دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جیالوں کی اخلاقی حقیقت بمقابلہ ٹویٹری افسانہ||علی عبداللہ ہاشمی

بھٹو صاحب زندہ تھے تو انکا ہر جیالا ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ وہ قانون و انصاف کے فورمز پر بھٹو کی دی ہوئی طاقت کیساتھ زبردست کو زیردست کرنے کی قوت رکھتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اسکے حقوق کوئی عہدیدار، وزیر، مشیر یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کی آل اولاد بھی نہیں چھین سکتی۔ ا

علی عبداللہ ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی بتا سکتا ہے کہ جب جیالوں نے ناہید خان کو بطور علامتی ڈپٹی پرائم منسٹر کنوینشن سینٹر اسلامآباد میں ٹھڈے مارے تو اُسوقت کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے ان جیالوں کیخلاف کیا ایکشن لیا تھا؟ یہی عمل ہماری ایک موجودہ لیڈر کیساتھ انکے اخباری دفتر میں ہوا تھا، اُسوقت کون سے تیر چل گئے تھے؟ عرض یہ ھیکہ بی بی شہید یا ہماری لیڈرشپ نے اپنے جیالوں کو کسی کم ظرف کو اُسکی اوقات یاد دلانے سے کبھی بھی نہیں روکا اور یہ ابن الوقت جتنی جلدی سمجھ جائیں انکے حق میں بہتر ہو گا۔

اعتزاز احسن وفاقی وزیر تھے مگر روزانہ وزیراعظم سیکرٹیریٹ میں جیالوں سے ڈانٹ کھاتے تھے۔ انہوں نے کئی مرتبہ شہید رانی کو مُنہ زور جیالوں کی شکائیت لگانے کی کوشش کی مگر محترمہ نے ہمیشہ “change the topic Aitzaz” کہہ کر انکا منہ بند کروا دیا۔

جیالا کُشی میں پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل کا اپنا مقام تھا۔ بطور وزیر تین جیالوں نے مرحوم کو انکے گھر سے اغواء کیا اور جہاں آجکل مونال ہے وہاں لے گئے اور گھنٹوں تشدد کرتے رہے کیونکہ وہ جیالوں کی فائلیں دبانے کیلئے مشہور تھے۔ وزیر موصوف کئی دن منہ پھلائے محترمہ کے اردگرد پھرتے رہے مگر بی بی کی عدالت میں انکی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ فرحت اللہ باہر سمیت وہ تمام لوگ جنہیں شہیدہ کیساتھ کام کرنے کا موقع ملا اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس کسی نے بینظیر بھٹو اور اسکے جیالوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی یا بیرئیر بنا، جیالوں نے اسے ہوا میں اُڑا دیا لہذا وہ دوست جو محترمہ کا نام لیکر جیالوں پر بزدلی میں لتھڑی منافقانہ اخلاقیات کا اطلاق چاہتے ہیں وہ نہ صرف جھوٹے ہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی تاریخ سے بالکل بھی واقف نہیں ہیں۔

مرد تو مرد ہماری جری بہادر عورتوں کی داستانیں شاھی قلعے سمیت ملک بھر کی جیلوں پر کندہ ہیں، کیسے کامریڈ شاہدہ جبین نے جیل کے دورے پر آئے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمٰن کو اپنی زبان کی تیزی سے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا (انہوں نے یقیناً پارلیمانی کلمات کا انتخاب نہیں کیا تھا)۔ بیگم رانا شوکت علی کی شلوار میں چوہے چھوڑے گئے مگر اس شیر کی بچی نے ایک بھی ساتھی کارکن کی مخبری نہیں کی۔ آپا سردار بیگم کی اپینڈیکس پھٹنے پر انہیں ہسپتال لیجایا گیا جہاں بمشکل انکی جان بچی، اگلے ہی دن ایک کرنل انہیں اٹھا کر شاہی قلعے لے گیا اور آپریشن والی جگہ پر ڈنڈے مار مار کے طلعت جعفری کا ٹھکانہ پوچھتا رہا مگر اس دلاور عورت نے اُف تک نہیں کیا۔ اگر بی بی صاحبہ بے پیندے کے نوسربازوں اور جعلی ہمدردوں کی شکائیتوں پر اپنے جیالے جیالیوں کو اخلاقی درس دینے والی لیڈر ہوتیں تو انکے کارکن پروانوں کیطرح اپنی جانوں کو آگ و خون کے دریا میں کبھی نہیں جھونکتے۔

ہاں پیپلز پارٹی میں اخلاق سے گرے معاملات، یا کسی کی پگڑی اچھالنے جیسے رذیل کاموں کی ممانعت رہی ہے جیسے مریم نواز کی کیپٹن صفدر کیساتھ شادی کا مذاق اڑانے پر فیصل آباد کے ایک MPA کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ یہ بھی درست ھیکہ جیالے شیخ رشید اور نواز شریف کی ہرزہ سرائیوں پر ان کا منہ نوچنا چاھتے تھے مگر بی بی صاحبہ نے گمراہ کٹھپُتلیوں کے جوتے مار کر ہاتھ گندے کرنے سے جیالوں کو روکے رکھا مگر جب جب پارٹی کے اندر سے کسی نے حد کراس کرنے کی کوشش کی، بی بی نے جیالوں کو انکی طبیعت صاف کرنے سے کبھی نہیں روکا لہٰذا یہ کہنا کہ آپکے سر کے بالوں کو آئی کسی بلیو ٹِک اور بڑے منہ والی آنٹی کو جواب نہ دو بھلے وہ بلاول کے پالنے کے پاؤں جی ایچ کیو میں دکھانے کی کوشش کرے یہ نوسر بازیاں جیالے نہیں سنتے۔ وہ جواب دیتے ہیں اور برے کو اسکے گھر تک چھوڑ کے آتے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ “یہ بی بی کی تربیت نہیں ہے”، یا گالیوں کا جواب بھی دلیل سے دو” سمیت جتنے بھی ڈھکوسلے شہید محترمہ سے منسوب کر کے کچھ لوگ جیالوں کو گمراہ کرتے ہیں وہ در اصل جھوٹے ہیں۔ جیالا تو نام ہی آگ کا ہے جسکے کاغذوں میں کسی کیلئے معافی نہیں بالخصوص انکے لیئے جو بھٹو خاندان کا مذاق اڑانے کی کوشش کریں۔

بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد انکی اولاد جیالوں کی چھیڑ بن گئی تھی۔ بالخصوص پنجاب، جہاں ابن الوقتوں کے فرار کے بعد صرف حقیقی جیالے ہی بچ گئے تھے، آئے دن گلی محلوں میں سیاسی گفتگو پر لوگوں کے سر پھٹتے تھے۔ بھٹو کے عشاق تھانوں کچہریوں کے چکر صرف اسلیئے بھی لگاتے رہے کہ انہوں نے کسی کم ظرف کے منہ سے اماں نُصرت یا محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں تضحیک آمیز بات سن کر برداشت نہیں کی اور دلیل ڈھونڈنے کیلئے معذرت کر کے ٹائم نہیں ٹپایا۔ انہوں نے سرِ دست، گالی دینے والے کا سر پھاڑا، منہ توڑا اور جیل کی ہوا کھائی لہذا یہ ہائی برڈ اخلاقیات کم از کم جیالوں کی اخلاقیات نہیں ہے اور جو بزدل اسکی آڑ لیتے ہیں وہ دراصل آنے والے وقت میں اپنی گردن بچانے کے چکر میں ہیں۔

یہ تو وقت کے ساتھ ابن الوقت عہدوں پر آنے لگے تو جیالوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تہذیب کے دائرے میں لانے کی دبی دبی تحریک شروع ہوئی اور وہ بھی اس خوف سے کہ اگر جیالوں نے جوتا ہاتھ میں پکڑے رکھا تو صوبائی، ڈویژنل یا ضلعی عہدوں پر براجمان چاپلوس لوٹوں کی پگڑیاں کون بچائے گا۔ بھٹو کے جیالے تو ڈی سی بہادر کی وردی مونڈھے پر ڈال کر اپنے پِنڈ لیجانے کیلئے مشہور تھے۔ انکے ایک خط پرضلعے کا ایس پی جیالے کوچوان کی گلی سے نہیں اٹھتا تھا جبکہ آج انہی جیالوں کی تیسری نسل چاپلوس اور سیلفی مافیا بنتی جاتی ہے،  کیوں؟ کیونکہ کامریڈ شاہدہ جبین کی بجائے سیلفی مافیہ آنٹیاں ہماری اخلاقی تربیت پر معمور ہیں اور وہ بھی اُس طرز پر جو ہماری طرز بالکل بھی نہیں ہے۔

ابھی چار دن ہوئے شمع جونیجو نامی ایک خاتون جس نے بلاول بھٹو کے پالنے کے پاوں جی ایچ کیو کے ڈسپوزل پر دکھانے کی کوشش کی، اُسے ہمارے جیالوں نے آڑھے ہاتھوں لے لیا، مگر کل سے پارٹی کے اندر سے موم بتی مافیہ آنٹیاں اور 1988 کے بعد پارٹی میں آئے لیڈروں کے لونڈے مسز جونیجو کے ہمدرد بن کر مارکیٹ میں کود آئے ہیں جو ہر دو کُودیئے جیالوں اور بھٹو خاندان کی کیمسٹری سے بالکل بھی نا آشنا ہیں۔ یہ اُس خاتون کی وکالت کر رہے ہیں جس نے پارٹی کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس  کیلئے “کُتے” کا صیغہ استعمال کیا ہے اور اسکو زعم یہ ھیکہ پارٹی میں موجود موم بتی مافیہ کیساتھ ملکر جوتوں سے محفوظ رہے گی جو اعلی ظرفی سے تو ممکن ہے، جیالے دل کی کریں تو ممکن نہیں۔ لوگوں نے فوراً اسے آڑھے ہاتھوں ذاتی معاملے پر نہیں لیا بلکہ ایک لمبے عرصے سے قیادت کی بابت اسکی بدتمیزیاں اگنور کی جا رہی تھیں جنکے بہیترے ثبوت آفیشل میڈیا سیل کے پاس پہلے سے محفوظ ہیں۔ اب ایسے ابن الوقتوں کیلئے جنکے تانے بانے ن لیگی سوشل میڈیا ٹیمز سے ملتے ہیں ہمارے دوستوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگیں تو معذرت سے اُنہیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔

بھٹو صاحب زندہ تھے تو انکا ہر جیالا ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ وہ قانون و انصاف کے فورمز پر بھٹو کی دی ہوئی طاقت کیساتھ زبردست کو زیردست کرنے کی قوت رکھتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اسکے حقوق کوئی عہدیدار، وزیر، مشیر یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو کی آل اولاد بھی نہیں چھین سکتی۔ اسے یقین تھا کہ اسکا چیئرمین اسکی دسترس میں ہے۔ وہ خط لکھے گا تو اسکا جواب آئے گا, اسے دنیا کی کسی فوج کا ڈر نہیں تھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ بھٹو کے ہوتے کوئی اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ اسے یقین تھا کہ جس بھٹو نے اسکے سر پر چھت دی ہے، اسکے بچوں کیلئے اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک مفت تعلیم کا انتظام کیا ہے، جس نے اسے شناختی کارڈ پاسپورٹ کا حق دیکر روزگار دلایا ہے وہ بھٹو ہندوانہ سماج کی پرتوں کو چیر کر بھی اسے بچا لے گا اور یہی مان جیالوں کو بی بی شہید پر تھا، آج اگر بلاول بھٹو امیرِ کارواں ہے تو جیالوں کو اس بات پر رتی برابر بھی شک نہیں کہ انکا چیئرمین انکے ساتھ کھڑا ہے۔ اب کوئی ہمارے چیئرمین کی ہرزہ سرائی کرے، یا کسی دیگر جماعت کے ایجنڈے کیلئے ہماری قیادت پر طعنہ زنی کرے تو جیالے اسکا جواب بالکل اسی زبان میں دیں گے جس زبان میں کامریڈ شاہدہ جبین نے اختر عبدالرحمن کا سواگت کیا تھا۔ ہم آج بھی بالکل ویسے ہی لڑ پڑیں گے کہ جب نواز شریف نے محترمہ کو بین الصوبائی عدالتی پیشیوں میں الجھا کر ذلیل کرنا چاہا تو لیاری کے 24 سالہ شکیل چوہدری نے جیالا اخلاقیات کے تحت اٹارنی جنرل پاکستان چوہدری محمد فاروق پر حملہ  کر کے محترمہ کو روزانہ کی پیشیوں سے نجات دلائی تھی۔

لہٰذا جہلا آنکھیں کھولیں اور جان لیں کہ یہ جیالے ہیں، انکے لیئے بھٹو خاندان ذوالفقار علی بھٹو کی امانت ہے۔ جو اس پر لفظوں سے حملہ کرتا ہے، ہم حرف حرف اسکی بیخ کنی کرتے ہیں، کوئی بم لیکر آ جائے تو ہم جسم جسم کٹ کر انکی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی شہید بھٹو سے جیالوں کا عہد ہے کہ ہم ہر سرد گرم میں اسکی اولاد کا لباس بنیں گے، لہذا سارے زباں دراز جان لیں اور یاد رکھیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت انکے کام آوے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author