گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی میں پیتل تانبے، مسی برتنوں کی درجنوں دکانوں اور بے تحاشاکاروبار کی وجہ سے چوگلے کے جنوب سمت کے بازار کو مسگراں بازار یا ٹھٹھاراں والا بازار کہا جاتا تھا۔ اس بازار کے کاریگر سارا سال طرح طرح کے خوبصورت برتن بناتے اور مقامی ضرورت کے علاوہ سردیوں میں افغانستان کے تاجر پاوندے کروڑوں کا سامان خرید کر پہلے ہندوستان کے شھروں جا کر بیچتے اور واپسی پر کابل لے جاتے۔ درجنوں دکانوں پر مشتمل مسگراں بازار اب صرف دو تین دکانوں تک محدود ہو کر رہ گیاہے۔ ان دو تین دکانوں میں بھی پیتل، تانبے اور مس کے برتنوں کی جگہ سٹیل اور پلاسٹک کے برتنوں نے لے لی ہے تاہم اپنے آباء و اجداد کے اس کاروبارکو انہوں نے کسی نہ کسی طریقے سے تاحال زندہ رکھا ہوا ہے۔ ماضی میں یہاں تانبہ سازوں کی چھینیوں پر پڑنے والی ہتھوڑیوں کی ٹھن ٹھن کی آوازیں گونجتی تھیں۔ مگر اب صرف چنگچیوں اور موٹر سائیکل شور مچاتے نظر آتے ہیں۔ زمانے کی ترقی کے باعث نہ اب پیتل، تانبے کے بر تن رہے اور نہ ان کے قدر دان، نہ وہ ہنرمند اور نہ ہی ان کاٹھکانہ۔
جب گھروں میں پیتل، تانبے اور مس کے برتن استعمال ہوتے تھے تو "بھانڈے قلعی کرا لو” کی آواز گلی محلوں کے لیے نئی نہیں تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا شاید ہی کوئی محلہ، گلی یا گھر اس صدا سے ناواقف ہو۔ چھوٹی سی قلعی گری کی ہاتھ والی مشین اور چند اوزاروں کے ساتھ کوئی نہ کوئی شیدا قلعی گر کسی نہ کسی روز، کہیں نہ کہیں آواز لگاتا تھا۔ بھانڈے قلعی کرالو اور گھروں کے کونوں کھدروں میں ڈھکے چھپے، کالے سیاہ، ڈینٹ پڑے، پیتل، تانبے اور لوہے کے ناکارہ برتن آناً فاناً گلی میں جمع ہو جاتے تھے۔شیدا قلعی گر چمتکار دکھاتا اور پل بھر میں چند پیسوں کے عوض یہی برتن چمکتے دمکتے، نوے نکور اور کاریگر بن کر گھروں میں سج جاتے۔ اب بھی ان برتنوں کی کچھ نشانیاں لوگوں نے سنبھال رکھی ہیں۔مگر ٹھٹھاراں والا بازار میں ٹھٹھار یا مسگر کہیں نہیں ملتے اور یہ فن بھی ہم سے چلا گیا۔
"اب میں ہوں اور ماتمِ شہرِ آرزو”
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر