سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں حمزہ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سویلین بالادستی چاہتے ہیں، ہماری اداروں سے لڑائی نہیں بلکہ ہم غربت اور مہنگائی کے خلاف لڑرہے ہیں، عوام کے پاس روٹی اور بجلی بلوں کے پیسے ہیں، جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا وعدہ پورا نہ ہوسکا، 15ہزار ارب کا قرضہ لے کر ایک اینٹ بھی نہ لگائی۔ ادھر حمزہ شہباز کے دورہ ملتان کے موقع پر بدترین ٹریفک جام رہی اور عوام جو پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں، کو مزید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور وہ برملا کہتے نظر آئے کہ اس ٹریفک کو جام کرنے کا مقصد درحقیقت حمزہ شہباز کے جنوبی پنجاب بالخصوص ملتان کے دورے کو کامیاب کروانا تھا۔ اب حمزہ شہباز کا دورہ ملتان کتنا کامیاب ہوتا ہے اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم سیاسی جماعتوں کے اہر لیڈران کے تواتر کے ساتھ دوروں سے ایک بات تو کھل کر سامنے آگئی ہے کہ انہیں آئندہ الیکشن میں جنوبی پنجاب کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے اور انہوں نے ابھی سے اس کی تیاری بھی شروع کردی ہے جبکہ دوسری طرف حکمران جماعت کا راوی اس حوالے سے چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے عون عباس بپی کو جنوبی پنجاب کا صدر بنایا ہے اور وہ بھی پارٹی کی تنظیم سازی کے لئے گاہے بگاہے میٹنگز کررہے ہیں لیکن دوسری یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ صرف تنظیم سازی تحریک انصاف کے لئے اس خطے میں حکومت بنانے کے لئے کافی نہیں ہوگی بلکہ حکومت کو اب کچھ ڈلیور کرنے بارے بھی سوچنا چاہیے۔ ابھی تک تو تحریک انصاف کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہی رہی ہے کہ اسے کسی قسم کی اپوزیشن کا قطعاً کوئی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہاں ایک مرتبہ پی ڈی ایم نامی تحریک شروع ضرور ہوئی تھی لیکن پیپلزپارٹی نے کٹی کرکے اس غبارے میں سے بھی ہوا نکال دی اسی لئے تو مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر چھوٹی جماعتیں اپنے تئیں جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں۔ اس لئے حکومت انتہائی اطمینان کے ساتھ عوام کو مہنگائی بڑھاتی جارہی ہے۔ حالانکہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل یہ نغمہ بڑا مشہور ہوا تھا کہ ’’جب آئے گا کپتان تو ٹھیک کرے گا سب کپتان‘‘ لیکن آج اگر عوام کی خستہ حالی کو دیکھا جائے تو ٹھیک کرے گا سب کپتان کی بجائے ’’ٹھوک دے گا کپتان‘‘ ہونا چاہیے کیونکہ خان صاحب عوام کو مہنگائی کا ٹیکہ ایسے ٹھوک ٹھوک کر لگارہے ہیں کہ وہ تو ادھ موئے ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس لئے میری نظر میں حکومت کی کوئی اپوزیشن ہے تو وہ صرف اور صرف مہنگائی ہے جسے حکومت اپنی تمام تر جدوجہد کے باوجود کنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
اگرچہ حمزہ شہباز شریف نے عوام کے مسائل پر دکھ کا اظہار کیاہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اپوزیشن کب تک خالی خولی احتجاجی بیانات تک ہی محدود رہے گی کیونکہ نہ تو احتجاجی بیانات سے کبھی مہنگائی کم ہوئی اور نہ اس سے عوام کو کوئی ریلیف ملنے کی توقع ہے۔ اب حمزہ شہباز کیا عوام کو یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ وہ عوام جس کے مسائل کا ادراک ہونے کا وہ دعویٰ کررہے ہیں ان کے وعدے کو کامیاب بنانے کے لئے ملتان کی ٹریفک ایک سڑک پر لاکر عوام کو جس تکلیف اور کرب سے گزارا، اگر انہیں ذرا سا بھی عوام کی تکلیف اور مشکلات کا ادراک ہوتا تو وہ صرف اپنے نمائشی دورے کو کامیاب کروانے کےلئے ایسا نہیں کرتے حالانکہ چشم فلک نے دیکھا کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی تعداد بھی کچھ اتنی حوصلہ افزا نہیں تھی کہ جس سے آئندہ الیکشن میں کامیابی کی نوید سنائی دے۔
تاہم جہاں تک سویلین بالادستی کا تعلق ہے تو کیا موصوف یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ 3مرتبہ اقتدار کے مزے لوٹنے والی جماعت کس منہ سے سویلین بالادستی کی بات اب کررہی ہے۔ اگر ایسا کرنا مقصود تھا تواس نے اپنے دور اقتدار میں اس حوالے سے کوئی اقدامات کیونکر نہیں کئے ۔ یہی نہیں بلکہ ان کے تایا اور ملک کے 3بار وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز شریف جس طرح اداروں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں آخر وہ جمہوریت کی کس طرح کی خدمت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا ماضی گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا کندھا استعمال کرکے اقتدار میں آئی اور اب جب مسلم لیگ (ن) کے قائد اور مریم نواز اداروں بالخصوص آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے نام لے کر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے مقامی نمائندوں کو بالخصوص بلال بٹ، شیخ طارق رشید سمیت دیگر کو کس طرح عوام کے تندوتیز بیانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس بارے حمزہ شہباز شریف کیا کچھ بتانے کی زحمت کریں گے۔ ایک طرف مریم بی بی ہیں جو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف جوکہ ان کے چچا بھی ہیں، کوئی بھی بیان دیتے ہیں تو وہ ان کی ذاتی رائے قرار دے دیتی ہیں تو ایسے میں حمزہ شہباز کی گھن گرج کی کیا وقعت ہوگی، بارے اندازہ لگانا بھی کوئی مشکل نہیں۔ ادھر شیخ رشید کی ن میں سے ش نکلنے کی بات بھی بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک درست ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔ کچھ اسی قسم کی بات سینئر سیاستدان اعتزاز احسن نے کی ہے کہ مریم اور حمزہ کا اتفاق کرنا بڑا مشکل ہے۔
تاہم مسلم لیگ (ن) کی کامیابی میں حمزہ شہباز شریف کا کردار کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب جب ان پر مشکل وقت آیا تو یہ حمزہ شہباز ہی تھے جنہوں نے نہ صرف جیلیں کاٹیں بلکہ مشکل ترین حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بلاشبہ شریف خاندان میں اگر کوئی شخص ہے جس نے مشرف کی بدترین ڈکٹیٹر شپ کا مقابلہ کیا ہے تو وہ حمزہ شہباز شریف ہی ہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کو مشرف دور میں بھی پروان چڑھایا۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ یہ حمزہ شہباز شریف ہی ہیں جنہوں نے مسلم لیگ ن کو پنجاب بالخصوص اپر پنجاب میں مضبوط کئے رکھا۔ آج پارٹی ورکرز اور کارکنوں، ایم پی ایز، ایم این ایز کا جتنا رابطہ حمزہ سے ہے شاید ہی نواز، شہباز یا مریم سے ہو۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اخبارات میں شریف فیملی میں اختلافات کی خبریں بھی شائع ہوچکی ہیں اس لئے اگر مسلم لیگ (ن) کے لئے کسی نے قربانیاں دی ہیں تو وہ حمزہ شہباز ہی ہیں جنہوں نے پارٹی مفادات کا تحفظ ہی نہیں کیا بلکہ حمزہ شہباز نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نرم رویہ رکھا یہی وجہ ہے کہ وہ آئینی دائرے میں رہتے ہوئے اداروں کے کام کرنے کی بات کرتے ہیں۔ بلاشبہ تحریک انصاف کی پالیسیوں سے معیشت تباہ، نوجوان بیروزگار اور مہنگائی نے غریب کا جینا حرام کردیا ہے لیکن حمزہ شہباز کیا اس ظرف کا مظاہرہ کریں گے کہ تحریک انصاف کے لئے بارودی سرنگیں بھی مسلم لیگ (ن) نے اپنی ہی حکومت کے دور میں بچھائی تھیں۔ مہنگے ترین قرضے، تاریخی مہنگی ایل این جی اور میٹرو اور سپیڈو بسوں جیسے تحفے بھی اس غریب ملک کے عوام کو یہ سوچے سمجھے بغیر دیئے کہ ان کے اصل مسائل کیا ہیں اور ان کی اصل ضرورتیں کیا ہیں۔ ویسے حمزہ شہباز ذرا ڈیری اور پولٹری کے کاروبار بارے بھی حقائق عوام کے سامنے رکھیں کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ عوام کے مفادات کا تحفظ کوئی سیاسی جماعت نہیں کرسکی ہے اور رہی بات جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کی تو اس کی اصل ذمہ دار خود مسلم لیگ (ن) ہی ہے جو شروع سے ہی اس کی مخالف رہی اور آج جنوبی پنجاب کے لوگ اگر مسلم لیگ (ن) سے نالاں ہے تو اس کی ذمہ دار وہ خود اور ان کی عوام دشمن پالیسیاں رہی ہیں کہ اس نے 7دہائیوں سے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے لئے کیا کیا جتن کئے اس لئے جنوبی پنجاب صوبے بارے بات کرنے سے قبل اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھی مقامی نمائندوں کی مشکلات کا ادراک کرنا چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانات سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ مقامی قیادت کیلئے اس قسم کے بیانیے کو سپورٹ کرنا انتہائی مشکل ہے۔ حمزہ شہباز ایک سیاسی ورکر ہیں تو انہیں دوسروں کا بھی احساس کرنا چاہیے۔ اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے میدان میں آئے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی نے مہنگائی کے خلاف جنوبی پنجاب میں احتجااجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے، بقول علی حیدر گیلانی، حمزہ شہباز کی قیادت میں صوبائی حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے تو اس سے ایک بات تو طے ہوجاتی ہے کہ پیپلزپارٹی شہباز اورحمزہ کا ساتھ دینے کو تیار ہے لیکن نواز ، مریم کے بوجھ کو کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کو اس وقت ایک صحیح اپوزیشن کی ضرورت ہے جو صحیح معنوں میں ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرے اور حکومت کو عوام کش پالیسیاں واپس لینے پر مجبور کرے، یہی وقت کی پکار ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ