرنی شروع کردی –
اس نے یہ سبق اخذ کرنے کی بجائے کہ وفاق پاکستان کی کسی ایک اکائی یا اُس اکائی میں کسی ایک نسلی و لسانی گروہ کو دبانے کی بجائے، سب کو مساوی درجہ دیا جانا سب سے پہلے کرنے کا کام ہے، کیا یہ کہ پاکستانی نیشنلزم کا اور زیادہ جنگجو اور شاؤنسٹ ماڈل اختیار کرلیا –
پاکستان کی عسکری، بے وردی ، عدالتی اسٹبلشمنٹ کو سیاست سے پاک کرنے اور اُن کو کمرشل، کاروباری سرگرمیوں سے دور رکھنے، ملک کی زمینوں پہ قبضوں کی ہوس کو ختم کرنے اور سب سے بڑھ کر یہاں اسٹبلشمنٹ کے مطابق تابع فرماں حکومتوں کا قیام کرنے کی روش سے ہٹ جانے کی بجائے اسے ان بیماریوں میں اور زیادہ مبتلا کردیا –
حکمران اشرافیہ نے بھارت سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بدلہ لینے کو ایک باقاعدہ پالیسی میں بدلا جس کی کوکھ سے تزویراتی گہرائی کی پالیسی نے جنم لیا اور پوری ریاست کا عسکری آپریٹس اور انٹیلی جنس آپریٹس اسی جنون کی تکمیل میں مصروف ہوگیا – ملک کو روایتی اسلحے سے آگے جاکر ایٹم بم اور مزائل ٹیکنالوجی کے حصول میں گم کرکے اس ملک کے وسائل جنگی جنون کی نذر کیے جانے لگے
پاکستان ایک روشن خیال سوشل ڈیموکریٹک فلاحی ریاست کی بجائے ایک علاقائی عسکری و جہادی ملک بننے کے جنون میں مبتلا ہوگیا –
یہ بنیادی طور پہ مکمل عوام دشمن جنون تھا جس میں آج سب سے زیادہ ہماری فوجی اشرافیہ مبتلا ہے-
یہ آج بھی دھرتی کی عوام کے دلوں کو جیتنے سے زیادہ زمین پہ قبضہ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے – ہمارے ریاستی اداروں کو عسکری ہئیت مقتدرہ نے پوری طرح سے اپنے شکنجے میں گرفتار کررکھا ہے، ہم اس مقتدرہ کی سوچ کے خلاف جانے کا سوچ ہی نہیں سکتے

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author