سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹوں کی قیمتوں میں 200فیصد اضافہ کی اطلاعات ہیں۔ مفت ملنے والی ڈینٹل آئوٹ ڈور پرچی اب 50روپے کی ملے گی۔خون کا ٹیسٹ 100سے 200، ایل ایف ٹی 50سے 300روپے میں ہوگا۔ سی ٹی سکین ٹیسٹ ایک ہزار سے 2500روپے کا کردیا گیا ہے جبکہ ادھر کچھ عرصہ قبل ہی ادویات کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی صحت کے میدان میں پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ جلد ہی سرکاری ہسپتالوں کو مکمل طور پر غیرفعال کرکے پرائیویٹ کلینکس کی چاندی کرنا چاہتی ہے حالانکہ نجی ہسپتالوں میں پروفیسر صاحب سے چیک کروانے کے لئے کئی کئی ہفتے پہلے اپائنمنٹ لینا پڑتی ہے اور اگر اب حکومت نے پرائیویٹ کلینکس کو مزید نوازنے کی ٹھان لی ہے تو اس پر عوام کو واقعی گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ حکومت کی صحت عامہ سے متعلق پالیسیوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ وہ عوام کو فوری طور پر قبر میں پہنچانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے تاکہ خان صاحب وطن سے غریب ختم کرنے کے نعرے کو سچ ثابت کرسکیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان کی سوچ میں ایک بڑی واضح تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ وہ عمران خان جو ہر وقت عوام سے وابستگی کا دم بھرتے تھے، ان کی صحت کو درپیش مسائل کے بارے میں پریشان رہتے تھے آج تو معاملہ یکسر ہی الٹ ہے اسی لئے تو سرکاری ہسپتالوں میں جو پورے سورے ٹیسٹ ہوتے بھی تھے ان کی سہولت بھی عوام سے چھیننے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ اسی لئے تو ٹیسٹوں اور پرچی کی فیس میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے جو مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہے۔ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ حکومت تو ویسے ہی خدا کے سہارے چل رہی ہے کہ اس نے 3برس گزرنے کے باوجود اپنی سمت کا تعین آج تک نہیں کیا اسی لئے تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ عوام نامی مخلوق حکومتی ترجیحی فہرست سے مکمل طور پر خارج ہیں۔
پاکستان کے غریب عوام کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوگا کہ ایک طرف وزیراعظم مہنگائی کا اعتراف کررہے ہیں اور ساتھ ہی عوام کو تکلیف نہ دینے کی بھی بات کررہے ہیں جو صریحاً عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے کہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا قطعاً کوئی اندازہ نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مہنگائی کا جن سر پر بیٹھ جائے اور عوام کو تکلیف نہ ہو۔ وزیراعظم کی یہ معصومیت تو سب جانتے ہیں کہ ایک دور میں شرمیلا سمجھا جانے والا شخص اب بات کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہے اور عوام کو انہی لچھے دار باتوں میں الجھاکر انہوں نے 3برس تو حکومت کرلی لیکن اگر اب بھی یہی معاملہ رہا تو نتیجہ آگے کھائی پیچھے سمندر والا بھی ہوسکتا ہے۔ عمران خان شروع دن سے یہ بات کررہے ہیں کہ وہ نظام امیروں کے ہے اور نچلے طبقے کو اس سے کچھ نہیں مل رہا۔ ویسے سننے میں یہ بیان کتنا اچھاہے اس لئے یہ بیان عوام کے کانوں میں رس گھولتا ہے لیکن جب ایسی باتیں ایک اپوزیشن لیڈر کررہا ہوتا ہے کہ چلو حکومت کو نہ سہی اپوزیشن تو ان کا دکھ اور اس کی تکالیف کو سمجھتی ہے تاہم عمران خان کو اب یہ سمجھنا چاہیے کہ اب وہ اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ اس ملک کے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہیں اس لئے نظام امیروں کے لئے ہے نچلے طبقے کو کچھ نہیں مل رہا جیسے بیانات سے گریز کریں بلکہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام عوام کو ڈلیور نہیں کررہا تو اس گلے سڑے اور بوسیدہ نظام میں اصلاح لانے کی تدبیر کریں کیونکہ وہ اس وقت حکومت میں ہیں اور کسی سے شکایت نہیں کرسکتے بلکہ انہیں جہاں جہاں مسئلہ اور مشکل سمجھ میں آتی ہے اس کو ختم کرنے کے لئے اپنے اختیارات استعمال کریں۔ عوام کو آج اپنے مسائل کا حل چاہیے، ریلیف چاہیے کیونکہ اب مہنگائی ہے، بیروزگاری ہے، غربت ہے، ادویات مہنگی ہیں، پٹرول مہنگاہے، بجلی مہنگی ہے حتیٰ کہ سب کچھ مہنگا ہے مگر ہمارا لیڈر عمران خان ایماندار ہے ،سے عوام کا پیٹ مزید کسی طور بھی نہیں بھرسکتا۔اس لئے یہ کہہ دینا کہ دنیا بھر میں اشیاء کی سب سے کم قیمتیں ہماری ہیں،کسی طورحکومت کے شایان شان نہیں۔عمران خان جو جمہوریت کے بڑے علمبردار سمجھے جاتے ہیں اگر ان کے پاس معیشت کی سمت درست کرنے کے لئے کوئی قابل شخص موجود نہیں ہے تو انہیں اپنی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے دوسروں کو موقع دینا چاہیے اور اس بات کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ جواب دے چکا ہے ارو وہ فوری طور پر کسی ریلیف کے منتظر ہیں کیونکہ جھوٹی تسلیاں اب ان کو مزید رام نہیں کرسکتیں۔
پاکستان میں عوام کو پہلے ہی صحت اور تعلیم کے نام پر جو ناکافی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ایسے میں ٹیسٹوں کی فیسوں میں کئی گنا اضافے سے ملک کے غریب عوام کیسے نبردآزما ہوپائیں گے، کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولیات کا کیا ذکر کیا جائے کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے کہ عوام کو جو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں وہ ان مشکلات میں مزید اضافہ کررہی ہیں جبکہ ادھر فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے بھی ادویات کی قیمتوں میں ہر پندرہ دن کے بعد اضافے کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 3برس میں ادویات کی قیمتوں میں 80فیصد اضافہ ہوا ہے جو اس امر کی عکاسی کرتاہے کہ حکومت دیگر اشیاء کی طرح ادویات کی قیمتوں کو بھی کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر یہاں بات ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نامی ادارے کی کی جائے تو اس کے پاس تمام مسائل کے حل کی دوا قیمتوں میں اضافے کی پڑیا میں موجود ہے۔ اگرچہ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ کامیاب پاکستان پروگرام کا مقصد محروم طبقات کو بااختیار کرنا ہے لیکن زمینی حقائق اس کے قطعی برعکس ہیں کیونکہ پٹرول کے بعد بجلی کی قیمتوں میں ایک روپے 65پیسے کا خطیر اضافہ صارفین پر 90ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالے گا۔ اب بدترین مہنگائی کے تھپیڑے کھاتے عوام اس سے کیسے نبردآزما ہونگے، کا اندازہ لگانا اس رپورٹ کی روشنی میں کوئی مشکل نہیں کہ جب پاکستان میں درمیانے طبقے کا وجود بالکل ہی مفقود ہوکر رہ گیا ہے جبکہ دیہاڑی دار طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ عوام نے حکومت کو ووٹ معاشی حالات میں بہتری لانے کے لئے دیئے تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یہ حکومت بھی اپنے پیش روئوں کے نقش قدم پر چل نکلی اور آج جب عوام بدترین حالات کا شکار ہیں تو عملی اقدامات کی بجائے وعدوں اور طفل تسلیوں پر ہی حسب روایت ٹرخایاجارہا ہے۔
مہنگائی کا قہر برساتا سورج جہاں عوام کے لئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے وہیں حکومت کے لئے بھی آنے والے دنوں میں تکلیف دہ صورتحال کا باعث بن سکتا ہے خاص طور پر اس وقت جب الیکشن میں کچھ زیادہ وقت نہیں رہ گیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح عوام کی عدالت میں جائیں گے۔ 3برس معیشت کی سمت کا تعین کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں لیکن حکومت جس ڈگر پر گامزن ہے اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت بھی پاکستان میں افغانستان جیسی صورتحال چاہتی ہے۔ افغانستان میں محکمہ صحت تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے جس کی بڑی وجہ بین الاقوامی فنڈز منجمد ہونے کے بعد امداد کا انحصار کرنے والی معیشت کو شدید بحرانوں کا سامنا ہے۔ بلاشبہ معیشت کی ترقی کے لئے پالیسیوں کا تسلسل بھی ضروری ہے لیکن ایسی پالیسیاں جن کا مقصد صرف اور صرف غریب عوام کے لئے ہی مشکلات پیدا کرنا ہے۔ حکومت جو عوام کو صحت انصاف کارڈ فراہم کرنے کے دعوے کررہی ہے وہ بھی صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہیں اس لئے اگر حکومت اگر عوام کی تکالیف بارے کوئی احساس یا درد نہیں رکھتی تو ایک مرتبہ ہی عوام کو الیکٹرک شاکس دے کر موت کی نیند سلادے کیونکہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی خسارہ 100فیصد سے زائد ہونا درحقیقت حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ ایسے میں سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کا کہنا ہے کہ آج دنیا میں ہر چیز مہنگی جبکہ صرف موت سستی رہ گئی ہے اس سے پہلے کہ پاکستان کے حالات افغانستان جیسے ہوں جہاں 300ملین ڈالر کی عدم ادائیگی کی بنا پر بجلی بند ہونے کا امکان ہے۔ امریکی میڈیا کےمطابق افغانستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے وسط ایشیائی ممالک سے 80فیصد بجلی درآمد کرتا ہے۔ افغانستان میں واقع سب سے بڑا بجلی گھر افغان بجلی گھر وسط ایشیائی ممالک کا 90ملین ڈالر کا مقروض ہے۔ ایران سے بجلی لی جاتی ہے، کابل آج جس بدترین معاشی بحران کا شکار ہے اگر پاکستان کی حکومت نے معاشی حالات کے سدھار کے لئے سنجیدگی سے کوششیں نہ کیں تو معاملات کسی سنگین تلخی کو جنم دے سکتے ہیں ایسے میں حکومت وقت بالخصوص عمران خان پر لازم ہے کہ وہ کچھ تو ہتھ ہولا رکھیں، یہی وقت کی پکار ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ