احمد اعجاز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت اپنے اقتدار کے اُس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ،جہاں تنقید کی خاردار جھاڑیاں ہیں۔کسی بھی حکومت کے لیے اقتدار کاتین برس کا عرصہ ،اُس کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
مگر اقتدار کا چوتھا برس ،گذشتہ تین برس کی کارکردگی کو یکسر نیا پیراہن اُوڑھا سکتا ہے۔تاہم ماضی کی حکومتوں کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ اُن کے اقتدار کا چوتھا برس یا تو آیا نہیں اگر آیا تو حکومتیں بحرانوں میں گھِری رہیں۔دوہزار آٹھ سے دوہزار اَٹھارہ تک دوسیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن برسرِ اقتدار رہیں ،لیکن اِن دونوں جمہوری حکومتوں کا چوتھا سال بحرانوں کا شکاررہا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے اُس وقت کے وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی ،وزیرِ اعظم نہ رہے اور راجہ پرویز اشرف کو وزیرِ اعظم بنایا گیا۔وزیرِ اعظم کی یہ تبدیلی ،پالیسیوں اور کام کے تسلسل پر ضرور اثر انداز ہوتی ہے ،اسی طرح پانامہ پیپرز بحران کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیرِ اعظم نہ رہے تو شاہد خاقان عباسی نے اُن کی جگہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔اگرچہ شاہد خاقان عباسی نے بہت محنت اور جانفشانی سے اپنے فرائض نبھائے اور ہمہ وقت کام میں مصروف رہے ،مگر میاں نواز شریف کا وزیرِ اعظم کی کرسی پر نہ رہنا ہی اپنی جگہ ایک بڑا بحران تھا۔
یہ المیہ ہے کہ جب حکومتوں کو عوام کی خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ کسی نہ کسی بحران کی زَد میں آکر اُس کارکردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہتی ہیں ،جن کی اُن سے توقع کی جارہی ہوتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو فی الحال کسی ایسے بحران کا سامنا نہیں ،جس بحران کا ماضی کی حکومتیں شکار ہوتی رہی ہیں۔وزیرِ اعظم عمران خان کی کرسی کو کوئی خطرہ نہیں ۔یہ ایک ایسے وزیرِ اعظم ثابت ہوسکتے ہیں ،جو اپنے اقتدار کا عرصہ پورا کریں گے۔وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کو ا گر کسی چیز سے شدید اندیشہ لاحق ہوسکتا ہے تو وہ چیز مہنگائی ہے۔
مہنگائی کا عفریت ،وزیرِ اعظم عمران خان کی شخصیت کے اُس کرشماتی پہلو کو بھی نگل سکتا ہے ،جو پی ٹی آئی کی جیت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اب جب حکومت اپنے اقتدار کے تین برس کا عرصہ مکمل کرچکی ہے،تحریکِ انصاف کے حمایتی افراد حکومت کی ناکامی کی باتیں کرنا شروع کرچکے ہیں۔ملک کے بعض نامور کالم اور تجزیہ نگار اپنے کالموں اور تجزیوں میں ،عمران خان کو ناکام وزیرِ اعظم قرار دے رہے ہیں۔سوشل میڈیا اور یو ٹیوب پر پاکستان تحریکِ انصاف کے حامی نوجوانوں کے ہاں پسپائی کا رویہ پنپتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔
اب وہ وزیرِ اعظم عمران خان کی حمایت میں کمزور پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔مہنگائی کے ساتھ ساتھ ،حکومتی مؤقف کو درست تناظر میں پیش نہ کرسکنا بھی ،حکومت کے کمزور ہونے کے تاثر کو مضبوط کرسکتا ہے۔بعض وزراء ٹی وی ٹاک شوز میں ایسی گفتگو کررہے ہوتے ہیں ،جو گفتگو حکومتی اقتدار کے پہلے چھ ماہ میں کی جاتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کے اہم وزراء ، اقتدار کے پہلے چھ میں رُکے ہوئے ہیں۔
وہ وہاں سے نکل کر یہ محسوس ہی نہیں کررہے کہ حکومتی اقتدار کا اہم ترین سال شروع ہو چکا ہے ۔علاوہ ازیں بعض وزرا ء کے پاس نیا کہنے کے لیے کچھ پاس نہیں ،وجہ یہ ہے کہ وزراء نوازشریف دُشمنی کے حصار میں پھنسے رہے ،اِدھر اُدھر سوچنے اور غور کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔وزیرِ اعظم اور اُن کے وزراء یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ میاں نوازشریف دُشمنی کا ہتھیار ایک وقت میں کھردرا ہو کر بے کار ہو جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ آج وزیرِ اعظم اور اُن کی حکومت کو اپنے حامی کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔حکومت اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اِضافہ کرے یا پھر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھائے،حکومت اور وزراء کے پاس اس کے جواز کے لیے ٹھوس دلائل کا فقدان ملتا ہے۔اب جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا ،اپوزیشن جماعتوں کے اندر جان پڑتی جائے گی۔
احتساب کے نام پر جو لوگ زیرِ عتاب رہے ،وہ اس وقت اگلے الیکشن کی تیاری میں سرگرداں دکھائی دے رہے ہیں ۔حمزہ شہباز شریف جنوبی پنجاب کا دورہ کر چکے ہیں اور وہ وہاں حکومتی جماعت کے بعض کارکنان کو اپنی جماعت میں شامل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔عام ووٹرز اور شہری جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک وقت میں جس شخص کو کرپٹ قراردے کر احتساب عدالتوں کے چکر لگوائے گئے ،وہی شخص اگلے انتخابات کی تیاری میں مصروف ہے تو اُن کی سوچ میں تبدیلی آجاتی ہے ۔
اگر حکومتی اقتدار کا چوتھا سال ،تیسرے سال کا تسلسل ثابت ہوا اور اگلے انتخابات کا وقت قریب آن پہنچا تو وزیرِ اعظم عمران خان کے پاس اگلے انتخابات میںجانے کے لیے کون سے نعرے ہوں گے؟مہنگائی کے ستائے عوام ،عمران خان کے نعروں پر کان دھریں گے؟ایک ایسے شخص کے نعرے ،جس کی اپنی شخصیت کا کرشماتی پہلو ماند پڑچکا ہو؟ وزیرِ اعظم عمران خان اور وزراء (جو اپنا اپنا حلقہ انتخاب رکھتے ہیں)کوموجودہ وقت کی پُکار پر غور کرنا ہوگا۔یہ وقت تقاضا کررہا ہے کہ عوام کے مسائل کو ترجیح دی جائے ،اس پہلو پر اپنی توانائیاں صرف نہ کی جائیں کہ ن لیگ دھڑے بندی کا شکار ہو چکی ہے۔
میم سے شین نکل آئی ہے ،وغیرہ۔میم سے شین نکلے یا نہ نکلے ،اگر موجودہ حکومت نے اپنی ترجیحات تبدیل نہ کیں تو اگلے انتخابی معرکے میں اُترنے سے پہلے پی ٹی آئی بطور پارٹی شدید نوع کے بحرانوں کا شکار ہوچکی ہوگی ۔یہ دھڑوں میں بٹ سکتی ہے ،نیز کئی اہم افراد جو کہ اس وقت وزارت کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں ،پردہ سکرین سے غائب بھی ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر