سجاد جہانیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے خیال میں کیا وجہ ہے کہ وقت کے میدان میں لگی دوڑ میں سافٹ کاپی کے مقابلہ میں ہارڈ کاپی ہانپ رہی ہے۔ کیوں رفتہ رفتہ ہارڈ کاپی یہ مقابلہ ہار رہی ہے؟ یہ ویسا ہی معاملہ ہے جو مادے سے بوجھل جسم اور روح کے مابین ہے۔ روح کو مادے کے بوجھ تلے دے کر محدود کر دیا گیا ہے وگرنہ اس کی پرواز تو زمان و مکاں سے مبرا ہے۔ سافٹ کاپی بھی مادے کے بوجھ سے عاری ہے۔ کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہو، اس کو دیکھنے ہوئے گرد نہیں جھاڑنی پڑتی۔
سافٹ کاپی کے مسام نہیں ہوتے چنانچہ ان میں دھول مٹی کے جذب ہونے کا سوال ہی نہیں۔ اس لئے اسے دیکھتے، پڑھتے ہوئے چھینکنا نہیں پڑتا۔ جان ہلکان کر کے انبار میں سے تلاش نہیں کرنا پڑتا۔ سافٹ کاپی کہیں لامکاں میں محفوظ ہوتی ہے۔ جگہ نہیں گھیرتی، ایک کمانڈ دو اور مطلوبہ چیز آپ کی سکرین پر حاضر۔ انسان سہل پسند ہے سو آسانی کو جلد اپنا لیتا ہے۔
میرے گھر میں اوپر کی منزل پر ایک کمرہ ہے جس میں کتابوں اور کاغذات کی ہارڈ کاپیوں کے انبار ہیں۔ سب سے پرانی کتاب سن اٹھارہ سو ننانوے کی ہے اور تازہ ترین کا کیا ذکر کروں کہ جب تک یہ تحریر آپ کی نظروں کا التفات پائے، وہ تازہ ترین نہ رہے گی۔ ان میں لٹریچر کی طالبہ میری اہلیہ کی کتابیں بھی ہیں اور کچھ زبان فرنگ کی کتابیں جو میری بیٹیوں زینب اور امامہ کی ہیں۔ زہرا کو نصاب سے ہٹ کر کتابوں سے کوئی سروکار نہیں۔
اس انبار میں بڑے بڑے خاکی لفافے بھی ہیں جن کے اندر وقت کی دھوپ میں کملائے ہوئے کاغذات ہیں۔ ادھ لکھی تحریریں جو کسی خاص ذہنی رو کے تحت شروع کیں اور مکمل نہ ہو سکیں۔ کتابوں، مضامین، کالموں، کہانیوں کے ہاتھ سے لکھے اور کمپوز شدہ مسودے۔ اخبارات میں چھپنے والی میری تحریروں کے تراشے اور کچھ پرانے اخبارات۔ کچھ خط بھی تھے اور ان میں لپٹی چند تصویر ہائے بتاں بھی مگر بائیس برس پہلے جب شادی کا چرچا ہوا تو پیشگی احتیاط کے طور پر میں نے انہیں تلف کر ڈالا تھا۔
تاہم ”اس گلی میں مجھ سے پہلے میرے افسانے گئے“ والا معاملہ ہوا۔ مخبری کرنے والوں نے اپنا کردار بحسن و خوبی نبھایا۔ نتیجہ یہ کہ بیگم صاحبہ ایک ایک مکتوب نگار سے واقف و آگاہ ہیں۔ تاہم چونکہ ”ثبوت“ میسر نہیں سو یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں کی بعد مرنے کے مرے گھر سے وہ ساماں نہ نکلے گا جو بزم اکبر آبادی کے گھر سے نکلا تھا۔
چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
ہاں مسودے ضرور نکلیں گے اور بہت ڈھیر ساری کتابیں بھی۔ پتہ نہیں کس جذبے کے تحت میں نے انہیں سنبھال رکھا ہے۔ اتنا کچھ نیا چھپ رہا ہے کہ پرانے کو دوبارہ پڑھنے کی نوبت کم کم ہی آتی ہے۔ ایک زمانے میں لوگ ڈائری لکھا کرتے تھے۔ مجھے بھی کئی دفعہ یہ شوق چرایا مگر بوجوہ اسے پورا نہ کر پایا۔ ایک تو میں شروع دن سے اخبار کا لکھاری ہوں۔ بہت چھوٹا سا تھا جب اخبار سے رفاقت ہو گئی۔ سویرے گاڑی کے پیچھے پڑا اخبار اٹھا کر ابا جی کو پہنچانے کی ذمہ داری میری تھی۔
ہارڈ کاپی سے اٹھتی نیوز پرنٹ اور روشنائی کی مہک سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ یہ مہک آج بھی مرغوب خاطر ہے۔ یہ امروز کا زمانہ تھا۔ ذرا بڑا ہوا اور سکول جانے لگا تو ابا جی سرخیاں پڑھواتے۔ تبھی امروز کے ہفتہ وار بچوں کے ایڈیشن نے توجہ کھینچی اور ایک دن کہیں ادھر ادھر سے لطیفہ اٹھا کر امروز کے ایڈیشن ”بچوں کی دنیا“ میں بھیج دیا۔ وہ چھپ گیا۔ اپنا نام اخبار میں دیکھ کر جو نشہ ہوا، آج تک اسی کا ہینگ اوور چلا آتا ہے۔ پھر طویل سفر ہے لیکن یہ چسکا ایسا تھا کہ جو جو کچھ لکھا چھپنے کے لئے لکھا۔
سو ڈائری لکھنا مجھے ایک کار فضول لگا۔ دن بھر کی روداد لکھ کر ڈائری کو سڑنے کے لئے الماری میں ڈال دینا کہاں کی دانش مندی ہے بھلا۔ دوسرا ڈائری کو جب کھولو وہ آپ کو بیتے دنوں میں لے جاتی ہے۔ گزرے وقت کی سیر دیکھنا مجھے مرغوب ہے مگر جب اس میں جزئیات شامل ہو جائیں تو وہ گزرے وقت کی یاد میں ایک ملال انگیز اداسی پیدا کر دیتی ہیں۔ چنانچہ اس کیفیت سے بچنے کے لئے میں نے ڈائری کبھی نہیں لکھی۔ میں شاعر کی طرح حافظہ چھن جانے کی دعا تو نہیں کرتا تاہم یاد ماضی پر نسیاں کی گرد پڑی رہے تو اچھا ہی ہے، انسان کو حال میں رہنا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے پورا سچ لکھا جاسکتا ہی نہیں۔ نہ ڈائری میں نہ اخبار میں۔ ایک تو حتمی سچ تک رسائی انسانی بس سے باہر ہے پھر بعض سچ انسان خود سے بھی شیئر نہیں کرنا چاہتا۔ سو جب ادھوری باتیں ہی لکھنی ہیں تو اخبار زیادہ بہتر ہے۔
پچھلے دنوں اپنی تحریروں کا انتخاب کتابی صورت مرتب کیا۔ پچھلے چند برس کا مواد تو سافٹ کاپی کی صورت اپنے موبائل فون ہی میں مل گیا۔ تاہم پرانی تحریروں کے لئے ناک منہ پر ڈھاٹا باندھ کے اوپر کے کمرے میں پڑے اس انبار میں غوطہ زن ہونا پڑا۔ جوں جوں لفافے کھولتا گیا، گزرے دن مجھ پر یلغار کرتے گئے۔ حالانکہ میں بہت کم لکھتا ہوں، یہی ہفتے دو ہفتے میں ایک آدھ کالم، پھر بھی فائلیں اور لفافے بھرے پڑے تھے۔ میں نے سوچا جو لوگ روز لکھتے ہیں، وہ اپنا ریکارڈ کیسے اور کہاں جمع رکھتے ہوں گے۔
تبھی خیال سافٹ اور ہارڈ کاپی کا موازنہ کرنے لگا۔ آگے جو زمانہ آ رہا ہے، وہ شاید ہے ہی سافٹ کاپی کا۔ یہ کاغذ اور روشنائی کی خوشبو وہ مہمان ہے جس نے اپنا سامان باندھنا شروع کر دیا ہے۔ سویرے اٹھتا ہوں تو وٹس ایپ گروپوں میں تازہ اخبار پی ڈی ایف کی صورت شیئر ہوئے ہوتے ہیں۔ تاہم میں چونکہ ہارڈ کاپی کے زمانے کا ہوں سو مجھے آج بھی چھپا ہوا اخبار پڑھنا مرغوب ہے۔ مگر میری نسل کے پاس وقت ہی کتنا بچا ہے بھلا۔ ہمارے پیچھے آنے والے سافٹ کاپی کے دلدادہ ہیں۔ تغیر کو ثبات ہے اور تبدیلی آ کر رہتی ہے۔ لکھنے والے اور پڑھنے والے کا رابطہ رہنا چاہیے۔ حرف زندہ رہیں، ان کا قیام کاغذ پر ہو یا سکرین پر، اس سے کیا فرق پرتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر